انسان کے ذہن میں ہر وقت کچھ نہ کچھ
چلتا رہتا ہے ، خیالات کی بھرمار رہتی ہے ، کبھی سرور بھری سوچیں تو کبھی
اندیشوں کے ناگ پھن پھیلائے رہتے ہیں .....
مگر عموما وہ نسبتا مثبت خیالات کے اظہار پر ہی آمادگی ظاہر کرتا ہے....
اس کے بیان کردہ خیالات اس کی ذہنیت کے عکاس ہوتے ہیں.
حد درجہ منفی خیالات اس کی ذہنی پراگندگی کو ظاہر کرتے ہیں.جب کہ مثبت
خیالات اس کی اخلاقی بلندی کا ثبوت ہوتے ہیں....
زبان وہی بیان کرتی ہے جو دل و دماغ سوچتے ہیں.
عموما کہا جاتا ہے کہ خیالات پر بند باندھنا ممکن نہیں...بلا شبہ یہ ایک
حقیقت ہے .
خیالات کو وارد ہونے سے روکنا اگرچہ ممکن نہیں مگر ان کو خون جگر دے کر
پنپنے دینا یا روک دینا انسان کے کلی اختیار میں ہے.
اس کی آسان مثال یوں سمجھی جاسکتی ہے کہ اگر اپنے کسی پیارے کے متعلق کوئ
وسوسہ یا غلط سوچ بلا ارادہ ہی دل و دماغ میں آجائے تو انسان اس کی آبیاری
کرنے کی بجائے اس کو فورا جھٹک دیتا ہے. نہ کہ اسے لے کر سوچ کی وادیوں میں
بھٹکنے لگتا ہے.
یہی رویہ اگر ہر طرح کی منفی سوچ کے ساتھ روا رکھا جائے تو خیالات کو
پاکیزہ رکھنا عین ممکن ہے.
یوں رفتہ رفتہ یہ عادت ثانیہ بن جائے گی ، پھر اس پر محنت کی ضرورت بھی نہ
رہے گی کیونکہ ہر ایک کے بارے میں بھلی سوچ رکھنا فطرت کا تقاضہ ہے.
کسی نے کیا ہی خوب کہاہے کہ :
انسان ایک بند دکان کی مانند ہے جس کا تالا زبان ہے ، تالا کھلے گا تو ہی
پتہ چلے گا کہ دکان کس چیز کی ہے ؟
یاد رکھئیے! کہ ہر فاسد اور برا خیال سب سے پہلے خود سوچنے والے کا خون
جلاتا ہے ، جبکہ وہ شخص چین کی نیند سو رہا ہوتا ہے جس کا برا سوچ سوچ کر
اس کی نیندیں حرام ہوگئ ہوتی ہیں چونکہ دوسرےکو علم بھی نہیں ہوتا کہ کوئ
اس کے بارے میں گمان فاسد رکھتا ہے لہذا اس کا دفاع منجانب اللہ ہوتا رہتا
ہے . جس کی ناکامی کے امکانات صفر ہیں.
اپنے رب کے ساتھ گمان کا بھی یہی حال ہے .
انسان اگر صدق دل سے دست سوال دراز کرے تو خالی ہاتھ نہیں لوٹایا جاتا لیکن
....
اگر انسان زبان سے تو کوئ دعا مانگے مگر دل میں اس کی قبولیت کا یقین نہ
رکھے یعنی رب سے بد گمانی رکھےتو وہ کیونکر قبول ہوگی ؟
رب نے بھی یہ کہہ کر خود انسان ہی کو اس کا ذمہ دار قرار دے دیا ہے :
" انا عند ظن عبدی بی "
میں تو اپنے بندے کے گمان کے پاس ہوں .
بنت میر |