میں IDBP کا ایک ریٹائرڈ افسر ہوں اور
۱۹۹۰ء میں رٹائیر ہونے کے بعد سے انکی ویلفیر ایسوسی ایشن چلارہا ہوں۔ اس
لمبے عرصہ میں رٹائریز کی آبادی تقریبا ۴۶۰ ؍ تھی جو اب آدھی رہ گئی ہے۔
سرکاری ملازمیں کی پنشن میں جب اضافہ ہوتا تھا تو ہمارے پنشنروں کی پنشن
بھی اسی قدر بڑھا دی جاتی تھی۔ یہ سلسلہ جاری تھا کہ ہمارے یہاں ایم ڈی
صاحب بدل گئے اور پھر یہ سلسلہ رک گیا۔ ایسوسی ایشن نے خطوط لکھنے شرو ع
کئے جن پر کوئی عمل نہیں ہوا اور اسطرح تین سال گزر گئے اور صرف خاموشی تھی
اسکے جواب میں۔
میرے کسی بچے نے بتایا کہ مشرف صاحب کی وب سائٹ اور ای میل اڈریس بھی ہے۔
خدا نے ہمت دی اور جو خطوط میں بنک کو لکھتا تھا ، وہی میں نے صدر مملکت
مشرف صاحب کو بھیجا۔ تیسرے دن بنک سے پوچھا گیا کہ کیوں نہیں دیا۔ بنک نے
گھبر ا کرلکھا کہ اس بار بورڈ کی میٹنگ میں انکا معاملہ جارہا ہے اور اسکو
اتنے آخر میں رکھا کہ اسکا نمبر نہیں آیا۔ میں نے پھر اطلاع دیدی، چنانچہ
تیسرے ماہ ۴۶۰ ؍ پنشنروں کو جن میں ۱۰۰؍ سے زیادہ بیوائیں بھی تھیں ، ۳۵؍
فیصد اضافہ تاریخ اجرا سے ملا۔
اسکو کہتے ہیں GOOD GOVERNANE اور ایسے ہی لوگ ہیں جو باصلاحیت کہلاتے ہیں۔
ماشااﷲ ہمارے چیف جسٹس پاکستان صاحب کے خیالات بھی قابل تعریف ہیں لیکن جب
تک انصاف کم سے کم وقت میں لوگوں کو نہیں ملے گا کوئی شعبہ بھی سہی نہیں
ہوگا ۔ صرف حکم دینے سے کام ہو جایا کرتا تو پھر کیا بات تھی۔ |