ماہ رمضان کی آمد آمد ہے. ماہ رمضان کا نام
سنتے ہی ہر مسلمان کا چہرہ خوشی سے کھل اٹھتا ہے. دنیا بھر کے مسلمان اس
بابرکت،رحمتوں کے مہینے کے استقبال میں کوئی کسر نہیں چھوڑتے. ہر شخص کی
یہی خواہش ہوتی ہے کہ وہ اس پاک مہینے میں نماز، روزہ اور نفلی عبادات کا
خوب اہتمام کرے. اس پاک مہینے کو اﷲ کی بندگی میں گزارے. اس کی رحمتوں اور
برکتوں کو اپنے دامن میں سمیٹ لے. اس امن کے مہینے میں مساجد میں مرد حضرات
کیلئے تراویح کا خاص انتظام کیا جاتا ہے. جبکہ گھروں میں خواتین اپنے لیے
گھر کا ایک مخصوص حصہ عبادات کیلئے مختص کرلیتی ہیں. عام طورپر ماہ رمضان
سے قبل ہی پورے گھر کی صفائی کی جاتی ہے. آداب و اخلاق، رہن سہن میں ایک
اچھی تبدیلی آجاتی ہے. جس طرح ماہ رمضان میں شیطان کو قید کرلیا جاتا ہے
اسی طرح ہر مسلم ذی روح کی یہی کوشش ہوتی ہے کہ وہ اپنا نفس جو کہ انسان کا
شیطان سے بھی بڑا دشمن ہے اس پر قابو پاکے اسے بھی قید کرلے.
دنیا پھر کی طرح پاکستان میں بھی ماہ رمضان کا ایک خاص استقبال کیا جاتا ہے
مگر اسکے طریقے کچھ الگ ہیں.پاکستان چونکہ ایک اسلامی ملک ہے لہذا ماہ
رمضان شروع ہونے سے قبل پاکستانی حکومت رمضان بازار کا اعلان کر دیتی ہے.
جس میں دعوی کیا جاتا ہے ضرورت کی اشیا دودھ، چینی،دالیں،چاول سمیت تمام
اشیاء خورد نوش کم قیمت پر دستیاب ہوں گی تاکہ غریب طبقہ بھی رمضان کے روزے
رکھ کر اسکی برکتوں رحمتوں سے مستفید ہوسکے. مگر یہ اعلان صرف اعلان ہی رہ
جاتے ہیں یا پھر یہ کم قیمت شاید چاند پر کی جاتی ہے کیونکہ زمین پر تو سب
کچھ اسکے الٹ ہی ہوتا ہے. ماہ رمضان شروع ہونے سے قبل ہی قیمتیں آسمان سے
باتیں کرنے لگ جاتی ہیں. جو چیز پہلے 10 کی ہو وہ ماہ رمضان میں 15 کی. جو
20 کی ہو وہ ماہ رمضان میں 30 کی. دال جسے غریب کی غذا سمجھا جاتا ہے اسکی
قیمت تو گوشت سے بھی زیادہ ہوجاتی ہے. سبزیوں کو ہاتھ بھی لگاؤ تو جیب سے
میں خالی کی آواز آتی ہے. اور پھل شریف تو دور سے دیکھنے پر کاٹ کھانے کو
دوڑتے ہیں. ایسے میں رمضان پیکج سے ہم جیسوں غریبوں کی کیا حوصلہ افزائی
ہوسکتی ہے کوئی ہم جیسا ہی بہتر سمجھ سکتا ہے. اوپر سے ہماری شریف حکومت
لائٹ بھی اس وقت بندکرتی ہے جب سحری اور افطاری کا ٹائم ہو. ویسے اگر دن
میں 5 گھنٹے لائٹ جاتی ہے تو ماہ رمضان میں 8 گھنٹے غائب. گویا بجلی بھی نا
محرم بن جاتی ہے. یوں ہماری حکومت روزہ داروں کی مشکلات بڑھانے میں کوئی
کسر نہیں چھوڑتی. اگر یوں کہا جائے کہ رحمتوں کے مہینے میں ہماری حکومت
معصوم عوام پر عذاب نازل کرتی ہے تو یہ بے جا نہ ہوگا.
سونے پر سہاگہ تو یہ کہ رہی سہی کسر ہمارے ٹی وی چینل پوری کردیتے ہیں.
جہاں دنیا بھر میں رمضان شروع ہوتا ہے وہیں پاکستان میں رمضان ٹرانسمیشن
شروع ہوجاتی ہے. ہر نجی ٹی وی چینل اسی کوشش میں مصروف ہوجاتا ہے کہ وہ
رمضان کا سب سے اچھا پروگرام پیش کرکے اپنی ریٹنگ بڑھا سکے. جو کل تک گانے
باجے بجا رہے تھے ایک دم سے ماہ رمضان میں ان سب میں مولانا کی روح آجاتی
ہے. مولانا کا لفظ ان جیسوں پر ججتا نہیں. ہاں انہیں میڈیا مولانا ضرور کہہ
سکتے ہیں. صبح صادق سے بھی پہلے یہ میڈیا مولانا حضرات اپنی نشریات لیکر
ٹیلیویڑن پر حاضر ہوجاتے ہیں 2 بجے سے ہی انکا ہنگامہ شروع ہوجاتا ہے. اور
دکھاوا یہ کیا جاتا ہے کہ وہ تو علم بانٹ رہے ہیں. اچھی باتیں بتا رہے ہیں.
