برادری واد سے نجات ضروری

چھوا چھوت ایک ایسی بیماری ہے جس کے دائرے کافی وسیع ہیں ۔اس سے انسانوں کی تذلیل ہوتی ہے اور نا جانے کتنے خاندان اور انسان اس بیماری سے جاں بحق ہو چکے ہیں ۔اس بیماری کو سماج میں پنپنے کیلئے سب سے زیادہ ذمہ دار سماج کے بااثر طبقہ ہیں جنہوں نے اپنی جھوٹی انا اور برتری کے لئے اس بیماری کی آبیاری کی ۔اس میں سب سے زیادہ عمل دخل مذہب کا رہا ہے ۔بڑے اور اعلی برادری کے افرادمذہب کو ڈھال بنا کر اس کا استعمال کرتے ہیں اور معاشرے میں بڑے پیمانے پر اسے پھیلانے میں موثر رول ادا کرتے ہیں ۔کچھ مذہب تو ایسے ہوتے ہیں جس میں انسان کی فلسفہ پیدائش ہی چھوا چھوت پر کی بنیاد پر ہے اور انسانوں کو مختلف خانوں میں تقسیم کر دیا گیا ہے جس کے مطابق ملک عزیز میں کروڑوں لوگوں کو زمرے میں تقسیم کر کے سماج میں اس کا نفاذ کیا گیا اور پھر انسانوں کے ذریعے ہی انسانوں پر ظلم کا وہ لامتناہی سلسلہ جاری ہے جس کے تھمنے کا کوئی سراغ نہیں مل رہا ہے ۔اس کو ختم کرنے کیلئے بڑے بڑے تعلیم یافتہ لوگوں نے تحریک چلائی اور اس کے ضد میں کچھ ایسی مذہب خود ہندوستان میں وجود میں آئی جو ان سب بیماریوں سے آزاد ہے ۔لیکن ایک مذہب اسلام ہے جس نے تمام انسانوں کو ایک آدم سے پھیلایا اور سبھی کو ایک ہی مرتبہ دیا یہاں کسی کو کسی پر کوئی فوقیت نہیں سب ایک ماں باپ کی اولاد ہیں ۔روز اول سے اسلام دنیا میں قائم ہے لیکن خود انسانوں نے اسلام سے الگ ہوگئے یا پھر جو بھی پیغمبر آئے ان کی نافرمانی کے باعث وہ طرح طرح کی خرافات میں مبتلا ہو گئے اسی میں ایک سب سے بڑی بیماری چھوا چھوت ہے جو انسان کو غلام بنانے کا کام کرتا ہے ۔ملک ہندوستان میں دلتوں کے رہنما ڈاکٹر بھیم راؤ امبیڈکر کہتے ہیں کہ اچھوت ہونا غلامی سے بھی بدتر ہے۔دلت جن کو پہلے اچھوت کہا جاتا تھا، انڈیا کے سب سے بدنصیب شہریوں میں سے ہیں۔ ہندو ذات کے سخت نظام میں دلت کو سب سے کم تر سمجھا جاتا ہے۔اگرچہ اچھوت پن کے معاملے پر ہندوؤں میں خاصی بحث ہوتی ہے لیکن مسلمان اس کے بارے میں کم ہی بات کرتے ہیں۔ شاید اس کی ایک وجہ یہ ہے کہ اسلام میں ذات پات کے نظام کو مانا ہی نہیں جاتا۔ہندوستان میں 14 کروڑ کی مسلمان آبادی زیادہ تر ان مقامی لوگوں کی اولادوں پر مشتمل ہے جنھوں نے ماضی میں کسی وقت اسلام قبول کر لیا تھا۔ ان میں سے زیادہ لوگوں کو ہندوؤں کی اونچی ذاتوں کے جبر سے بچنے کے لیے مذہب تبدیل کرنا پڑا تھا۔ سماجی طور پر پسماندہ مسلمانوں کے رہنما اعجاز علی کا کہنا ہے کہ موجودہ مسلمانوں کی آبادی کی 75 فیصد اکثریت مذہب تبدیل کرنے والوں کی اولاد پر مشتمل ہے۔ انھیں ’دلت مسلمان‘ کہا جاتا ہے۔سیاسی امور کے ماہر ڈاکٹر آفتاب عالم کا کہنا ہے کہ ’انڈیا اور جنوبی ایشیا میں رہنے والے مسلمانوں کے لیے ذات پات اور اچھوت ہونا ایک حقیقت ہے۔‘ انھوں نے مزید کہا: ’اور اچھوت ہونا اس برادری کا کھلا راز ہے۔تحقیق کے مطابق مسلمانوں میں بھی ’ذات کے حوالے سے طہارت اور نجاست اور پاکی ناپاکی کے تصورات‘ موجود ہیں۔ علی انور کی ہی ایک کتاب میں لکھا ہے کہ ہندو سماج میں دلت کو ’اسپرشیہ‘ (اچھوت) بھی کہا جاتا ہے، جب کہ مسلمان انھی کے لیے ’ارزل‘ (کمتر) کا لفظ استعمال کرتے ہیں۔ڈاکٹر عالم کی تحقیق میں یہ بات سامنے آئی کہ انڈیا کی کسی بھی بڑی مسلمان تنظیم میں ایک بھی ’مسلمان دلت‘ موجود نہیں ہے اور زیادہ تر اعلیٰ عہدوں پر چار ’اونچی ذاتوں‘ سے تعلق رکھنے والے مسلمان براجمان ہیں۔ایک اہم تحقیق میں تحقیق کاروں کے ایک گروہ نے اس بات کی نشاندہی کی ہے کہ چھوت چھات کا تصور اور نظریہ مسلمانوں میں بھی بہت شدت سے موجود ہے۔پرشانت ترویدی، سری نواس گولی، فہیم الدین اور سریندر کمار نے انڈیا کی شمالی ریاست اتر پردیش میں اکتوبر 2014 سے اپریل 2015 تک 14 ضلعوں اور سات ہزار گھروں سے یہ نتائج حاصل کیے۔ انھیں معلوم ہوا کہ سکھوں سمیت ذات سے متعلق تعصبات تمام مذہبی فرقوں میں پائے جاتے ہیں۔ ممکنہ طور پر صرف پارسی برادری ذات پات کے اس نظام سے دور ہے۔ پرشانت ترویدی کا کہنا ہے: ’یہ بات کہ ذات پات کے تعصبات صرف ہندو مذہب سے منسلک ہیں، ایک ایسی سوچ ہے جو حکومت اور تعلیمی ادارے نوآبادیاتی زمانے سے سوچتے آ رہے ہیں۔‘اس لیے ان تحقیق کاروں کا کہنا ہے کہ ’دلت مسلمانوں‘ کو اور عیسائیوں کو ہندو دلتوں کی طرح کوٹا سسٹم کے فوائد حاصل ہونے چاہییں۔ملکمیں ذات پات ایک ایسا کمبل ہے جسے آپ تو چھوڑ سکتے ہیں لیکن یہ آپ کو نہیں چھوڑے گا۔ضرورت اس بات کی ہے کہ کم از کم اسلام کے ماننے والے اس برادری واد بیماری سے آزاد ہوں جو ہمیں ہندوستانی ہونے کی وجہ سے وراثت میں ملی ہے ۔لیکن ایک خوش آئند قدم یہ بھی ہے کہ آج کل بہت بڑے پیمانے میں مسلمانوں کے اخبارات میں شادیوں کا اشتہار شائع ہوتا ہے جس میں صاف لکھا ہوتا ہے کہ ذات برادری کی کوئی قید نہیں ۔اور بہت سے رشتے بین الابرادری میں ہو رہی ہیں ۔
Falah Uddin Falahi
About the Author: Falah Uddin Falahi Read More Articles by Falah Uddin Falahi: 135 Articles with 104706 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.