تحفظ حقوقِ نسواں بل

اسلامی نظریاتی کونسل نے پنجاب اسمبلی میں بحث کے لیے بلآخر حقوقِ نسواں بل پیش کر دیا ہے ۔ تحفظ حقوق نسواں بل طویل عرصے سے متنازعہ تھا او رملک کا ہر طبقہ قریبااس بل پر بات کرتاچلا آیا ہے ۔ مجوزہ حقوق ِ نسواں بل مفقی امداد اﷲ نے تیار کیا ہے جو کہ 163شقوں پر مشتمل ہے ۔ اس بل کے بارے میں بات کرنے سے پہلے اس بل میں شامل چند شقوں کو یہاں بیان کرتی چلوں ۔
اسلام یا کوئی مذہب چھوڑنے پر عورت قتل نہیں کی جائے گی ۔
باشعور لڑکی کو اسلام قبول کرنے کا حق حاصل ہوگا ۔
غیرت کے نام پر قتل ، ونی ، کاروکاری کو قتل کردانا جائے گا اور اس کی سزا پھانسی کی صورت ہی ہوگی۔
ونی یا صلح کے لیے لڑکی کی زبردستی شادی کروانا قابل ِ تعزیر جرم ہو گا ۔
عاقل اور بالغ لڑکی ولی کی اجازت کے بضیر از خود نکاح کر سکے گی ۔
تادیب کے لیے عورت پر ہلکا پھلکا تشدد کرنے کا حق مرد کو حاصل رہے گا تاہم تادیب سے تجاوز پر عورت شوہر کے خلاف کاروائی کے لیے عدالت سے رجوع کر سکتی ہے ۔ ( واضع رہے کہ تادیب کی حد یہاں واضع نہیں کی گئی )
بیک وقت تین طلاقیں دینا قابل ِ تعزیر جرم ہو گا ۔
خاتون نرس سے مردوں کی تیمار داری پر پابندی ہو گی ۔
جہیز کے مطالبہ اور نمائش پر پابندی ہو گی ۔
آرٹ کے نام پر رقص ، موسیقی ، مجسمہ سازی کی تعلیم اور نمائش پر پابندی ہو گی ۔
گیر ملکی مہمانوں کے استقبال میں خواتین شامل نہیں ہو ں گی ۔ عورتوں کے غیر محرم افراد کے ساتھ تفریحی دوروں اور آزادنہ میل جو ل پر پابندی ہو گی۔
شوہر اہلیہ کی اجازت کے بغیر نس بندی نہیں کروا سکے گا
حمل کے 120 دن بعد اسقاط ِ حمل کو قتل گردانہ جائے گا۔
بیرونی صدمے سے اسقاب حمل کا مرتکب دیت کا بیسواں حصہ دینے کا پابند ہو گا ۔
دوران ِ جنگ عورت کو قتل کرنے کا حق نہیں ہو گا ۔
عورت سے زبردستی مشقت لینے پر مکمل پابندی ہو گی ۔
تیزاب گردی یا کسی حادثے سے عورت کی موت کی مکمل تحقیات کی جائیں گی ۔
معاشرتی بگاڑ سے متعلق اشتہارات میں عورت کے کام کرنے پر پا بندی ہو گی ۔
عورت کو شریعت کے فراہم کردہ تمام حقوق حاصل ہو ں گے ۔
عورتوں کو سیاست میں حصہ لینے کی اجازت ہو گی جبکہ عورتیں جج بھی بن سکیں گی اور انھیں وصیت کا حق حاصل ہو گا ۔ تاہم عورتیں فوجی ، عسکری خدمات میں براہ ِ راست حصہ لینے کی ذمہ دار نہیں ہوں گی ۔
پرائمری کے بعد مخلوط تعلیم پر پابندی ہو گی تاہم حجاب کی اجازت ، آزادانہ میل جو ل پر پابندی پر مخلوط تعلیم کی اجازت ہو گی ۔
عورت بچے کو دو سال تک دودھ پلانے کی پابند ہو گی ، ماں کا متبادل دودھ پر مبنی اشتہارات پر پابندی ہو گی ۔
واضع رہے کہ پنجاب اسمبلی میں تحفظ حقوق نسواں بل پاس کیا گیا تھا جس کو غیر اسلامی قرار دیا گیا تھا ۔ ہمارا ملک اسلام کے نام پر حاصل کیا گیا تھا اور یہاں اسلامی قوانین کو رائج کر نا ہی مسلمانوں کی اولین ترجیح تھی ۔ اس سلسلہ میں اسلامی نظریاتی کونس کی جانب سے پنجاب اسمبلی کو ایک خط بھی لکھا گیا تھا جس میں کہا گیا تھا کہ عائلی معاملات میں قانونی اداروں کو براہ راست شامل کر دینے سے معاشرے میں خاندانی نظام کو شدید نقصان پہنچے گا ۔اس بل کو اسلامی نظریاتی کونسل کی جانب سے غیراسلامی قراردیتے ہوئے نامنظور کر دیا گیا تھا ۔
اس بات کی وضاحت نہایت ضروری ہے کہ اگر ہم میں سے ہر ایک شخص نبی پاکﷺ کی عائلی زندگی کا مطالعہ کرے ، قرآن پاک کی سورت النساء اور سورت نور کا مطالعہ کیا جائے اور ان احکامات پر عمل کیا جائے تو ہمیں کسی حقوق ں نسواں بل کی ضرورت باقی نہیں رہتی ۔ قرآن اور حدیث میں ہر ایک حد متعین کر دی گئی ہے ۔ چاہے وہ خواتین کے حقوق ہوں یا مردوں کے ۔ حقوق کی ادائیگی کے لیے کسی قانون کا ہونا یا نہ ہونا ضروری نہیں بلکہ یہ ایک فرد پر ہے کہ وہ اپنی بیوی کے حقوق ادا کرتا ہے یا نہیں ۔ اسلامی نظریاتی کونسل کی جانب سے اس بل کا پیش ہونا اور اگر یہ بل پاس ہو جاتا ہے تو اس کا آئین ِ پاکستان کا حصہ بن جانا بلا شبہ معاشرہ میں موجو د قبع رسموں کے خاتمے کا ذریعہ بنے گا ۔ہمارے میڈیا اور لبرل سیاست دانو ں نے اس بل کی ایک شق کو نشانہ بنا رکھا ہے اس شق میں اگر کچھ ترمیم کر دی جائے مثلا مرد کو عورت کی اصلاح کے لیے ہلکے پھلکے تشدد کی اجازت ہو گی لیکن کوئی مر د اس کا ناجائز فائدہ نہ اٹھائے گا کیونکہ نبی پاک ﷺ نے اپنی کسی بھی زوجہ محترمہ پر کبھی ہاتھ نہیں اٹھایا اور نہ ہی کبھی کسی پر تشدد کیا ۔ بلا شبہ یہ بل پاکستان میں نفاذ اسلام کی جانب ایک مثبت قدم ہے ۔
Maemuna Sadaf
About the Author: Maemuna Sadaf Read More Articles by Maemuna Sadaf: 165 Articles with 164163 views i write what i feel .. View More