لوگ خودکشی کیوں کرتے ہیں، خود
کشی کا رجحان کیوں بڑھتا جا رہا ہے، کیا انسان کے لئے زندگی کی کوئی قدر و
قیمت نہیں رہی یا انسان کے لئے اب اس دنیا میں زندگی بسر کرنا اس قدر مشکل
ہو گیا ہے کہ وہ بہت آسانی سے موت کو گلے لگانے پر آمادہ ہو جاتا ہے۔ ایسا
کیوں ہے اور اس کی روک تھام کیسے ممکن ہے لوگوں میں یہ رجحان کیوں پنپتا ہے
اور اس رجحان کو کیسے کم کیا جا سکتا ہے لوگوں کے ذہنوں سے خودکشی کا رجحان
ختم کر کے انہیں زندگی کی طرف کیسے مائل کیا جا سکتا ہے یہ کیسے ممکن ہے
اور کون کرے گا یہ سب کس کی ذمہ داری ہے۔
ایسے بہت سے سوال ہیں جو ذہن میں ابھرتے رہتے ہیں جب بھی خود کشی کے کسی
سانحے کا ذکر سماعت سے گزرتا ہے ذہن سوچ سوچ کر افسرہ ہوتا ہے کہ آخر کیوں۔۔۔؟
انسان اس قدر مایوس کیوں زندگی سے بیزار کیوں؟ وہ کون سے عوامل و وجوہات
ہیں جو ایک جیتے جاگتے انسان کو خود اپنے ہی ہاتھوں خود کو موت کی وادی میں
دھکیلنے پر مجبور و آمادہ کرتے ہیں خود کشی کوئی شغل، کھیل تفریح یا مذاق
نہیں ہے اور نہ ہی اتنا آسان کام ہے کہ اس کا رجحان دن بدن بڑھتا ہی چلا
جائے لیکن پھر بھی لوگ خود کشی کر رہے ہیں مر رہے ہیں۔
مرنا برحق ہے موت کسی کو بخشنے والی نہیں ہر ذی روح نے ضرور مرنا ہے لیکن
جب حکم ربی ہو تو ہر ایک نے مر جانا ہے اس جہان فانی سے کوچ کر جانا ہے
لیکن قضائے الٰہی سے مرنا اور بات ہے جب کہ خود اپنے ہاتھوں اپنی زندگی کا
خاتمہ کرنا بالکل متضاد صورت ہے ایسی موت کے اثرات نہ ہی مرنے والے کے لئے
بہتر ہوتے ہیں اور نہ ہی ان خود کشی کرنے والے کے پسماندگان کے لئے۔
کاش کے خود کشی کرنے کا ارادہ رکھنے والے سوچ لیا کریں کے اس کے بعد کے
اثرات و نتائج اس کے لئے کس قدر اذیت ناک ہوتے ہیں جو لوگ خود کشی کرتے ہیں
یہ ان کا خیال ہے کہ شاید موت کو گلے لگانے کے بعد انہیں زندگی کی ہر مصیبت،
مسائل اور اذیتوں سے نجات مل جائے گی لیکن یہ سراسر فریب ہے کہ خود کشی کے
بعد انسان کو جو مزید اذیتیں اٹھانا پڑتی ہیں ان کا تصور بھی روح فرسا ہے
لیکن شاید جو لوگ خود کشی کرتے ہیں انہیں اس کا شعور نہیں ہوتا اگر ہو تو
یقیناً وہ ایسا نہ کریں اسلام میں خود کشی حرام ہے اور خود کشی کرنے والا
مرنے کے بعد بھی مسلسل اس اذیت میں گرفتار رہتا ہے جو اذیت خود کشی کرتے
وقت ٹھاتا ہے اور یہ عمل بار بار جاری رہتا ہے انسان مرنے کے بعد بھی خود
کشی کی تکیف سے چھٹکارا نہیں پاتا بلکہ بار بار مرتا ہے۔
ہر انسان کو اپنی زندگی پیاری ہوتی ہے کوئی سو سال جی لینے کے باوجود بھی
