پاکستان اور چین دو ہمسایہ ممالک
تو ہیں ہی قابل اعتماد دوست بھی ہیں یہ دوستی آج کل کی نہیں۔ 1949 میں چین
آزاد ہوا تو پاکستان تیسرا غیرکمیونسٹ اور پہلا اسلامی ملک تھا جس نے اسے
1950میں تسلیم کیا یوں ہمیشہ ہی پاکستان اور چین کے تعلقات انتہائی دوستانہ
رہے ہیں اور دونوں ہمیشہ ایک دوسرے کے کام آتے رے ہیں چین چونکہ بڑا ملک ہے
اسکے وسائل اور ذرائع زیادہ ہیں اس کی مہارت بھی مختلف شعبوں بہت زیادہ ہے
لہٰذا وہ ہماری زیادہ مدد کر سکتا ہے اور سچ یہ ہے کہ اس نے کبھی بخل سے
کام نہیں لیا اور نہ صرف ہر موقع پر ہماری مدد کی بلکہ تکنیکی مدد بھی
فراہم کرتا رہا ہے تاکہ پائیدار ترقی ممکن ہو سکے۔ شاہراہ ریشم سے لیکر
گوادر تک ہر جگہ چین نے اپنی بے لوث دوستی کا ثبوت دیاا س لیے اب یہ کوئی
اچھنبے کی بات تو نہیں اور نہ ہی کسی کو اس بات پر اعتراض ہونا چاہیے کہ
چین پاکستان کو ایٹمی ری ایکٹر دے گا جس سے پاکستان اپنی توانائی کی
ضروریات کا کچھ حصہ پورا کرے گا۔ پاکستان اس وقت توانائی کے بحران سے شدید
ترین طور پر متاثرہ ممالک میں سے ہے سالہا سال سے دہشت گردی کی جنگ لڑتے
لڑتے یہاں ترقیاتی کاموں پر وہ توجہ نہیں دی جاسکی جو دی جانی چاہیے تھی
دفاعی اخراجات اس مسلّط شدہ جنگ کی وجہ سے دفاعی بجٹ سے بڑھ جاتے ہیں۔ اب
ظاہر ہے وہ پیسہ جو عوام کی فلاح و بہبود پر خرچ ہونا چاہیے تھا وہ اس جنگ
پر صرف ہو رہا ہے۔ تیزی سے بدلتی ہوئی دنیا کا مقابلہ کرنے کے لیے توانائی
کی ضروریات بھی اتنی ہی تیزی سے بڑھتی ہیں لہٰذا یہ پاکستان کا حق ہے کہ وہ
اپنے عوام کی ضروریات کو پورا کرنے کے لیے ہر ممکن راستہ اختیار کرے۔ وہ جن
کی جنگ ہم لڑ رہے ہیں وہ تو ہماری ضروریات کا احساس نہیں کر رہے لیکن جو کر
رہے ہیں انہیں ان پر بھی اعتراض ہے۔
ایران، پاکستان گیس پائپ لائن کے بارے میں رچردڈ ہالبروک نے کہا کہ یہ
پاکستان اور ایران کا باہمی معاملہ ہے لیکن اگلے ہی روز موصوف کی طرف سے
بیان آیا کہ اس معاہدے کی صورت میں ایران پر پابندیوں کا اثر پاکستان پر
بھی پڑ سکتا ہے یعنی ﴿دھمکی﴾اور ساتھ ہی حسب معمول یہ نمائشی بیان بھی دیا
کہ امریکہ پاکستان کی توانائی کی ضروریات اور مسائل سے آگاہ ہے۔ لیکن بات
صرف آگاہی سے نہیں بنتی بلکہ بات ضروریات پورا کرنے کی ہے۔ جیسا چین جیسے
دوست نے پورا کرنے کی بات اور وعدہ کیا ہے اور جس پر امریکہ اپنی
ناپسندیدگی کا اظہار کرچکا ہے۔ بھارت بھی اس معاہدے سے پریشان ہے کیونکہ
اسے تو یہ کسی بھی طرح گوارا نہیں کہ پاکستان کسی بھی مسئلے سے نکل سکے اور
اپنے عوام کی فلاح وبہبود کا کام کر سکے۔ اس معاہد ے پر جو بڑا اعتراض کیا
جا رہا ہے وہ یہ ہے کہ چین NSG یعنیNuclear Supplier Group کا رکن ہوتے
ہوئے کیسے یہ سودا کر رہا ہے تو بات یہ ہے کہ پاکستان اور چین کے درمیان یہ
معاہدہ نیا نہیں چین 2004میںNSG کا رکن بنا جبکہ پاکستان کے ساتھ اس کے
معاہدے بہت پرانے ہیں۔NSGکا قیام بھی بھارت ہی کے مرہونِ منت تھا جب اس نے
1974میں ایٹمی دھماکے کیے تو جوہری صلاحیت اور سامان سپلائی کرنے والے
