بچے قوم کا مستقبل ہوتے ہیں۔
بچوں کی تربیت صحیح نہج پر کر کے ہی کوئی قوم ایک روشن مستقبل کی امید رکھ
سکتی ہیں، اس کے برعکس بچوں کی غلط تربیت کسی بھی قوم کی بربادی کا پیش
خیمہ ثابت ہوتی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ اسلام نے بچوں کی تربیت کو بہت اہمیت دی
ہے اور اس کے لئے جامع احکامات ارشاد فرمائے ہیں۔ اسلام میں بچوں کی تربیت
کی اہمیت اور ضرورت کے پیشِ نظر والدین کو اتنا بلند مقام عطا کیا گیا ہے،
بالخصوص ماں کو کیونکہ بچوں کی تربیت میں ماں بنیادی کردار ادا کرتی ہے اور
بچے کی سب سے پہلی درسگاہ بھی ماں ہی ہوتی ہے۔
’’روشن خیالی ‘‘کے اس دور میں جہاں ہم نے دیگر اسلامی احکامات سے انحراف
کرنا شروع کر دیا وہاں وہاں بچوں کی تربیت کے معاملے میں بھی ہماری غفلت
اور کوتاہی اپنی انتہا کو پہنچ چکی ہے۔ کسی نے کیا خوب کہا ہے کہ ’’ہمیں یہ
تو فکر ہوتی ہے کہ ہمارے مرنے کے بعد ہماری اولاد کا کیا بنے گا لیکن یہ
فکر نہیں ہوتی کہ اولاد کے مرنے کے بعد اُنکا کیا بنے گا‘‘۔ چنانچہ آج اپنے
بچوں کے مستقبل کے لئے صرف ایک ہی چیز کو ضروری خیال کیا جاتا ہے اور وہ ہے
مال۔ باقی بچوں کے اخلاق، کردار، عادات کی طرف ہماری توجہ خال خال ہی جاتی
ہے۔ صاف ظاہر ہے کہ پھر یہ پرواہ کب رہتی ہے کہ کس چیز سے بچوں کے اخلاق پر
برے اثرات مرتب ہو رہے ہیں اور کس چیز سے بچوں کا کردار مسخ ہو رہا ہے اور
کونسی چیزیں بچوں کی عادتیں خراب کر رہی ہیں۔
دوسری وجہ یہ ہے کہ دنیا کمانے کی دوڑ میں ہم کچھ ایسے مصروف ہو گئے ہیں کہ
اپنے بچوں کی تعلیم و تربیت کے لئے ہمارے پاس وقت نہیں رہا اور ہم نے اپنی
ذمہ داریاں صرف بچوں کی معاشی ضروریات پوری کرنے تک محدود کر رکھی ہیں یا
پھراچھے برے کی پہچان کئے بغیر بچوں کی خواہشات کو پورا کرنے کی کوشش کر
لیتے ہیں۔ بچے نہ تو اچھے برے میں فرق کرنے کی صلاحیت رکھتے ہیں اور نہ ہی
اس کے حصول کی طاقت ۔ یہ ذمہ داری والدین کی ہوتی ہے کہ بچوں کو یہ پہچان
بھی کروائیں اور اچھائی پر لگائیں اور برائی سے بچائیں۔ اس لئے والدین ہی
بچوں کے پہلے معلم بھی ہوتے ہیں۔ والدین نے اپنی اسی ذمہ داری سے دامن
بچانے کے لئے بچوں کو ایک ایسے خطرناک معلم کے حوالے کر دیا ہے جس کو شیطان
کا کارندہ ہی کہا جا سکتا ہے اور وہ ہے ’’ٹی وی ‘‘۔ ٹی وی جسے والدین اپنے
بچوں کے لئے تفریح اور تعلیم کا ذریعہ سمجھتے ہیں وہ اُن تباہ کن اثرات سے
آنکھیں بند کئے ہوئے ہیں جو شیطان کا یہ کارندہ بچوں کے کردار و اخلاق پر
ڈال رہا ہے۔ جب والدین ہی اپنے بچوں کی تربیت سے غافل ہو جائیں گے تو ظاہر
ہے بچے ماحول اور مادی اسباب سے تربیت حاصل کریں گے اور ان میں میڈیا
بالخصوص ٹی وی سب سے اہم کردار ادا کر رہا ہے۔ اس لحاظ سے اگر یہ کہا جائے
کہ نئی نسل کی تعلیم و تربیت کا مکمل بیڑہ میڈیا نے اٹھا لیا ہے تو بے جا
نہ ہو گا۔ پہلے بچے جو کچھ والدین‘ دادا‘دادی سے سیکھتے تھے۔ اب وہ تمام
