ہر چیز کی اپنی تاریخ ہے اور اُسی کے حوالے
سے تاریخ میں دو طرح کے لوگ زندہ رہتے ہیں؛ ایک وہ جو عظیم لوگ تھے اور
انہوں نے اس چیز کے حوالے سے کچھ انتہائی اچھے کام کئے اور کچھ وہ ہیں جو
اپنی بدترین عادتوں اور حرکتوں کے سبب اُس چیز کے لئے انتہائی نقصان کا سبب
بنے۔ ایک کا حوالہ تاریخ کا خوشگوار جھونکا ہوتا ہے اور دوسرے کا حوالہ
انسانوں کے لئے کرب کا باعث۔
بحیرہ روم میں چار پانچ جزیروں مالٹا، گوزو، کومینو، کومی ناٹو اور فل فلا
پر مشتمل ایک چھوٹا سا ملک ہے جس کا نام اُن میں سب سے بڑے جزیرے کے نام پر
مالٹا ہے۔ مالٹا کی کل آبادی ساڑھے چار لاکھ نفوس پر مشتمل ہے۔ ری پبلک آف
مالٹا کا کل ایریا 316 سکوئر کلومیٹر ہے۔ لوگ رومن کیتھولک ہیں اور یہی ملک
کا سرکاری مذہب ہے۔ البتہ ملک میں مجموعی طور پر کل 3000 مسلمان بھی ہیں۔
ایک مسجد اور مسلمانوں کا سکول بھی ہے۔ لوگوں کو ہر طرح کی مذہبی آزادی ہے
اور کسی کے مذہبی جذبات کو ٹھیس پہنچانے پر سخت سزا دی جاتی ہے۔ مالٹا
یورپین یونین کا ممبر ملک ہے اور اس کی کرنسی یورو ہے۔ سیاحت یہاں کی سب سے
بڑی انڈسٹری ہے۔ 1934ء تک اٹالین یہاں کی سرکاری زبان تھی اب بھی 66% آبادی
یہ زبان بولتی اور جانتی ہے مگر اب یہاں انگریزی اور مالٹا کی مقامی زبان
کو سرکاری حیثیت حاصل ہے۔ دوسری جنگ عظیم کے دوران مالٹا کے لوگوں نے جس
بہادری سے انگلینڈ کا ساتھ دیا اُس کے اعتراف کے طور پر برطانیہ نے 1942ء
میں مالٹا کو جارج کراس دیا جو ایک بہت بڑا اعزاز تھا۔ 21ستمبر 1964ء کو
مالٹا آزاد ہو گیا، مگر جارج کراس آج بھی اس کے جھنڈے پر موجود ہے۔ مالٹا
میں انسانی ہاتھوں کے بنے ہوئے بڑے بڑے پتھروں کے مجسمے ہیں جو خیال ہے کہ
3600 قبل مسیح سے تعلق رکھتے ہیں اور یہ اہرام مصر اور دیوار چین سے قدیم
تر ہیں۔
اگاتھا باربرا مالٹا لیبر پارٹی کی رُکن تھیں جو 1947ء میں مالٹا کی
پارلیمنٹ کی پہلی دفعہ رُکن بنیں۔ وہ پارلیمنٹ کی منتخب ہونے والی پہلی
خاتون تھیں اور 1982ء میں ملک کی صدر منتخب ہونے تک لگاتار پارلیمنٹ کی
رُکن رہیں۔ اپنے اس 35 سالہ پارلیمانی زندگی کے زیادہ تر عرصے میں وہ واحد
خاتون رکن کی حیثیت سے پارلیمان میں موجود رہیں۔ 1955ء میں لیبر پارٹی کی
کامیابی کے بعد اگاتھا باربرا کو تعلیم اور ثقافت کا وزیر بنایا گیا۔
باربرا نے فوری طور پر تعلیم کے ایک بڑے منصوبے پر کام شروع کیا۔ 44 بڑے
نئے سکول قائم کئے اور پہلے سے موجود سکولوں کو وُسعت دینے کا کام شروع کیا۔
5 سے 14 سال تک کے بچوں کو فوری طور پر مفت تعلیم کی فراہمی شروع کی۔ بچوں
کو کتابیں، کاپیاں، طبی سہولتیں اور ٹرانسپورٹ بلا معاوضہ ملنا شروع ہو
گئیں۔ ٹیچر ٹریننگ حاصل کرنے والے بچوں کو مفت تعلیم کے علاوہ جیب خرچ بھی
دیا جانے لگا۔ اس وقت تک گونگے، بہرے، اندھے اور ذہنی معذور بچوں کو لوگ
چھپا کر رکھتے تھے۔ باربرا نے ایسے افراد کی مردم شماری کروا کر ان کے لئے
خصوصی مراکز کھولے اور آج مالٹا میں ایسے تمام افراد معاشرے کا کارآمد حصہ
ہیں اور ایک خودمختار زندگی گزار رہے ہیں۔ باربرا نے ایک نئی طرح کی فنی
تعلیم کی ابتدا کی اور لڑکے اور لڑکیوں کے لئے بہت سے ایسے سکول کھولے جہاں
انہیں فنی تعلیم دی جاتی تھی۔
1982ء میں صدر منتخب ہونے کے بعد باربرا کے کام میں کوئی فرق نہیں پڑا بلکہ
اب ان کے کام میں ایک نیا ولولہ اور جوش نظر آیا۔ انہوں نے عورتوں کے لئے
مردوں کے مساوی اُجرت کا نظام متعارف کرایا۔ بے روزگاروں کے لئے بیروزگاری
الاؤنس شروع کیا۔ سالانہ بونس ضروری قرار دیا۔ بچوں کے الاؤنس سمیت بہت سی