ملکوں کو احساس ہوا کہ ایٹمی صلاحیت اور ہتھیاروں کو انتہائی سخت قوانین کے
تحت صرف ان ملکوں کو مہیا کیا جائے گا جو NPT پر دستخط کر چکے ہوں اگرچہ
پاکستان اور بھارت دونوں نے یہ دستخط نہیں کیے لیکن دوہرے عالمی معیار اور
خاص کر دوہرے امریکی معیار کے مطابق چین کے ساتھ اس معاہدے کو ہدفِ تنقید
بنایا جا رہا ہے جبکہ اس سے پہلے امریکہ اور بھارت کے درمیان ستمبر 2008
میں ایسا ایک معاہدہ کیا گیا جس پر اس وقت NSGکے پانچ ممبر ممالک جن میں
آسٹریا، سویٹزرلینڈ، ناروے، آئرلینڈ اور نیوزی لینڈ شامل تھے نے اپنے
تحفظات کا اظہار بھی کیا لیکن بھارت کی صرف زبانی یقین دہانی پر اسے Clean
Wavier دیا گیا۔اسوقت پاکستان نے بھی امریکہ سے ایسی ہی سول نیوکلیئر ڈیل
کا مطالبہ کیا جسے امریکہ نے درخور اعتنا نہ سمجھا جبکہ بھارت کے لیے
امریکہ نے اپنے قوانین میں ترامیم کیں اور اسے یہ تعاون فراہم کیا۔ امریکہ
اپنا فرنٹ لائن اتحادی پاکستان کو کہتا ہے لیکن فطری دوست اور اتحادی بھارت
کو قرار دیتا ہے اور اس دوستی کا حق بھی ادا کرتا ہے۔ اب اگر اس تناظر میں
حالیہ پاک چین دفاعی اور ایٹمی معاہدے کو دیکھا جائے تو یہ پاکستان کی اشد
ضرورت تھا اور ساتھ ہی چین کی بھی کیونکہ جب علاقے میں دو دوست ممالک بھارت
کا مقابلہ کرنے کی سکت رکھیں گے تو بھارت کوئی احمقانہ اقدام اٹھاتے ہوئے
سوچے گا ضرور اور آئندہ کوئی بھارتی چیف جنرل دیپک کپور کی طرح پاکستان اور
چین کو چھیانوے گھنٹوں میں فتح کرنے کی بات نہیں کرے گا اور اسی لیے بھارت
کو اس معاہدے پر تشویش ہے۔ جبکہ امریکہ کی تشویش یہ ہے کہ پاکستان کا جھکاؤ
چین کی طرف ہو گیا جو کہ ہونا چاہیے تو یوں افغانستان کی جنگ جیتنے کی
موہوم سی امید سے بھی ہاتھ دھو بیٹھے گا اور اسکی طویل المدت منصوبہ بندی
کھٹائی میں پڑ جائے گی اور وہ توانائی کے ان بیش بہا ذخائر تک نہ پہنچ سکے
گا جو وسط ایشیائی ریاستوں میں وہ تاک کر بیٹھا ہوا ہے اور ساتھ ہی اس کا
اکیلے ہی سپر پاور بنے رہنے کا خواب بھی بکھر جائے گا۔
بھارت کی تشویش تو کھلا دشمن ہونے کی وجہ سے فطری ہے اگرچہ غیر متوقع
امریکی تشویش بھی نہیں تاہم اس سے یہ بات کھل کر سامنے آجاتی ہے کہ امریکہ
نہیں چاہتا کہ پاکستان خود کفالت کی منزل پر پہنچے یا اس راستے پر چلے بلکہ
وہ ہر صورت اپنی بالادستی قائم رکھنا چاہتا ہے۔ اس لیے ہمیں بھی اپنی قومی
خارجہ پالیسی پر ضرور نظر ثانی کرنا ہو گی اور دوست اور دشمن کا واضح تعین
کرنا ہوگا کہ کون ہمارا خیر خواہ اور کون بد خواہ ہے اور اس معاہدے کے
معاملے میں دو ٹوک مؤقف اپنانا ہوگا کہ یہ معاہدہ پاکستان اور چین کے
درمیان کوئی نیا معاہدہ نہیں اس لیے اس سے کوئی فرق نہیں پڑتا کہ چین NSG
کا ممبر ہے یا نہیں۔ اگر چین ہے بھی تو وہ کوئی نیا معاہدہ نہیں کر رہا
بلکہ یہ تعاون اور دوستی بہت پرانی اور یقیناً ہمالیہ سے بلند اور سمندر سے
گہری ہے ہمیں دنیا کو یہ تاثر دینا ہوگا کہ چین اور پاکستان ایک دوسرے کے
قابل اعتماد دوست اور ایک دوسرے کے لیے لازم و ملزوم ہیں۔ |