وقت ٹی وی چینلز کی نذر ہو جاتا ہے۔ ویسے بھی جب والدین کے پاس اتنا وقت
نہیں ہوتا کہ وہ بچوں کو دیں تو بچے یا تو ویڈیو گیمز سے دل بہلاتے ہیں یا
پھر ٹی وی پر کارٹون اور موویز دیکھتے ہیں۔ پہلے ٹی وی محدود تھا اور اب ڈش
کے بعد کیبل آنے سے ساری دنیا کا ’’گند‘‘ ٹی وی میں سمٹ آیا ہے۔ ٹی وی آجکل
عام چیز ہو گئی ہے بڑے گھرانوں اور کئی عام گھرانوں میں بچوں کے کمروں میں
الگ ٹی وی رکھے ہوتے ہیں اور ان بچوں میں بچیاں بھی شامل ہوتی ہیں۔
یہ ٹی وی چینلز بچوں کو تفریح کے نام پر کیا کچھ دکھاتے اور سکھاتے ہیں اس
کا اندازہ صرف ٹی وی پر کارٹون نیٹ ورک سے لگایا جا سکتا ہے جس کی نشریات
خصوصاً بچوں کے لئے ہوتی ہیں ان میں مقصدیت اور حقیقت سے دور طلسماتی
کہانیوں میں ماورائی مخلوق کی تصویر کشی کے ساتھ ساتھ ہیرو ہیروئن کی
داستانیں بھی موجود ہوتی ہیں۔ یہ داستانیں بھی اُسی طرح فحاشی اور تشدد سے
بھرپور ہوتی ہیں جس طرح کہ بڑوں کے کردار و اخلاق کو تباہ کرنے کے لئے
فلمیں بنائی جاتی ہیں۔ اس سے بھی زیادہ خطرناک بات یہ ہے کہ اس کارٹون نیٹ
ورک پر دکھائی جانے والی کارٹون فلموں میں ہندو اپنے مذہب کی تبلیغ بڑے زور
شور سے کر رہے ہیں کیونکہ ان میں سے بہت سی کارٹون فلمیں اُردو ڈبنگ کے
ساتھ ہندو دیوتاؤں کی کہانیوں پر مشتمل ہیںجن کے ذریعے بچوں کے معصوم ذہنوں
میں اپنے مذہب کی خرافات اور بے حیائی پر مبنی قصے پہنچانا مقصود ہوتا ہے۔
مزاح اور تفریح کے نام پر گھٹیا کلچر پانچ‘ سات سال کی عمر کے بچوں میں
پروان چڑھنا شروع ہو جاتا ہے۔ بچوں کو کارٹون نیٹ ورک اتنا پسند ہوتا ہے کہ
وہ کھانا پینا تک چھوڑ کے کارٹون ٹائم میں ٹی وی کے سامنے آموجود ہوتے ہیں۔
بلکہ اب تو اس کا کوئی وقت مقرر نہیں جب بھی ٹی وی کا بٹن آن کیا تمام حیا
سوز چینل کے ساتھ بچوں کا کارٹون نیٹ ورک بھی موجود ہوتا ہے۔ آجکل بلا
مبالغہ تین چار سال کے بچے بھی اس کام میں ماہر ہوتے ہیں کہ کس طرح ٹی وی
آن کرنا ہے اور کیسے چینل تبدیل کرنا ہے۔ چونکہ اکثر بچے یہ کام والدین کی
مدد کے بغیر خود ہی کر لیتے ہیں اس لئے کارٹون نیٹ ورک لگانے کے دوران وہ
کس کس جگہ پر کیا کیا دیکھتے ہوں گے اس کا اندازہ لگایا جا سکتا ہے۔ ویسے
بھی والدین کے پاس کون سا وقت ہوتا ہے کہ وہ اس چیز پر کنٹرول رکھ سکیں کہ
اُن کے بچے ٹی وی پر کیا دیکھ رہے ہیں اور کیا نہیں دیکھ رہے۔ بذریعہ کیبل
ذہنی تفریح کے نام پر یہ سب خرافات بچوں کی معصومانہ سوچ کا حصہ بننا شروع
ہو جاتی ہیں۔ وہ عام زندگی کی تمام باتیں اس پیرائے میں سوچتے اور عمل کرتے
ہیں کیونکہ اس عمر میں بچے سیکھنے کا عمل سب سے زیادہ دیکھنے اور سننے کے
ذریعے کرتے ہیں اور انہی دو ذرائع سے سب سے زیادہ اثرات قبول کرتے ہیں۔
یعنی بچے کی وہ عمر جس میں اس کی تربیت کا سنہری دور شروع ہوتا ہے، میڈیا
کی نذر ہونے لگتی ہے۔