ایسی اصلاحات کیں جن سے مالٹا کے عوام کی معاشی اور سماجی حالت میں ایک بہت
بڑی تبدیلی آئی۔ بے روزگاری کی شرح تقریباً ختم ہو گئی لیکن باربرا کی سب
سے بڑی شہرت ان کی تعلیمی اصلاحات کے علاوہ بزرگ شہریوں کے لئے بہت سے کام
ہیں۔ جن میں سب سے بڑا کام یہ ہے کہ وہ پنشن کو دو تہائی تنخواہ کے برابر
لے آئیں۔ انہیں احساس تھا کہ عام آدمی کے پاس تنخواہ کے ساتھ ساتھ بہت سے
الاؤنس اور بہت سی مراعات ہوتی ہیں لیکن ایک ریٹائرڈ آدمی کے پاس خالصتاً
پنشن کے علاوہ کچھ نہیں ہوتا۔ چنانچہ انہوں نے بزرگ شہریوں کی اس مشکل کو
محسوس کرتے ہوئے نہ صرف ان کی پنشن تنخواہ کے دو تہائی کے برابر کی بلکہ
انہیں بہت سی مراعات کا حق دار بھی تسلیم کیا۔ یہی وجہ ہے کہ دنیا بھر میں
جب بھی پنشن کے حوالے سے کوئی بات ہوتی ہے اگاتھا باربرا کا نام بزرگ
شہریوں کے ایک عظیم محسن کے طور پر جانا جاتا ہے۔ وہ پنشن اور پنشنروں کے
حوالے سے ایک عظیم ہستی کے طور پرمانی جاتی ہیں۔
پاکستان میں عجیب روایت ہے کہ جب کوئی ریٹائرڈ ہوتا ہے تویک مشت کچھ رقم
وصول کرنے کے بعد اس کی پنشن تقریباً 35فیصد ہوتی ہے جو سات آٹھ سال میں
گھٹتے گھٹتے بمشکل تنخواہ کا 15 سے 20 فیصد رہ جاتی ہے۔ خصوصاً جب سے ہمارے
محترم وزیر خزانہ اسحاق ڈار کا دور آیا ہے پنشن میں تیزی سے کمی آتی جا رہی
ہے۔ جناب اسحاق ڈار صرف اس طبقے کو کچھ دینے کو تیار ہوتے ہیں جو سڑکوں پر
آنا، نعرے بازی کرنا اور حکومت کے لئے مشکلات پیدا کرنا جانتا ہے۔ بزرگ
شہری چونکہ عمر کے اس حصے میں کوئی بھی ایسا کام کرنے سے ہچکچاتے ہیں اور
صرف زبانی جمع خرچ کرتے ہیں اس لئے کوئی اُن کی بات سننے کو تیار نہیں ہوتا۔
موجودہ حکومت کے پچھلے تین سالہ دور میں ہر سال تنخواہوں میں اضافہ تقریباً
20فیصد رہا ہے، مگر پنشن میں یہ اضافہ ساڑے سات یا 10 فیصد سے کبھی بھی
زیادہ نہیں رہا۔ پچھلے پانچ سال کا تقابلی جائزہ لیا جائے تو صورت حال کچھ
اس طرح بنتی ہے کہ پانچ سال پہلے ایک ہزار روپے تنخواہ میں اضافہ ہر سال
20فیصد کے لحاظ سے پہلے سال 1200 روپے، دوسرے سال 1440روپے، تیسرے سال 1728
روپے، چوتھے سال 2074 روپے اور پانچویں سال 2488 روپے بن جاتی ہے، بلکہ بن
چکی ہے۔ جب کہ پنشن میں اضافہ ایک سال بیس فیصد، تین سال 10 فیصد اور ایک
سال ساڑھے سات فیصد رہا ہے۔ چنانچہ پانچ سال پہلے ایک ہزار روپے پنشن لینے
والا پہلے سال 1200روپے، دوسرے سال 10فیصد اضافے کے ساتھ 1320 روپے، تیسرے
سال 10فیصد اضافے کے ساتھ 1452 روپے، چوتھے سال 10فیصد اضافے کے ساتھ
1597روپے اور پانچویں سال ساڑھے سات فیصد اضافے کے ساتھ 1717 روپے وصول
کرتا ہے۔ یعنی پانچ سالوں میں تنخواہ میں اضافہ تو 149فیصد ہوتا ہے، جب کہ
پنشن میں اضافہ صرف 71فیصد ہوتا ہے۔ دنیا بھر میں ہر جگہ پنشن میں اضافہ
تنخواہ کی نسبت کچھ زیادہ ہوتا ہے۔ وہاں بزرگ شہریوں کا حکومت خود خیال
رکھتی ہے۔ انہیں مراعات دیتی ہے۔ سہولتیں دیتی ہے۔ انہیں کارآمد بزرگ شہری
جانتی ہے اور اس حوالے سے انہیں پورا احترام اور عزت دی جاتی ہے۔
کاش ہمارے حکمران بھی بزرگ شہریوں کے مسائل کو جان سکیں اور ان کی بھلائی
اور ان کی پنشن میں معقول اضافے کا سوچیں۔ انہیں خصوصی مروعات دیں۔ سہولتیں
دیں۔ ان کو کارآمد شہری جان کر ان کی عزت اور احترام کا پورا اہتمام کریں۔
اگر حکومت نے امسال کچھ اچھے اقدامات کئے اور پنشن میں تنخواہ کی نسبت کچھ
زیادہ اضافہ یا کم سے کم پنشن کے برابر ہی کیا توشاید جناب اسحاق ڈارصاحب
کا نام بھی پنشن کے حوالے سے بزرگ شہریوں کے دوست اور ہمدرد لوگوں میں شمار
کیا جانے لگے۔ |