وکاس کی سرکاری اسکیمیں اور مسلمان
(Shamim Iqbal Khan, India)
(ڈاکٹر ہارون رشید صدیقی)
ترجمہ : شمیم اقبال خاں
بات اپنے دیش کے مسلمانوں کی ہے۔ عام طور سے کہا جاتا ہے کہ مسلمان پسماندہ
ہیں ۔ بعض کمیٹیوں نے بھی اس مسئلہ پرکام کیا ان کی رپورٹ بھی یہی ہے کہ
مسلمان پسماندہ ہیں۔ سرکاری طور پر تو یہ بات مان لی گئی ہے کہ اس ملک میں
بڑی تعداد میں لوگ پسماندہ ہیں ان میں مسلمان بھی ہیں۔حکومت برابر اس کوشش
میں ہے پسماندہ طبقہ بھی ترقی کرے اور اس کے لیے سرکار نے بڑی اسکیمیں چلا
رکھی ہیں۔ ہم اس مضمون میں مسلمانوں کی پسماندگی کا تجزیہ کریں گے۔
مسلمانوں کے پاس،انسانوں کی رہنمائی کے لیے اﷲ تعالیٰ کا نظام ہے۔ ان کو
چاہئے تھا کہ وہ اس ملک کے عوام کی قانونی اور اخلاقی طور پر رہنمائی کرتے
اور لوگوں کو اﷲ کے قانون پر چلاتے۔ ہمارے ملک میں سوا سو کروڑ لوگ بستے
ہیں ان میں مسلمانوں کی تعداد صرف ۲۵؍کروڑ بتای جاتی ہے اور ملک کی طرز
حکومت سیکولر ہے اس لیے اس ملک میں مسلمان کا اکثریت میں آنا نا ممکن ہے یہ
ان کی مجبوری ہے جسے اﷲ معاف کریگا۔
عقلیت ہوتے ہوئے ہم اگر جائزہ لیں تو مسلمانوں کی اچھی خاصی تعدادڈاکٹر وں،
انجینئروں اور بڑے تاجروں میں پائیں گے۔بلا شبہ ان میں کروڑ پتی بھی ہیں
اور عرب پتی بھی۔ اسی طرح سے، حالانکہ اپنی کل تعداد کی مناسبت میں سرکاری
ملازمت میں بہت کم ہیں لیکن پھر بھی ان کی اچھی خاصی تعداد ہے۔ وہ کروڑپتی
تو نہیں لیکن لاکھوں کا بیلنس ضرور رکھتے ہیں۔ان سب کو ہمارا معاشرہ یہی
کہے گاکہ یہ حالت پسماندگی کی نہیں ہے پھر بھی ان کے بارے میں جانکاری لیتے
ہیں تو ان میں بڑی تعداد ڈاکٹروں،انجینئروں، تاجروں اور اونچی سرکاری
نوکریاں پانے والوں میں ایسے ہیں جو اسلامی کاموں سے بہت دور ہیں۔ اسلام کی
نظر میں ایسے لوگ ترقی پزیر دولت مند ہوتے ہوئے پسماندہ طبقہ کے کہے جائیں
گے۔اور ان میں ایسے لوگ بھی ہیں جو فرائض و واجبات کی ادائگی میں کوتاہی
نہیں برتتے، اسلام کی نظر میں ایسے لوگ ترقی پزیر لوگ کہے جائیں گے۔
رہے عام مسلمان جن کی نہ سرکاری نوکری ہے نہ بڑا ہنر ہے، نہ بڑی کاشت ہے وہ
مزدوری مہنت کر کے اپنا اور اپنے خاندان کا خرچ خود چلاتے ہیں اور بھوکے
نہیں رہتے۔ ان کے بارے میں اسلامی نظریہ سے دیکھا جائے تو پتہ چلے گا کہ ان
کو غریب نہیں کہا جا سکتا۔ اسلام میں صاحب نصاب کو مالدار کہا گیا ہے مقصد
جس کے پاس ساڑھے باون تولہ(تقریباً ۶۱۲گرام) چاندی ہے وہ مالدار ہے۔اب وہ
