شوہر بیوی کو سزا دے سکتا ہے ؟

اسلامی نظریاتی کونسل کے خلاف سبھی صف آراء ہو رہے ہیں۔یہ خواتین کی آزادی نہیں، بغاوت چاہتے ہیں۔ باغی خاتون ہی ان کے ہاتھ میں کھلونا بن سکتی ہے۔ خواتین کے حوالے سے ہمیشہ متنازعہ اور متضادآراء پیش کی جاتی ہیں۔ یہ این جی اوز اور انسانی حقوق والے طاق میں رہتے ہیں۔ ان کا مقصد کچھ اور رہا ہے۔ ایک شوہرکو اپنی بیوی پر ہاتھ اٹھانے سے پہلے یہ بھی خبر ہو کہ اس کی بہن یا بیٹی کے ساتھ بھی یہ سب ہو سکتا ہے۔ تب اس کا ردعمل کیا ہو گا۔ ہم ہمیشہ مکافات عمل کی بات کرتے ہیں۔ ہم آج جیسا سلوک کسی کی بہن بیٹی کے ساتھ روا رکھیں گے، کل ایسا ہماری بہن بیٹی کے ساتھ ہو گا۔ اسی طرح آج کی بہو کل کی ساس ہو گی۔ اگر آج اس نے اپنے شوہر کو ساس سسر کے خلاف ورغلایا یا گھر توڑنے کی کوشش کی۔ الزام اور بہانے بنائے تو کل اس کی بہو بھی ایسا ہی بلکہ اس سے بھی زیادہ بدترین سلوک کرے گی۔ آج بیٹا اپنے والدین کی نافرمانی کرے گا تو کل اس کا بیٹا بھی نافرمان ہو گا۔ یہ مشاہدہ ہوا ہے کہ کچھ والدین اپنی بیٹی کو ہدایت دیتے ہیں کہ شوہر کے ساتھ سختی سے پیش آئے ۔ وہی والدین بیٹے کو بیوی کے بارے میں سخت ہدایات دیتے ہیں۔ اسی رویئے سے خاندان بکھرتے ہیں۔

اسلامی نظریاتی کونسل نے ریمارکس دیئے کہ شوہر اپنی اہلیہ پر ہلکا ہاتھ اٹھا سکتا ہے۔جس پر ایک ہنگامہ بپا ہے۔ اگر اس تنقید اور ہنگامہ آرائی کا مقصد اصلاح اور بہتری ہو تو ٹھیک ، ورنہ اس سے معاملات بگڑ جاتے ہیں۔یہ انتشاری لوگ اب گھریلو زندگیوں میں زہر گھولنے کا کام کر رہے ہیں۔ وہ خاندانوں کو مقدمہ بازی میں الجھا رہے ہیں۔ ہو سکتا ہے کہ وکلاء حضرات کو فائدہ ہو تا ہو لیکن وہ بھی بہن بیٹیوں والے ہیں۔جب آگ بھڑک اٹھے تو یہ سب کچھ خاکستر کر دیتی ہے۔اس پر ریت مٹی ڈالنے کے بجائے اگر تیل چھڑک دیا جائے تو انجام کیا ہوگا۔کبھی پانی بھی تیل کا کام کرتا ہے۔

