فقہاء کی نماز اور ہے غازی کی نماز اور

نماز دینی کتب کا ایک صدابہار موضوع ہے ۔ اسلام کا ستون ہونے کے سبب نماز کی ترغیب و ترہیب پر سب سے زیادہ تقریر و تحریر کا کام ہوتا ہے۔ نماز کی اہمیت و افادیت اور غرض و غایت پربھی کتابیں لکھی جاتی ہیں تاکہ لوگوں کی زندگی پر اس عظیم عبادت کے مطلوبہ اثرات پڑیں ۔ اس مرحلے میں کچھ لوگ نماز کے مقصد اور ذریعہ ہونےکی بحث میں الجھ جاتے ہیں۔ اذکار ِنمازکے معنیٰ اور مفہوم سمجھانے کا مقصد یہ ہوتا اسے عادتاً نہیں بلکہ شعوری طور پر ادا کیا جائے۔ نماز کی روح یعنی خشوع خضوع پر کم توجہ کے باوجود کچھ نہ کچھ لکھا جاتا ہے ۔ طریقۂ نماز سب سے مقبول و معروف موضوع ہے جس کے تحت فضائل کے ساتھ ساتھ مسائل بھی پیش کئے جاتے ہیں۔ مسئلہ ایک ذومعنیٰ لفظ ہے اس لئے اگر اس مرحلے میں خودپسندی ، تنگ نظری ، اصرارو شدت اور تنقید و تنقیص دامن گیر ہوجائے تو مسائل حل نہیں ہوتے ہاںاختلافات ضرورپیدا ہوجاتےہیں۔ ڈاکٹر محی الدین غازی نے اپنی کتاب ’’ نماز کے اختلافات اور ان کا آسان حل ‘‘میں ان مسائل کو رفع دفع کرنے کی ایک کامیاب کوشش کی ہے۔

غازی صاحب کے واقف کار توان کی وسیع العلمی کے قائل ہیں لیکن جو لوگ ان کو نہیں جانتے اب وہ بھی اس کتاب کے توسط سے ان کے علم و فضل کا لوہا مان لیں گے۔ واٹس اپ اور فیس بک کے دور میں جبکہ لوگوں کا مطالعہ اختصار کی بھینٹ چڑھ گیا کسی موضوع پر گہرائی میں جانے کی محنت و عرق ریزی عنقاء ہوگئی ہے ۔ غازی صاحب نے ایک نہایت خشک موضوع پر اپنی تحقیق کواس قدر دلنشین انداز میں پیش کیا ہے کہ یہ کتاب بہ آسانی ایک ہی نشست میں ختم ہو جاتی ہے۔ ڈاکٹر صاحب کی دلیل یہ ہے کہ روایات کے بجائے عملی تواتر زیادہ قابلِ اعتبار ہے ۔ فقہاء نے نماز کومعاشرے میں جاری و ساری عملی تواتر سے سیکھا اور سکھایا تھا اس لئے ان کے پیرو کاوروں کو بھی یہی کرنا چاہئے ۔ فقہائے عظام کے اندر پائی جانے والی غیر معمولی رواداری بھی ان کے ماننے والوں سے کشادہ دلی کی طلبگار ہے۔

یہ نہایت معقول دلیل ہےنماز کے رائج تمام ہی طریقوں کو درست تسلیم کرلینے سے بہت سارے جھگڑے اپنی موت آپ مر جاتے ہیں لیکن پھر اس کے بعد نماز کی بابت تدوین فقہ کی ضرورت ہی کیا ہے؟ نماز کی بابت چونکہ سارے طریقے درست ہیں اس لئے اہل ایمان کو چاہئے کہ وہ اپنے آس پاس رائج طریقہ کے مطابق نماز پڑھیں اور اگر کوئی استفسار ہوتو اپنے مسلک سے قطع نظر جو بھی عالم دین میسرہوجائے اس سے استفادہ کرلیا کریں ۔ یہ نہایت دانشمندی کا موقف ہے۔ اس لئےاگر فقہ کی تدوین کا کام توقیفی مسائل کے بجائے صرف اجتہادی مسائل تک محدود کردیا جائے تو بہت سارے نئے مسائل حل ہوسکیں گے اور پرانے مسائل کا پونر جنم بھی نہیں ہوگا۔