تربیت کے اس سنہری دور میں جب تمام تر ذمہ داری میڈیا پر ڈال دی جاتی ہے تو
بچہ وہی کچھ سیکھے گا جو اُسے میڈیا سکھا رہا ہے۔ سات سال کی عمر کے بعد جب
بچہ ذرا بڑا ہوتا ہے تو اسے ٹی وی ڈرامہ اور مووی میں دلچسپی پیدا ہونی
شروع ہو جاتی ہے اب آج کل ڈرامے اور فلمیں کس چیز کی تصویر کشی کر رہے ہیں
اور کیا سبق دے رہا ہے یہ کسی سے ڈھکی چھپی بات نہیں۔ جدیدیت کی دوڑ میں
شامل ہونے کیلئے نت نئے فیشن طرز زندگی اور رویے سب کچھ بدل گئے ہیں۔ ٹی وی
نے بچوں کے ذہن کو وقت سے پہلے فحاشی اور عریانیت کے تاروں سے لپیٹ دیا ہے
اور آج شہر کے بچوں کا یہ حال ہے کہ
ٹی وی کی بدولت فصل جلد پک گئی
بچہ بچہ شہر کا بالغ نظر آنے لگا
ٹی وی کا اثر ماحول کے ساتھ ساتھ بچوں پر کچھ ایسا حاوی ہوتا ہے کہ جب بچے
اسکول سے گھر لوٹتے ہیں تو کاندھوں پر اسکول بیگ اور ہونٹوں پر گانوں اور
ڈائیلاگ کی رٹ رہتی ہے اسکول کے سوال وجواب یاد کرنا بچوں کیلئے بہت دشوار
ہوتا ہے اور فلم کے گانے زبانی یاد رہتے ہیں۔یہ سب ٹی وی کی کرشمہ سازی ہے
کہ بچوں کو علم سے دلچسپی کم اور فلم سے انسیت زیادہ ہوتی ہے۔
ہمارے ہاں تو اب یہ بھی دیکھا گیا ہے کہ دودھ پیتے بچوں کو بھی مائیں ٹی وی
کے سامنے لٹا کر خود اپنے کاموں میں مصروف ہو جاتی ہیں، اُن کے بقول اس طرح
بچے کا دل بہلا رہتا ہے اور وہ روتا نہیں ۔ خدارا کچھ تو ہوش کے ناخن لیں
دل بہلانے کے لئے آپ اپنے بچوں کو کس آگ میں دھکیل رہے ہیں جس کے شعلوں میں
دنیا بھی جھلس جاتی ہے اور آخرت کی بربادی کا بھی خطرہ ہے۔کچھ اس سے ہی سبق
حاصل کریں کہ پیدا ہوتے ہی بچے کے کان میں اذان دی جاتی ہے تاکہ بچے کے
معصوم ذہن میں اللہ تعالیٰ کی عظمت بٹھائی جائے۔ اب خود سوچیں کہ ہم اپنے
بچوں کے ذہن و دل میں کیا بٹھا رہے ہیں۔
بچوں پر ٹی وی کے غلیظ اثرات کے بے شمار واقعات آئے دن پیش آتے رہتے ہیں،
عبرت کے لئے چند ایک ملاحظہ فرمائیں:
۱۔ شادی کی تقریب میں شریک ایک بچہ شادی کی رسومات کو بغور دیکھتا ہے اور
آخرکار اپنی والدہ سے سوال کرتا ہے کہ’’ امی پھیرے کب ہوں گے؟‘‘ اس بچے نے
ہندو تہذیب کے اثرات یقیناً ٹی وی سے قبول کئے ہیں۔
۲۔ میرے ایک دوست بیان کرتے ہیں کہ ’’میں ایک دن اپنے ایک جاننے والے کے
گھر گیا تو یہ دیکھ کر حیران رہ گیا کہ اسکا ایک بچہ اور ایک بچی جن کی
عمریں 5 سے 7 سال کے درمیان ہیں ایک نہایت اخلاق باختہ دوگانا گا رہے ہیں
اور وہ صاحب اور انکی محترم بیوی صاحبہ انکو روکنے کے بجائے داد سے نواز
رہے ہیں اور میرے سامنے انکی تعریفوں کے پل باندھ رہے ہیں، یہ کیا ہے کیبل
ہی کا تو کمال ہے کہ جو بچے ابھی کلمہ تو ٹھیک سے پڑھ نہیں سکتے وہ گانے گا
رہے ہیں۔‘‘
۳۔ یہ واقعہ خود راقم کے ساتھ کراچی میں پیش آیاکہ ایک صاحب کسی سلسلے میں
میرے ساتھ کچھ دیر کے لئے اپنے بچے کو بٹھا گئے اُس بچے کی عمر پانچ یا چھ
سال ہوگی۔ بچہ میرے ساتھ باتیں کرنے لگا اور اپنے خاندان کے قصے سنانے لگا