نوک جھونک، تکرار، بحث مباحثہ، کرودھ، بات بات پر تلخی ماحول کو کشیدہ بنا دیتی ہے۔ امن و سکون ختم ہو جاتا ہے۔ جس گھر میں سکون نہیں ، وہاں دیگر سب آرام بے کار ہیں۔ دولت سے سکون خریدنا مشکل ہے۔ خوشحالی اور پر سکون زندگی کے لئے گھر کے اندر سب کی قدر دانی کی جاتی ہے۔ چھوٹے بڑے کو عزت دی جاتی ہے۔ کسی سے امتیازی سلوک نہیں کیا جاتا۔ بیٹی اور بہو میں جو لوگ فرق کرتے ہیں۔ وہ انتہائی درجے کے گھٹیا پن کا مظاہرہ کرتے ہیں۔ مارپیٹ ، تشدد بلا شبہ نا پسندیدہ عمل ہے۔ گھر میں یا سکول میں بچوں کی اصلاح کے لئے ہلکی سرزنش کی جاتی ہے۔ مگر آج کا بچہ کافی حساس ہے۔ وہ اسے اپنی توہین اور ہتک سمجھتا ہے۔ بلکہ ناگواری کا اظہار بھی کرتا ہے۔ کھانا پینا ، بات چیت تک چھوڑ دیتا ہے۔ گو کہ والدین یا استاد کی نیت پر کوئی شک نہیں۔ دنیا میں شاید یہ دو ہی ہیں جو اپنے بچے یا شاگرد کی ترقی پر فخر کرتے ہیں۔ اس پر حسد یا بغض نہیں کرتے۔ گھر کے اندر ہی نہیں بلکہ ہر جگہ، دفتر، سکول،سٹور، کھیت نیز ہر جگہ ہر کسی کو عزت نفس کی فکر ہوتی ہے۔ کسی میں یہ مادہ کم اور کسی میں زیادہ پایا جاتا ہے۔ اس لئے بیوی، بہو، ساس کسی کی بھی عزت نفس مجروح نہ ہو تو بہتر ہے۔ دین نے کامیاب گھریلو زندگی کے نسخے دیئے ہیں۔ ہر مسلہ کا حل پیش کیا ہے۔ احترام اور عزت کے رشتے اور دوستی ہی نہیں بلکہ دفتر، سکول ہر جگہ ماحول قائم کرنے کی ضرورت ہوتی ہے۔ گھریلو ناچاقی کیسے پیدا ہوتی ہے۔ دنیا میں ہر مسلے کا حل ہے۔ اگر آپ مسلے کا حل چاہتے ہیں تو حل سامنے آ کھڑا ہو جاتا ہے۔ اگر مسلے کو لٹکانا چاہتے ہیں یا اس کی آڑ میں مقصد کچھ اور ہے تو پھر کچھ نہیں ہو سکتا۔ بہو بیوی کی لاکھ اچھائی بھی بری لگے گی ۔ اگر مقصد نیک ہے ۔ گھر بسانے کی نیت ہے تو اس کی ہر بات اچھی لگے گی۔ پھر مار پیٹ کی نوبت ہی نہیں آسکتی۔ بیویوں کی مار پیٹ پر ہنگامہ ہوتا ہے مگر بے چارے شوہر کی مار پیٹ پر سب خاموش ہو جاتے ہیں۔ مظلوم شوہروں کے کوئی حقوق نہیں۔ بیوی اپنے والدین، بھائیوں، رشتہ داروں سے مل کر جو ظلم شوہر پر ڈھاتی ہے ، ان کی کسی کو پروا نہیں۔

اسلامی نظریاتی کونسل بے چاری کا کیا ہے۔ اس کی سفارشات پر عمل ہی نہیں ہوتا۔ وہ قرآن و سنت سے متصادم کسی بھی عمل کو روکنا چاہتی ہے۔ یہی اس کا منڈیٹ ہے۔ وہ پارلیمنٹ اور صوبائی اسمبلیوں کو سفارشات پیش کرتی ہے۔ پارلیمنٹ سمیت حکومت ،صدر، گورنرکو ایڈوائس کرتی ہے۔ یہ سالانہ رپورٹیں بھی اسمبلیوں میں پیش کرتی ہے۔ اس کے موجودہ چیئر مین مولانا محمد خان شیرانی ہیں۔ جبکہ ارکان بھی تقریباً19ہیں۔ آج اسے ایک بار پھر نشانے پر رکھا گیا ہے۔ اسے نکاح و طلاق ،اور دیگر معاملات پر آڑے ہاتھوں لیا جاتا ہے۔ اب بیوی کی ہلکی مار پیٹ کی اجازت سے متعلق یہ موضوع بحث بنی ہے۔ مگر یہ بحث کو مداخلت کی طرز پر الجھایا جا رہا ہے۔ جبکہ شریعت خاندانی معاملات میں بیرونی مداخلت کی حوصلہ شکنی کرتی ہے۔ افراد یا اداروں کی مداخلت گھروں میں برداشت نہیں کی جاتی۔ ایسا کوئی قانون منظور نہیں ہونا چاہیئے جو رشتوں کے تقدس کے خلاف ہو یا فریقین کے درمیان مصالحت کی راہ میں رکاوٹ بنے۔ اگر گھر میں مفاہمت، برداشتم تحمل اور صبر سے ایک دوسرے کے احترام میں معاملات حل کئے جائیں تو کبھی کوئی مسلہ سنگین نوعیت اختیار نہیں کرے گا۔ کسی تنازعہ کی نوبت ہی نہیں آئے گی۔ کسی کو آگ لگانے کا موقع ہی نہ ملے گا۔ آج دو افراد کے درمیان کسی اختلاف کو دوسرا رنگ دیا جاتا ہے۔ منافق لوگ ہمیشہ دو کے درمیان صلح کے بجائے جھگڑا کرانا چاہتے ہیں۔ دو کے درمیان لڑائی چھیڑنے والے ، نفرتیں پھیلانے والے، فتنہ و فساد پیدا کرنے والے بدترین اور شیطان صفت لوگ ہوتے ہیں۔ اﷲ انہیں ہدایت دے۔ دو کے درمیان اتحاد، اتفاق، دوستی، محبت، مفاہمت، عفو درگزر کی فضا پیدا کرنے والے ہی عظیم اور بڑے لوگ ہوتے ہیں۔ اﷲ تعالیٰ ان سے راضی ہو، انہیں بہترین اجر عطا کرے۔
Ghulamullah Kyani
About the Author: Ghulamullah Kyani Read More Articles by Ghulamullah Kyani: 710 Articles with 555397 views Simple and Clear, Friendly, Love humanity....Helpful...Trying to become a responsible citizen..... View More