میدانِ عمل میں دلچسپی رکھنے والےمجتہدین نے اپنا وقت اور توانائی فروعی اختلافات پر صرف نہیں کیا بلکہ اپنے دورکے جدید مسائل اور فتنوں کی جانب توجہ فرمائی ۔ مولانا مودودی یا حسن البناء شہید کے نزدیک عظیم تر مقاصد کے حصول کی خاطر اختلافی امور سے گریز نظر آتا ہے ۔ مشہور داعی اسلام احمد دیدات سے بھی لوگ جب دنیا بھر کے لوگ فقہی مسائل پوچھا کرتے تو وہ انہیں ان کی مقامی مسجد کے امام سے رجوع کروادیتے تھے ۔ معروف عالم دین اور فرانسیسی زبان میں قرآن کریم کے مترجم ڈاکٹر حمیداللہ کے بارے میں بھی سنا ہے کہ پیرس میں قیام کے دوران ان کے ہاتھ پر اکثر الجزائر کے باشندے ایمان لاتے تھے ۔ کلمۂ شہادت کے بعد جب وہ نماز کا طریقہ پوچھتے تو ڈاکٹر صاحب انہیں کسی الجزائری عالم دین سے استفادہ کی تلقین کرتے تاکہ وہ نومسلمین اپنے وطن میں رائج مالکی فقہ کے مطابق نماز سیکھ کر معاشرے کے مسلمانوں میں گھل مل جائیں ۔ یہی معقول رویہ غازی صاحب جیسے لوگوں کا شیوہ رہاہے جن کو مسائل کھڑے کرنے کے بجائے انہیں حل کرنے میں دلچسپی ہوتی ہے۔

اس کتاب کو پڑھتے ہوئے مجھے نماز سے متعلق اختلاف کی بابت اپنی کم علمی کا شدید احساس ہوا اور ساتھ ہی اس موضوع پر میری معلومات میں بیش بہا اضافہ بھی ہوا ۔ مجھےپتہ چلا کہ اذان سے لے کر سلام پھیرنے تک ان گنت اختلافات ہیں ۔ یہ اختلافات اگر علمی نوعیت کے ہوتے تو مجھ جیسے کم علم کے لئے ان سے لاعلمی معقول ہوتی لیکن یہ تو عملی اختلافات ہیں اس کے باوجود ان کا مشاہدہ کیوں نہیں کیا؟ جب یہ سوال میں نے اپنے آپ سے پوچھا تو پتہ چلا کہ نماز کو میں اپنے اور رب کے درمیان کا معاملہ سمجھتا ہوں ۔ میں نے کبھی یہ جاننے کی کوشش ہی نہیں کی دوسرے لوگ کیسے نماز پڑھتے ہیں اور کیوں؟ اس لئے کہ وہ ان کا اور ان کے رب کے درمیان کا معاملہ ہے۔ انفرادی نماز کی حد تک تو یہ رویہ صد فیصد درست ہے لیکن نماز باجماعت کے سلسلے میںمجھ جیسے صلح جو لوگ اکرام مسلم کےپیش نظرجب کسی مسجد میں دیکھتے ہیں کہ لوگ اقامت کے شروع میں اٹھ جاتے ہیں تو وہ بھی ابتداء میں کھڑے ہوجاتے ہیں یا پھرقد قامت الصلاۃ کی صداتک بیٹھے رہتے ہیں تاکہ کسیکی دلآزاری نہ ہو۔ اس طرح کی رواداری کا مظاہرہ چونکہ ہم لوگ گھر اور دفتر میں کرتے ہیں اس لئے مسجد کے اندر اس کو ترک کردینا چہ معنیٰ دارد؟

رواداری کی مطلوبہ فضا اسی وقت پیدا ہوسکتی ہے جب علمائے کرام تعلیم و تعلم کے منصب بلندسے نیچے اتر کر عوام سے بھی کچھ سیکھنے کی زحمت فرمائیں ۔ اسلاف کی مانند وہ عام لوگوں کے مسائل و مشکلات کا اندازہ کرکے اس میں اضافہ کرنے کے بجائے ان کو حل کرنے کی سعیٔ جمیل فرمائیں ۔اس کتاب کے مطالعہ سے میرا یقین اس امر میں پختہ ہوگیا کہ مومن کو دین اور نماز اپنے گھر و اطراف سے سیکھنا چاہئے۔ سیکھنے اور سکھانے کے دوران انسان کو اپنے طریقۂ کار میں ازخود حذف و اضافہ بھی کرتے رہنا چاہئےتاکہ چین کی زندگی گزارسکے۔ یہ رویہآدمی کودوسروں کا امن و سکون غارت کرنے سے بھی روک دیتا ہے لیکن اس کے لئےضروری ہے کہ وہ دوسروں سے زیادہ اپنی ذات اور آخرت کی فکر کرے۔ نماز کے دوران مومن کے دل کی یہ کیفیت ہو کہ گویا وہ اللہ تبارک و تعالیٰ سے سرگوشی کررہا ہے ۔ وہ اپنے رب کا دیدار کررہا ہے یا اگر ایسا نہیں ہوسکےتو کم ازکم یہ کیفیت لازمی ہے کہ اللہ تعالیٰ اس کو دیکھ رہا ہے۔ احسان کی اس منزل میں فروعی اختلافات اپنے آپ ختم ہوجاتے ہیں اور ملت اسلامیہ اپنے آپ امت واحدہ بن جاتی ہے۔ ڈاکٹر محی الدین غازی کی نماز سے متعلق کتاب کا غالباً یہی پیغامِ حقیقی ہے۔
Salim
About the Author: Salim Read More Articles by Salim: 2124 Articles with 1450166 views Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.