جس میں اُس نے بتایا کہ اُس کے ماموں کسی کی شادی پر گئے وہاں کچھ ڈاکو
آگئے میرے ماموں مقابلے پر آگئے انہوں نے میرے ماموں کو گولی ماری لیکن
میرے ماموں نے اُن سے پستول چھین کر اُن کو ہی قتل کر دیا اسی طرح کی گفتگو
وہ بچہ انتہائی سنجیدگی کے ساتھ تقریباً دو گھنٹے تک کرتا رہا۔ شروع میں تو
میں بہت حیران ہوا کہ کس طرح کا خاندان ہے ان کا لیکن جب اُس بچے نے موٹر
سائیکل سمیت چھت سے چھلانگ لگوانے اکیلے سینکڑوں آدمیوں سے مقابلہ کرنے،
پولیس سے بچ نکلنے اور کئی گولیاں لگنے کے باوجود بھی نہ مرنے جیسے واقعات
بھی اپنے ماموں سے منسوب کئے تو پھر میری سمجھ میں آیا کہ یہ بچہ جو کچھ ٹی
وی میں دیکھتا ہے وہ سب کچھ اس کے لاشعور میں بیٹھ گیا ہے اور اب وہ اُسے
اپنے ماموں یا خاندان کے کسی اور فرد سے منسوب کر کے بیان کر رہا ہے۔ اس
واقعے کو پانچ سال ہو چکے ہیں لیکن وہ بچہ اور اُس کی باتیں آج بھی میرے دل
و دماغ کو بے چین رکھتی ہیں۔ اور یہودیوں کا یہ ایجنٹ ٹی وی ہمیں حقیقت اور
اپنے مقصد سے کس قدر دور لے گیا ہے۔
۴۔ یہ واقعہ ایک مضمون میں پڑھا، مضمون نگار بیان کرتے ہیں کہ’’ کچھ دنوں
پہلے میں اپنے ایک دوست کے گھر کسی کام سے گیا تھا۔ اتفاقاً کچھ مہمان بھی
آ گئے جو کہ خواتین اور بچوں پر مشتمل تھے۔ مہمان نوازی کے لوازمات سامنے
رکھا گیا اور وہ لوگ آپس میں بیٹھ کر باتیں کرنے لگے۔تبھی ایک بچی نے جس کی
عمر بمشکل نو یا دس برس کی ہوگی اپنی امی سے مخاطب ہو کر کہنے لگی ’’امی
جلدی اپنے گھر چلئے نا نو بج گئے ہیں ‘‘ لیکن محترمہ نے کوئی توجہ نہ دی۔
اْس نے پھر کہا ’’امی نو بج گیا ہے ‘‘۔تیسری مرتبہ اس بچے نے اپنے گلے کو
دو انگلیوں سے پکڑ کر تیزآواز میں کہا امی نو بج گیا ہے’’قسم سے ‘‘ جب لفظ
قسم سے ‘‘ محترمہ کے کانوں سے ٹکرایا تو فوراً کہا اچھا بہن اب چلتی ہوں۔
قسم سے سیرئیل شروع ہونے والا ہے۔ یہ واقعہ دیکھ کر مجھے بے اختیار ہنسی
آگئی اور افسوس بھی ہوا کہ ٹی وی کا نشہ بچوں میں اس قدر رچ بس گیا ہے ان
کا مستقبل تاریک دکھائی دے رہا ہے۔‘‘
۵۔ ’’﴿جنگ بلاگ﴾ ۰۲ اکتوبر ۸۰۰۲ئ: کہتے ہیں کہ خواہ کوئی بھی معاشرہ ہو اس
پر فلم اور ٹی وی کے اچھے یا برے اثرات ضرور پڑتے ہیں۔ برائی میں چونکہ
زیادہ دلکشی محسوس ہوتی ہے اس لئے لوگ اس کی طرف زیادہ مائل ہوتے ہیں۔ اس
کا اندازہ پچھلے دنوں اخبار میں شائع ہونے والی اس خبر سے بخوبی لگایا
جاسکتا ہے جس کے مطابق کہروڑ پکا ﴿پنجاب﴾ میں خالہ زاد سے شادی کی خواہش
پوری نہ کرنے پر 8/ سالہ بچے نے زہریلی دوا پی لی جس سے اس کی حالت
تشویشناک ہوگئی۔ تفصیل کے مطابق نواحی علاقہ خان واکھوہ کے رہائشی 8/ سالہ
زاہد جو ایک مقامی مدرسہ میں قرآن پاک حفظ کررہا ہے ، اس نے والدین سے کہا
کہ وہ اس کی شادی خالہ زاد سے کریں۔ والدین نے سمجھایا کہ بڑے ہونے پر
تمہاری شادی کردیں گے جس پر زاہد حسین نے گھر میں موجود اسپرے پی لیا۔