انعام دے کر لوگوں کی مدد کررہے ہیں. انکا مقصد دکھاوا نہیں. جونہی سحری کا
وقت ختم ہوتا ہے انہی چینلز پر پھر سے ڈرامہ ناچ گانے شروع ہوجاتے ہیں.
دوپہر تک یہ سلسلہ رہتا ہے. اسکے بعد پھر سے رمضان ٹرانسمیشن شروع ہوجاتی
ہے. جس میں میڈیا مولانا لوگوں کو بچے بھی دیتے ہیں. اور وہیں میڈیا مولانا
مگرمچھ کے آنسو بہاتے بھی نظر آئے ہیں. ایک لمحہ کیلئے مان لیتے ہیں یہ سب
نیکی ہے. بچے انعام میں نہیں دیے جاتے تو کیا پھر تشہیر ضروری ہے؟ اگر نیکی
ہی منشور ہے تو پھر چھپا کے کیوں نہیں؟
کہا جاتا ہے.
"نیکی ایسے کرو کہ دوسرے ہاتھ کو بھی خبر نہ ہو"
تو پھر آپ ہی سوچیں اس طرح ساری دنیا میں پرچار کرنے کی کیا تک بنتی ہے؟
نیکی تو نہ ہوئی ناں یہ دکھاوا ہی ہوا پھر.
افطار کے وقت چند اسلامی باتیں کرکے اور دعائیں مانگ کر روزہ افطار کیا
جاتا ہے. اپنے افطاری ہو ہی رہی ہوتی ہے کہ ایک شارٹ بریک کے بعد پھر سے
میڈیا مولانا نئے تماشے کے ساتھ حاضر ہوجاتے ہیں وہ جو چند منٹ قبل نماز
روزہ کی تلقین کررہے تھے وہی حاجی شریف صاحب عین مغرب کی نماز کے وقت ناچ
گانا کررہے ہوتے ہیں. حاجی شریف کا مطلب یہ نہیں کہ میڈیا مولانا کا نام ہی
حاجی شریف ہوتا ہے. ارے میں تو انہیں حاجی شریف کہتی ہوں جو اپنی شرافت
ثابت کرنے کیلئے خود کو حاجی لکھتے ہیں. لوگوں پر اپنے حاجی ہونے کا رعب
ڈالتے ہیں. باتیں کچھ اعمال کچھ. بالکل ہمارے نجی چینلز کے میڈیا مولانا کے
جیسے. افطار کے بعد مغرب کی نماز قضا کرکے بھرپور تفریح کی جاتی ہے محسوس
ہی نہیں ہوتا کہ واقعی رمضان کا مہینہ ہے؟ یا پھر رمضان کاروبار. جو دن کو
روزے میں رہ کر نیک کام کیے ہوتے ہیں وہ سب اس رمضان ٹرانسمیشن کے چکر میں
سکینڈ سے بھی پہلے ضائع ہوجاتے ہیں. ماہ رمضان تو ایک برکتوں رحمتوں کا
مہینہ ہے. اﷲ نے ہم مسلمانوں کو ماہ رمضان کی شکل میں اپنا تحفہ دیا.
رمضان تو برداشت کرنے کا نام ہے. صبر کرنا. نیک کام کرنا. لوگوں کی مدد
کرنا. مغفرت طلب کرنا مگر ہم سب نے اسے کاروبار بنا دیا ہے. ہم میں سے ہر
کوئی اس ماہ اپنا کاروبار چمکانا چاہتا ہے. کوئی نیکیوں کے بدلے اپنے
گناہوں کا سودا کرنا چاہتا ہے تو کوئی نیک کام کرکے اﷲ سے اسکا صلہ مانگنا
چاہتا ہے. تو کوئی رمضان میں قیمتیں بڑھا کر ڈھیر سارا منافع کمانا چاہتا
ہے. کوئی دکھاوا کرکے خود کو نیک ثابت کرنا چاہتا ہے تو کوئی نیکی کے نام
پر اپنی دکان چمکانا چاہتا ہے. ماہ رمضان کی اصل روح کیا ہے کسی کو کوئی
پرواہ نہیں. ہم میں سے سب روزہ رکھ لیتے ہیں مگر روزے میں صرف کھانا پینا
ہی چھوڑ دینے کو روزہ سمجھتے ہیں اصل روزہ کیا ہے وہ سب جانتے ہوئے بھی بے
خبر ہیں. ال?ہ ہم سب کو دل سے ماہ رمضان کی اہمیت سمجھنے اور اس پہ عمل
کرنے کی توفیق دے. کیونکہ اﷲ دکھاوا نہیں روح دیکھتا ہے. |