کبھی یہ خواہش نہیں کرتا کہ اب اسے موت آ جائے بلکہ وہ یہی چاہے گا کہ اسے
مزید سو سال اور جینے کے لئے میسر آ جائیں کوئی سو سال جی لے پھر بھی یہ
نہیں چاہتا کہ اسے موت آ جائے یا اس کی زندگی چھن جائے تو پھر کیا وجہ ہے
کہ ہم انسانوں میں سے ہی کچھ لوگ بہت آسانی سے اپنی زندگی ختم کر لیتے ہیں۔
خود کشی خود کو ختم کرنا اپنے ہاتھوں اپنی جان لے لینا انسان کیوں ایسا
کرتا ہے زندگی کسے پیاری نہیں پھر کیوں لوگ خود کشی کر کے اس زندگی سے
چھٹکارا پا لیتے ہیں ایسی کیا اذیت کیا مصیبت کیا دکھ کیا تکلیف سہتے ہیں
کہ زندگی کی اہمیت ان کی نظر میں کچھ نہیں رہتی اور وہ مرنے کو جینے پر
فوقیت دیتے ہوئے اپنی زندگی کا خاتمہ کر لیتے ہیں۔
خود کشی کا رجحان زیادہ تر انتہائی مفلسی کی زندگی بسر کرنے والے طبقے میں
زیادہ پایا جاتا ہے جس کی وجہ ناسازگار حالات، بھوک، کسمپرسی کی حالت،
تعلیم اور شعور کی کمی، غیر معیاری تربیت اور پرورش کا ناقص انتظام ہے۔
اس کا حل یہ ہے کہ معاشرے کے ان طبقات میں بھی شعور و آ گاہی کا انتظام کیا
جائے، تعلیم عام کی جائے، ان کا معیار زندگی بہتر بنانے کی کوشش کی جائے
اور اس کے لئے حکومتی اور نجی اداروں کے علاوہ مخیر حضرات کے علاوہ ہر فرد
جو اس قابل ہے کہ کسی ایک فرد کو بھی کسی نہ کسی حیثیت سے بہتری کی طرف
راغب کرنے کی صلاحیت رکھتا ہے اپنی سی کوشش کرے اسی طرح انفرادی و اجتماعی
کوشش سے ہم اپنے معاشرے میں پنپنے والے بیشتر منفی رجحانات کے سدباب کا
اہتمام کر سکتے ہیں اپنے معاشرے میں پھیلنے والی بہت سی برائیوں کا خاتمہ
کر سکتے ہیں۔
ناخواندہ اور شعور سے عاری لوگ تو ایک طرف خود کشی کا رجحان خواندہ و
باشعور طبقات میں بھی دکھائی دیتا ہے جن کے پاس نہ دولت کی کمی ہے نہ تعلیم
کی جنہیں زندگی کی ہر آسائش میسر ہے بہت سے ایسے واقعات سننے اور دیکھنے
میں آئے ہیں کہ اچھے بھلے پڑھے لکھے باشعور خاندانوں کے افراد میں بھی اس
رجحان کی زد میں ہیں لیکن یہ بھوک یا مفلسی نہیں، بے روزگاری نہیں ہے بلکہ
کوئی اور ہی وجوہات ہوتی ہیں مثلاً کسی کا انتہائی جذباتی پن، غصے کی عادت،
اپنی ہر بات منوانا، حسد، ناکامی، محبت میں یا امتحان میں اپنی ہی کسی
حماقت و نادانی کی وجہ سے رسوائی کا ڈر، منشیات یا نشہ آور ادویات کا عادی
ہونا یا بیماری وغیرہ ایسی کئی وجوہات ہیں جو کہ ایسے طبقات کے افراد میں
خود کشی کے رجحانات کا عام طور پر سامنے آتی ہیں۔