بتایا جاتا ہے کہ زاہد 15/ روزہ چھٹیوں پر گھر آیا تھا اور اس دوران وہ
مسلسل فلمیں دیکھتا رہا تھا۔کیا واقعی معصوم و نا پختہ ذہنوں پر پڑھنے والے
فلمی اثرات اتنے بھیانک ہوسکتے ہیں؟ ‘‘
ٹی وی اور کیبل سے پیدا ہونے والی اخلاقی گراوٹ اور کردار کی پستی تو ازہر
من الشمس ہے لیکن اس کے طبی اور نفسیاتی نقصانات کس قدر ہیں اس کااندازہ
درج ذیل چند تحقیقاتی رپورٹس سے لگایا جا سکتا ہے:
۱۔ ہم بچوں کی تفریح اور کھیل کے مخالف نہیں ہیں لیکن کیا ایک ٹی وی ہی
تفریح کا واحد ذریعہ رہ گیا ہے؟ پھر ایسی تفریح کی اجازت کون عقلمند دے
سکتا ہے جو ہماری نسل کو تباہی کے دہانے پر لے جائے۔ آخراس ٹی وی کے فتنے
سے پہلے بھی تو بچے تفریح اور کھیل اختیار کرتے تھے۔
’’ایک ماہر صحت نے کہا کہ تیراکی، ہاکی ، فٹ بال ، والی بال اور باسکٹ بال
نہ صرف بچوں کو چست رکھتے ہیں بلکہ ان کھیلوں سے بچوں کی جسمانی صحت کی
بہتر نشوونما میں بھی مدد ملتی ہے جبکہ صحت مند ماحول میں ان کھیلوں سے اور
بھی بہتر نتائج حاصل ہو سکتے ہیں۔ بچوں کو ویڈیو گیمز کی فروخت ایک منفرد
تفریح اور تجربہ ہے۔ اس ہائی براڈ ٹیکنالوجی سے ٹی وی اور کمپیوٹر کے
استعمال میں اضافہ ہوا ہے جس کے باعث بچے دوسری صحت مندانہ سرگرمیوں سے دور
ہوتے جارہے ہیں۔ بچوں کے والدین کو چاہیے کہ بچوں کو زیادہ دیر تک کمپیوٹر
اور ویڈیوگیمز کے استعمال سے دور رکھیں اور ان کی ذہنی اور جسمانی صحت کی
نشوونما کے لئے انہیں کھیل کے میدانوں کی طرف راغب کریں۔‘‘
۲۔ ’’ماہرین کا کہنا ہے کہ زیادہ ٹیلی ویژن دیکھنا سکول جانے والے چھوٹے
بچوں کیلئے نقصان دہ ہوتا ہے۔ جبکہ ٹی وی دیکھنے سے ان کی توجہ مرکوز کرنے
کی صلاحیت متاثر ہوتی ہے۔ ماہرین نفسیات کی ایک ٹیم نے اس ضمن میں تحقیق
کیلئے 50 بچوں کو زیر مشاہدہ رکھا جن کی عمریں 12، 24 اور 36 ماہ تھیں اور
ان بچوں کو ایک گھنٹے تک پس منظر موجود ٹیلی ویژن کے ساتھ مختلف کھلونوں سے
ایک گھنٹے تک کھیلنے کا موقع فراہم کیا گیا۔
ماہرین نے آدھ گھنٹے تک ٹیلی ویژن چلنے دیا جس کے دوران مختلف گیمز اور
اشتہارات چلائے گئے جبکہ آدھے گھنٹے بعد ٹیلی ویژن بند کر دیا گیا۔ ماہرین
کے مطابق ٹی وی دیکھنے کے دوران ان چھوٹے بچوں کی توجہ بار بار اپنے
کھلونوں سے ہٹی اور وہ صیحح طریقے سے کھلونوں کے ساتھ نہ کھیل سکے اور وہ
کبھی کھلونوں کو اور کبھی ٹی وی کو ٹکٹککی باندھ کر دیکھتے رہے۔ تاہم آدھے
گھنٹے بعد ٹی وی بند کر دئیے جانے کے بعد بچے بھر پور توجہ سے کھلونوں کے
ساتھ کھیلے۔ ماہرین نے والدین کو مشورہ دیا ہے کہ وہ سکول جانے سے پہلے کی
عمر کے بچوں کو ٹیلی ویژن سے دور رکھیں تاکہ ان کی دوران کھیل یا پڑھائی کی
طرف توجہ متاثر نہ ہو۔‘‘
۳۔ ’’8 اگست ۸۰۰۲ ÷ئ : ٹیلی ویژن نشریات اور پروگراموں سے آنے والی مختلف
نوعیت کی آوازیں بچوں کی دوران کھیل کی کارکردگی پر منفی اثرات مرتب کرتی
ہیں اور بچے ان ڈور یا آؤٹ ڈور کھیلوں کے دوران اپنے تخلیقی جوہر دکھانے