مسلمان جن کے پاس۶۱۲؍گرام چاندی نہیں ہے یا ۶۱۲؍چاند ی خریدنے بھر کے پیسے
ان کے پاس نہیں ہیں۔ایک جائزے کے مطابق۹۰؍فیصدلوگ۶۱۲؍گرام چاندی کے مالک
ملیں گے،یہ لوگ اسلامی نظریہ سے مالدار ہیں، پسماندہ نہیں ہیں بھلے ہی سماج
کے مقابلہ میں پچھڑے ہوں۔
اب ان لوگوں کا جائزہ لیتے ہیں جو زیادہ تر لوگ نماز نہیں پڑھتے، رمضان میں
روزے نہیں رکھتے، مال کی زکوٰۃ نہیں نکالتے، شریعت کوپیٹھ پیچھے ڈالے ہوئے
ہیں۔حالانکہ وہ ایک نظریہ سے مال دار ہیں بلکہ صاحب نصاب ہیں لیکن مذہبی
نقطہ نظر سے پسماندہ ہیں۔مسلمانوں کا ایک گروپ ایسا بھی ہے جو اتنی دولت
بھی نہیں رکھتا کہ ۶۱۲؍گرام چاندھی خرید سکیں، نہ ان کے پاس ۶۱۲؍گرام چاندی
ہے ، ایسے لوگ غریب کہے جائیں گے۔ان میں دو طرح کے لوگ ہیں۔کچھ تو وہ لوگ
ہیں جو اسلامی شعار کو اپنائے ہوئے ہیں۔نماز کے پابند ہیں،رمضان کے روزے
رکھتے ہیں، مرد داڑھی رکھتے ہیں، اور عورتیں پردا کرتی ہیں، وہ اپنے سارے
کام کرتی ہیں، اپنے ہنرسے حلال روزی بھی کماتی ہیں جیسے سلائی، کڑھائی کر
کے یا بچیوں کو تعلیم دے کریا اور دوسرے کاروبارسے لیکن یہ سب شرعی طور
پر۔یہ لوگ تمام برے کاموں سے بچتے ہیں ناچ گانا سنیماسے دور رہتے ہیں، محنت
مزدوری کر کے روزی کماتے ہیں، حلال کھاتے ہیں، حرام سے بچتے ہیں، کسی کا
تکلیف نہیں دیتے، دہشت گردی کے قریب نہیں جاتے، یہ غریب ضرور ہیں لیکن ان
کو پسماندہ کہنا ان کی بے عزتی کرنا ہے۔دیندار بھائیوں کی مدد کے محتاج
ضرور ہیں لیکن اسلام کی نظر میں محترم اور قابل عزت ہیں،یہی لوگ اﷲ کے
پسندیدہ لوگوں میں ہیں کیونکہ ان کو قناعت اور صبر جیسی دولت حاصل ہے۔
ان غربا ء میں کچھ لوگ ایسے بھی ہیں جو مسلمان تو کہلاتے ہیں لیکن اسلام کی
کوئی پہچان علاوہ ختنہ کرانے یا بھینس کا گوشت کھانے کے اور کچھ بھی نہیں
ہے، بیشک ایسے لوگ پسماندہ ہیں، پچھڑے ہیں، قابل رحم ہیں۔ ان کو اس
پسماندگی سے اُبارنا ایک کام ہے۔ سب سے پہلے دیندار مسلمانوں کی ذمہ داری
ہے کہ ان کو اسلام سکھائیں، صحیح مسلمان بنائیں پھر ان کی غریبی کی طرف
توجہ دیں۔
حکومت اور معاشرہ کی نظر میں مسلمانوں کا پچھڑاپن:
حکومت اور معاشرہ کے پچھڑے پن کا پیمانہ الگ ہے۔ان کے نزدیک اگرکسی طبقہ کے
لوگ خواندہ نہیں ہیں،سرکاری ملازم نہیں ہیں،تجارت میں وہ پیچھے ہیں، کھیتی
کسانی میں وہ پیچھے ہیں۔سیاست میں ان کی کوئی حصہ داری نہیں ہے، ان کے پاس
