زندگی سے متعلق ہر شخص وہی رخ
دیکھتا ہے جس میں اس کی داستان الم، شکوؤں شکایتوں کے رنگ بھرے ہوں، اس کے
خدوخال بے بسی اور لاچاری سے بنے ہوں۔ تصویر کا یہ رخ عام طور پر وعدہ
خلافی اور عہد شکنی کے درعمل میں ابھرتا ہے۔ اس کا دوسرا رخ صاحب صورت کو
خالی نظر آتا ہے جس وجہ سے وہ اکثر وبیشتر تصویر کا ایک ہی رخ دیکھتا ہے،
اسی مطابق اس کے ذہن میں خیالات پرورش پاتے ہیں چنانچہ یہ خیالات بھی اسی
رخ تصویر کا ہی آئینہ دار لگتے ہیں۔
عوام کا کہنا ہے کہ ملک میں بڑھتی ہوئی بے روزگاری کا باعث حکمران طبقہ ہے،
ان کی لوٹ کھسوٹ، کرپشن اور ملکی خزانے سے خردبرد کی وجہ سے ہے، عوام کی
کمائی عوام کا پسینہ خشک کرنے کی بجائے اصحاب اقتدار کی جہنم (پیٹ) بھرنے
کے کام آتی ہے، یہ تصویر کا ایک رخ ہے، جبکہ اسی کا دوسرا رخ یہ ہے کہ کیا
عوام اپنے بلز امانت داری سے پورے پورے ادا کرتے ہیں؟ کیا یم عوام میں سے
کوئی بجلی چوری کر کے حکمران طبقہ کا ہم مشرب تو نہیں ہے؟ کیا عوام عشر،
زکٰوۃ اور ٹیکس جیسی اسلامی اور قانونی واجب ادائگیاں کرتے ہیں؟ کیا ہم
عوام امانت داری سے اپنے حصہ کا پانی لیتے ہیں کسی کا پانی چوری تو نہیں
کرتے؟
عوام کا دعویٰ ہے کہ حکمران طبقہ تمام تر وسائل اپنی آسائش وآرام کی بھٹی
میں جھونک دیتے ہیں، یہ وسائل عوام کی فلاح و بہبود اور ملک کی تعمیر و
ترقی کے لیے استعمال نہیں ہوتے۔ یہ تصویر کا ایک رخ ہے، اس کا دوسرا رخ یہ
ہے کہ عوام الناس کی تفریخ کے لیے پارک اور باغیچے بنانا حکومت کا کام ہے،
جو اس نے کسی نہ کسی حد تک کیا بھی ہے، کیا اس کی دیکھ بھال شہریوں کے ذمہ
نہیں ہے؟ وہاں کن کے بچے کرکٹ کھیل کر گراس خراب کرتے ہیں؟ وہ کون ہے جو اس
کا سبزا اجاڑتا ہے؟ اس کی دیواروں اور دروازوں کو کس نے نقصان پہنچایا ہے؟
حکمران یا عوام؟
سڑکوں اور گلیوں کی تعمیر اب کافی حد تک ہوچکی ہے، عوام اگر اس کی مرمت
نہیں کرسکتی تو کم از کم خراب ہونے سے تو بچا سکتی ہے، کیا ہم لوگ سڑک پر
پانی کا مسلسل ترکاؤ کر کے اسے خراب کرنے میں حصہ دار نہیں ہوتے؟ گلیوں میں
بھینسوں کو کس نے باندھ رکھا ہے؟ حکومت نے پانی کی حفاظت کے لیے پکی نہروں
کی سکیم شروع کی، ابھی ان نہروں کو بنے زیادہ عرصہ گزرا نہیں کہ یہ ٹوٹ
پھوٹ کا شکار ہوگئیں ہیں، کہیں اس کا ذمہ دار وہ عوام تو نہیں جس نے گائیں
بھینسیں نہروں میں نہلا نہلا کے نہریں توڑیں؟ اسٹریٹ لائٹس بے شک حکومت کی
ذمہ داری ہے، لیکن اس کو توڑ کر خوشی کا اظہار کرنے والے نشانہ باز کس کے
بچے ہوتے ہیں؟ مین روڈ کی باحفاظت کراسنگ کے لیے ہم عوام کتنے فیصد اور ہیڈ
برج استعمال کرتے ہیں، اور کتنے ایسے ہیں جو روڈ کے درمیان لگی گرل بھلانگ
کر روڈ کراس کر کے سرعت کا مظاہرہ کرتے ہیں؟
عوام یہ بھی کہتی ہے کہ حکمران کرپٹ ہیں، وعدہ خلاف ہیں، دوغلے ہیں۔۔۔۔ اس
طرح کی صفات کے لیے موصوف ہونے کا شرف حکمران طبقہ کو ہی بخشا جاتا ہے، یہ
تصویر کا ایک رخ ہے، خدانخواستہ اگر حکمران عوام سے یہ پوچھ لیں کہ ہمیں
حکمرانی کس نے دی؟ جمہوری ملک ہے یہ سب اختیارات آپ کی دین ہے کہ اب تک بات
بنی ہوئی ہے۔۔۔۔۔ تو شاید عوام کو تصویر دوسرا رخ بھی نظر آجائے؟ |