میں مشکل محسوس کرتے ہیں۔ برطانیہ میں ہونے والی اس تحقیق کے ماہرین نے کہا
ہے کہ ٹیلی ویژن کی لہریں اور آواز چھوٹے بچوں کی توجہ کو منتشر کر دیتی
ہیں جس کی وجہ سے وہ ’’عدم ارتکاز توجہ‘‘کا شکار ہو جاتے ہیں۔ ‘‘
۴۔ ’’۵۱ ستمبر ۸۰۰۲ ÷ئ: جدید طبی تحقیق کے مطابق ٹیلی ویژن پر ریسلنگ
دیکھنے والے بچے دوسرے بچوں کی نسبت زیادہ ناراض، غصے والے اور ہر وقت
انکار کرنے والے رویے میں مبتلا ہوجاتے ہیں جو جوانی اور عملی زندگی میں
انہیں مہذب ہونے سے دور رکھتا ہے۔ طبی نفسیاتی ماہرین نے پرتشدد فلموں ،
مار دھاڑ پر مبنی ویڈیو گیمز، ٹیلی ویژن سیریز اور دیگر عوامل پر تحقیق کے
دوران جب خونخوار کشتیوں پر تحقیق شروع کی تو انہیں معلوم ہوا کہ ان کے
منفی اثرات باقی دیگر عوامل سے کہیں زیادہ ہیں کیونکہ باقی کے عوامل میں
لاشعوری طور پر یہ تاثر مل رہا ہوتا ہے کہ یہ جھوٹ موٹ پر مبنی ہے مگر
ریسلنگ ہر لحاظ سے اصل لگتی ہے جس کی وجہ سے تشدد اور دہشتگردی کا اثر ذہن
پر زیادہ ہونے لگتا ہے۔ اس تحقیق کیلئے ماہرین نے 16 سے 20 سال تک کے
نوجوانوں اور 9 سے 12 سال کے بچوں پر الگ الگ گروپوں پر کام کیا۔ ماہرین نے
دیکھا کہ دونوں گروپوں کے رویوں سے متعلق حاصل ہونے والے اعدادوشمار قریباً
ملتے جلتے تھے۔ طبی نفسیاتی ماہرین نے دیکھا کہ مردوں اور خواتین کی الگ
الگ اور مخلوط ریسلنگ کے بعد بد مزاجی اور رعونت کے رویے لڑکوں کے ساتھ
ساتھ لڑکیوں میں بھی آنے لگتے ہیں۔ ‘‘
۵۔ ’’بتاریخ ۴۱ جنوری ۸۰۰۲ئ: آٹھ سے اٹھارہ سال کی عمر کے بچے زیادہ وقت
﴿44.5 گھنٹے فی ہفتہ یا ساڑھے چھ گھنٹے روزانہ﴾ کمپیوٹر، ٹیلی وڑن یا گیم
کھیلنے میں صرف کرتے ہیں یہ وہ دورانیہ ہے جو سونے کے علاوہ تمام سرگرمیوں
سے زیادہ ہے۔ انھوں نے والدین سے پوچھا، کیا آپ کو معلوم ہے کہ آپ کے بچے
اس کام میں کتنا وقت صرف کررہے ہیں؟ وہ بچے جو ٹی وی دیکھنے یا وڈیو گیم
کھیلنے میں بہت زیادہ وقت صرف کرتے ہیں ان کے خیالات، احساسات اور رویے
زیادہ جارحانہ اور ساتھیوں کے ساتھ ان کے تعلقات خراب ہوجاتے ہیں۔ میڈیا
﴿ٹی وی، موویز، انٹرنیٹ وغیرہ﴾ کے دلدادہ بچوں میں وقت کے ساتھ ساتھ تشدد
کا رجحان پیدا ہوجاتا ہے، خون، قتل و غارت اور آفتیں ان کو متاثر نہیں
کرتیں۔ والدین کو اس بات کا خیال رکھنا چاہیے کہ ان کے بچے تشدد پر مبنی
پروگرام نہ دیکھیں اور انھیں بچوں کے لیے متبادل سرگرمیاں مثلاً کھیلوں کے
مواقع مہیا کرنے چاہیئیں۔
کنسلٹنٹ سائیکولوجسٹ نے کہا کہ ذاتی اور سماجی سطح پر تشدد کئی شکلیں
اختیار کرلیتا ہے۔ تحقیقات سے معلوم ہوا ہے کہ متشدد مناظر کا زیادہ سامنا
مختلف جسمانی اور نفسیاتی خطرات مثلاً چوٹوں، تشدد پسندانہ رویے کے لیے
زیادہ رواداری پیدا کرتا ہے اور ڈپریشن، اینگزائٹی اور دیگر نفسیاتی علامات
کو خطرے کی حدوں تک پہنچا دیتا ہے۔‘‘
۶۔ ’’ماہرین نفسیات نے کہا ہے کہ اوائل عمری میں ٹی وی پر تشدد کے مناظر