دھن نہیں ہے،جدیدطرز کی سواری نہیں ہے، گھر پکا نہیں ہے وغیرہ تو یہ لوگ
پسماندہ کہلائیں گے۔ان نقات سے جب مسلمانوں کا جائزہ لیا گیا تو وہ ملک کے
دلتوں سے بھی پیچھے نکلے۔ سرکا ر کو اس کی فکر ہوئی اور اس نے ملک کے
پسماندہ طبقہ کے لوگوں کو سدھارنے کی اسکیمیں تیار کیں بلا شبہ یہ اسکیمیں
غریبی دور کرنے میں کارگر ثابت ہوں گی اور لاکھوں کروڑوں لوگوں نے ان
اسکیموں سے فائدہ اُٹھانا شروع کر دیا ہے اور امید کی جاتی ہے ان اسکیموں
کے ذریعہ دلتوں کی غربت دور ہوگی لیکن یہ بات بڑی تکلیف دہ ہے کہ یہ سبھی
اسکیمیں سود سے خالی نہیں ہیں اور مسلمان سود لینے کو بھی غلط مانتا ہے اور
دینے کو بھی۔ہمارے علماء کو اس طرف توجہ دینی چاہئے اور مسلمانوں کے لیے
کوئی راہ نکالنا چاہئے جس سے مسلمان ناجائز سود سے بچ کر ترقی کر
سکیں۔پسماندہ لوگوں کی غربت دور کرنے کی سرکاری اسکیموں میں سب سے اچھی
اسکیم ’’کوشل وکاس یوجنا‘‘ ہے اس میں مسلم نوجوانوں کو بڑھ چڑھ کر حصہ لینا
چاہئے۔لیکن اس میں بھی کسی ہنرمیں ٹریننگ لینے کے بعد اس سے متعلق صنعت
لگانے میں رقم کی ضرورت ہوتی ہے اور سرکارقرض دلانے پر تیار ہے لیکن یہ قرض
بھی بغیر سود کے نہ ہوگا۔ البتہ جن صنعت میں سرکاری’انودان‘ ملتا ہے اور
سود کے ساتھ قرض بھی اس میں اس بات کی گنجائش سمجھ میں آتی ہے کہ ’انودان‘
اور سودبرابر ہیں یا ’انودان‘ زیادہ ہو تو قرض لیکر وہ صنعت اپنائی جا سکتی
ہے۔ کچھ صنعت ائسی ہیں جن میں خاصی زمین کی ضرورت ہوتی ہے جیسے ’مچھلی
پالن‘،’دودھ ڈیری‘،’بکری پالن‘ وغیرہ۔لیکن زمین حاصل کرنا غریب مسلمانوں کے
لیے ناممکن ہے۔
خلییجی ممالک اور غریب مسلمان:
بیشک خلیجی ممالک نے مسلمانوں کی مالی حالت سدھاری ہے لیکن خلیجی ممالک میں
کام حاصل کرنا، پاسپورٹ بنوانا اور ویزا لینا غریب مسلمانوں کے بس کی بات
نہیں۔ آج لاکھوں مسلمان خلیجی ممالک سے پیسہ لا رہے ہیں، وہ پسماندہ نہیں
ہیں۔ ان ممالک میں صرف مسلمان ہی نہیں بلکہ غیر مسلموں کی بھی لاکھوں کی
تعداد وہاں سے پیسہ لا رہی ہے۔یہ سچ ہے کہ کھاتے پیتے مسلمان بھی خلیجی
ممالک سے مالی اعتبار سے سدھر گئے ہیں، اگر وہاں وہ نہ جاتے تو وہ بھی غربت
کا شکار رہتے اس لیے کہ اپنے ملک میں ان کی ترقی کی راہیں بند تھیں۔ نہ ان
کی سرکاری نوکریاں آسانی سے مل رہی تھیں نہ ان کا تجارت میں کوئی حصہ تھا۔
اﷲ نے خلیجی ممالک کی مدد سے ان کی عزت رکھ لی اور آج وہ سماج میں کوئی
مقام رکھتے ہیں۔ |
|