عہد ماضی میں بھی کچھ لوگوں میں خود کشی کا رجحان پایا جاتا تھا لیکن عہد
حاضر میں خود کشی کا رجحان کچھ زیادہ ہی بڑھ گیا ہے کل بھی لوگ خود کشی کیا
کرتے تھے اور آج بھی خود کشی کا رجحان ہے بلکہ پہلے سے کچھ زیادہ عام ہے
اگرچہ حرام ہے انسان زندگی سے اس قدر بیزار کیوں ہو جاتا ہے کہ موت کو گلے
لگا لینے کو زندہ رہنے پر ترجیح دینے لگتا ہے۔
شعور کی کمی، تعلیم کی کمی ناقص تربیت ناسازگار حالات نفسیاتی حالت مذہب سے
دوری محبت میں ناکامی امتحان میں ناکامی ذلت و رسوائی کا ڈر بیماری بے
روزگاری اور نہ جانے کیا کیا عوامل ہیں جو کسی انسان کو یہ انتہائی قدم
اٹھانے پر مجبور کرتی ہیں پر انسان مجبور کیوں، مایوس کیوں ناکام کیوں ۔۔۔؟
لوگ سمجھتے ہیں کہ خود کشی کرنا بڑی بہادری و جرات کا کام ہے جو کوئی بڑے
جگرے والا بندہ ہی کر سکتا ہے لیکن یہ بالکل غلط سوچ ہے آج کل جس طرح کے
حالات جا رہے ہیں خاص طور پر ہمارے ملک کے ان میں زندہ رہنا زندگی کے مسائل
و مصائب کا مقابلہ کرنا اور انہیں صبر سے برداشت کرنا ہی اصل بہادری ہے
دیکھا جائے تو جینے سے مرنا آسان اور زندگی بسر کرنا انسان کے لئے زیادہ
مشکل ہو رہا ہے لیکن وہ لوگ جو واقعی دین کی صحیح سمجھ رکھتے ہیں زندگی کا
مفہوم سمجھتے ہیں موت کی حقیقت سے آگاہ ہیں وہی زندگی تک زندہ رہتے ہیں
یعنی اپنے رب کی رضا میں ہر حال میں راضی رہتے ہیں کیسے بھی حالات ہوں کیسے
ہی مصائب ہوں کیسی ہی تکیف، بیماری یا اذیت ہو وہ زندہ رہتے ہیں کبھی مایوس
ہو کر موت کی آرزو نہیں کرتے وہ جانتے ہیں کہ زندگی دینے والا ہی زندگی
لینے کا حق رکھتا ہے جب تک زندگی ہے جیسی زندگی ہے انسان کو ہمت و حوصلے سے
گزارنی چاہئیے اور بجائے مایوس ہو کر خود کشی کا خیال دل میں لانے کے تدبیر
و صلاحیت اور رب کی ذات کے بھروسے اپنے حالات کو سدھارنے کی کوشش کرنا
چاہیے کوشش کبھی ناکام نہیں رہتی اللہ ہر اس شخص کی مدد ضرور فرماتا ہے جو
اس کی مدد چاہتا ہے اور کوشش کرتا ہے یہی شعور ہر طبقے کے انسان میں بیدار
کرنے کی ضرورت ہے مساوات اور عدل کو مدنظر رکھتے ہوئے ہی یہ کام سرانجام
دیا جا سکتا ہے اس کے لئے حکومت کو بھی سوچنا چاہیے اور عوام کو بھی لیکن
صرف سوچنا ہی نہیں بلکہ اس سوچ پر عمل درآمد کو بھی ممکن بنانا ہوگا ایسا
ہو جائے تو ہم بحیثیت انسان بحیثیت مسلمان اور بحیثیت پاکستانی ہر اعتبار
سے سرخرو ہو سکتے ہیں کوشش کریں اور اللہ تعالیٰ کی ذات پر یقین رکھیں
انشاءاللہ منزل خود آپ کے قدم چومے گی۔ اللہ تعالیٰ ہمار احامی و ناصر ہو
(آمین)۔ |