سمیت کارٹونز دیکھنے سے بلوغت کے دوران پرتشدد رویہ پیدا ہوتا ہے۔ حال ہی
میں شائع شدہ رپورٹ کے مطابق سکول جانے سے قبل چھوٹے بچے گھروں میں ٹی وی
پر کارٹونز اور تشدد کے کئی مناظر دیکھتے ہیں جو کہ ان بچوں کی جذباتی صحت
کیلئے مفید نہیں ہوتے جس کی وجہ یہ ہوتی ہے کہ چھوٹے چھوٹے بچے اگر کسی
کارٹون میں سر پر پڑنے والی ضرب یا چوٹ پر مشتمل منظر دیکھیں تو ان کا ذہن
تشدد کے شکار ہونے والے پر اثرات کو محسوس نہیں کرتا جس کی وجہ سے ایسے بچے
بعد ازاں عملی زندگی میں یا بلوغت میں داخل ہوتے ہوئے جارحانہ رویہ اختیار
کرتے ہیں اور وہ تشدد پسند بن جاتے ہیں۔ ماہرین نے والدین پر زور دیا کہ وہ
چھوٹے بچوں کو تشدد پر مبنی مناظر اور خاص طور پر کارٹونز بھی نہ دیکھنے
دیں بلکہ ان بچوں کے ساتھ پیار و شففقت کا رویہ اپناتے ہوئے ان کا دل
بہلایا جائے۔‘‘
آج ہم اپنے گھروں کے ماحول اور اپنے بچوں کے آپس میں اور بڑوں سے روّیوں پر
غور کریں تواس بات کی تصدیق ہو جاتی ہے کہ آج کل کے بچوں میں چڑ چڑا پن،
اکھڑ مزاجی، ہٹ دھرمی اور بدتمیزی زیادہ ہوگئی ہے والدین اکثر اس معاملے
میں اپنی اولاد کا شکوہ کرتے دکھائی دیتے ہیں یہ سب ٹی وی کا ہی شاخصانہ ہے۔
۷۔ ’’﴿اردو ٹائمز﴾ امریکی ریسرچرز نے یہ دریافت کیا ہے کہ بہت زیادہ ٹی وی
دیکھنے سے بچے نہ صرف موٹے ہو جاتے ہیں بلکہ ان کا بلڈ پریشر بھی بڑھ سکتا
ہے۔ تحقیق کے مطابق وہ بچے جو دن بھر میں چار یا اس سے زیادہ گھنٹے ٹی وی
دیکھتے ہیں ان میں بلڈ پریشر کا امکان صرف دو یا اس سے بھی کم وقت ٹی وی
دیکھنے والے بچوں کی نسبت تین گنا زیادہ یوتا ہے۔ کیلی فورنیا یونیورسٹی کے
ڈاکٹر نے بتایا کہ جن بچوں کا وزن پہلے سے بڑھا ہوا ہو، اگر وہ زیادہ ٹائم
ٹی وی دیکھنے میں گزاریں گے تو اس سے نہ صرف ان کا مٹاپا بڑھ جائے گا بلکہ
ان میں ہائپرٹینشن کی شکایات بھی پیدا ہو جائے گی کیونکہ ٹی وی دیکھنے،
مٹاپے اور ہائی بلڈ پریشر میں گہرا تعلق ہوتا ہے۔ اس سے پہلے بہت سے جائزوں
میں زیادہ ٹی وی دیکھنے اور مٹاپے میں تعلق ثابت کیا جا چکا ہے تاہم پہلی
بار بچوں اور کم عمر نوجوانون میں بہت زیادہ ٹی وی دیکھنے اور ہائی بلڈ
پریشر میں ربط ثابت ہوا ہے۔ یادرہے کہ اگر بچوں میں بلڈ پریشر کی بروقت
تشخیص نہ ہو سکے تو خاموشی سے یہ اہم اعضا بالخصوص گردوں کو نقصان پہنچا
سکتا ہے۔ ‘‘
۸۔ ’’طبی ماہرین نے کہا ہے کہ ٹیلی ویژن دیکھنے کے دوران کھانا کھانے والے
بچے دوسروں کی نسبت کم کھاتے ہیں جس سے ان بچوں کی نشوونما کی رفتار بھی
دوسرے بچوں کی نسبت سست ہوتی ہے۔ ماہرین نے تجرباتی مشاہدات کے دوران نوٹ
کیا کہ جب بچوں کوکھانے کے دوران 22 منٹ دورانیے پر مشتمل کارٹون فلم
دکھائی گئی تو ان بچوں نے ایسے دوسرے بچوں کی نسبت کم کھانا کھایا جن کو
کھانے کے دوران ٹی وی نہیں دیکھنے دیا گیا۔ ماہرین نے اخذ کیا کہ کھانا
کھانے کے دوران ٹی وی دیکھنے والے بچے کم خوراک کھاتے ہیں جس سے ان کی
نشوونما کی رفتار بھی سست ہوتی ہے۔ ‘‘
۹۔ ’’چھوٹے بچوں کیلئے زیادہ دیر تک ٹی وی دیکھنا ان کی نیند کیلئے اچھا
نہیں۔ ماہرین کے مطابق تین سال اور اس سے کم عمر کے بچوں کے دن کے وقت
زیادہ ٹی وی دیکھنے سے ان کی نیند خلل کا شکار رہتی ہے وہ رات کو صحیح طرح
سو نہیں پاتے اور ان کے نیند کے اوقات بری طرح متاثر ہوتے ہیں۔ بہت سے
والدین اپنے بچوں کو سلانے کیلئے ٹی وی اور ویڈیو پر انحصار کرتے ہیں۔ ان
کا یہ سمجھنا کہ ٹی وی دیکھنا ان کے بچے کو نیند لانے میں معاون ہوتا ہے،
بالکل غلط ہے۔ تین سال کی عمر کے بچے جو زیادہ ٹی وی دیکھتے ہیں ، کی نیند
خراب ہونے کا خطرہ بہت زیادہ ہوتا ہے اس طرح تھوڑی بڑی عمر کے بچوں کو خراب
نیند ، دیر سے سونے اور ٹی وی دیکھنے کے درمیان واضح تعلق ثابت ہوا ہے۔
سائنسدان اس بات پر متفق ہیں کہ چھوٹے بچوں کو نیند یا سونے کے اوقات کے
نزدیک ٹی وی نہیں دیکھنا چاہئے۔
اب عام طور پر بارہ بجے رات تک ٹی وی چلتا ہے پھر انٹرنیٹ اور موبائیل ہے ۔
اس میں زیادہ تر وقت کا زیاں ہوتا ہے ۔ بچوں کی افزائش میں نیند کا بہت اہم
کردارہے اور اگر وہ پوری نا ہو تو اس کے برے اثرات مرتب ہوتے ہیں۔ریسرچ سے
یہ بات ثابت ہوچکی ہے کہ بچوں کی افزائش زیادہ تر سوتے وقت ہوتی ہے، خاص
طور پر دماغی پہلو جیسے یادشت کا پختہ ہونا یا دماغ کے دیگر تانے بانوں کی
افزائش میں نیند کا اہم رول ہے اگر نیند کم ہو تو پھر اس کے مضر اثرات پڑتے
ہیں۔‘‘
۱۰۔ ۸۱ نومبر ۷۰۰۲ ÷ئ : لندن﴿جنگ نیوز﴾ٹیلی ویژن پر شراب کے اشتہارات کی
تعداد میں اضافہ ہوا ہے اور کچھ اشتہارات کم عمرافراد کو شراب نوشی کی طرف
مائل کرنے کا سبب بن رہے ہیں۔ یہ بات گزشتہ روز منظر عام پر آنے والی ایک
رپورٹ میں بتائی گئی ہے۔ آف کام اور ایڈورٹائزنگ سٹینڈرز اتھارٹی کی مشترکہ
رپورٹ کے مطابق جن بچوں اور نوجوانوں سے اس سلسلے میں سوالات پوچھے گئے تھے
ان میں سے ایک تہائی 34فیصد کا خیال ہے کہ اشتہارات شراب کو پرکشش بناتے
ہیں اور یہ تعداد 2005کے 25فیصد سے زیادہ ہے۔ رپورٹ کے مطابق اس وقت 28فیصد
افراد کا خیال ہے کہ اشتہارات لوگوں کو شراب نوشی کی تحریک دیتے ہیں جبکہ
دو سال قبل اس خیال کے حامل لوگوں کی تعداد 24فیصد تھی۔ رپورٹ کے مطابق
2005اور 2006میں ٹی وی پر شراب کے اشتہارات کے حجم میں 7اعشاریہ 4فیصد
اضافہ ہوا ہے۔‘‘
ابھی بھی وقت ہے سوچ لیجئے اور اپنی نسلوں کو اس لعنت سے بچا لیجئے اگر اب
بھی نہیں تو آخر اس بات کا احساس کب ہو گا جب آئندہ کی نسل بے راہروی کا
شکار ہوچکی ہوگی جس میں ہمارے بھی بچے شامل ہوں گے پھر سر پرہاتھ رکھ کر ہم
سب رورہے ہونگے، خدارا فحاشی اور بے غیرتی کے اس جن کو جو ہمارے بچوں کی
طرف بڑھ رہا ہے روک لیجیئے ورنہ سب کچھ ختم ہو جائیگا تمام مذہبی اور قومی
اقدار مردہ ہو جائیں گی اور پھر ایسا ہو گا کہ اب پچھتائے کیا ہوت۔ جب چڑیا
چگ گئی کھیت۔ |