شادی میں پسند اپنی، مگر مرضی اپنے بڑوں کی

ڈاکٹر مولانا محمد عبدالسمیع ندوی

موجودہ دور کو نفسانیت ، حسن اور ہوس پرستی کا دور کہا جائے تو بیجا نہ ہوگا۔ پیار و محبت کے نام سے ہوس پرستی کے جو واقعات رونما ہورہے ہیں وہ نہایت افسوسناک ، المناک اور تشویشناک ہیں۔ اس پرآشوب و پرفتن دور میں سوائے اس کے کہ ہم اپنے ہوش و حواس کو سنبھالتے ہوئے اپنی روایات و اقدار کا پاس و لحاظ کرتے ہوئے نئے زمانے کی نئی تبدیلیوں کو خاطر میں نہ لاتے ہوئے صرف اور صرف اپنے ماضی سے اپنا تعلق استوار رکھیں تو یقین جانئے ہمارا حال نہایت تابناک اور مستقبل نہایت روشن ہوگا اور ہم زندگی کے ہر میدان میں سرخرو ، کامیاب اور کامران ہوں گے ؂
جلیل آساں نہیں آباد کرنا گھر محبت کا
یہ اُن کا کام ہے جو زندگی برباد کرتے ہیں

سچی ، پکی محبت کرنے والے کا یہ انجام ہے۔ نفسانیت آمیز اور ہوس پرستی پر مبنی محبت کا انجام کیا ہوگا کیا اس کا اندازہ لگایا جاسکتا ہے؟ اسلامی نقطہ نظر سے دیکھا جائے تو شادی وہ اہم فریضہ ہے جو مذہب ‘ قانون اور معاشرتی معیارات کی روشنی میں مرد و عورت کو رشتۂ ازدواج میں منسلک کرکے ایک دوسرے کا شریک حیات بنا دیتا ہے۔ہندوستان میں لڑکے و لڑکیوں کے مناسب رشتے ملنے کا مسئلہ پیچیدہ ہوتا جا رہا ہے۔ اس سلسلہ میں امیر غریب والدین سب ہی پریشان رہتے ہیں۔عموماً لڑکوں اور خصوصاً لڑکیوں کی تعداد ہزاروں سے تجاوز کرگئی ہے۔جو شادی کی عمر سے گذر چکے ہیں اس کی وجہ بیروزگاری‘ جہیز‘ اقتصادی نا ہمواریاں اور گھریلو حالات ‘ بڑھتے ہوئے فرسودہ رسم و رواج اور دیگر وجوہات ہیں۔اس ضمن میں خوب سے خوب تر کی تلاش بھی شادیوں کے مسائل میں ایک بڑی رکاوٹ بنتی جارہی ہے۔ شادی کے فریـضہ کی ادائیگی سے پہلے شریک حیات کا انتخاب ایک اہم مرحلہ ہوتا ہے۔ ہمارے معاشرے میں شریک حیات کا انتخاب زیادہ تر والدین ہی کرتے ہیں یا پھر لڑکا خود اپنے لئے لڑکی منتخب کرتا ہے۔ہمارے معاشرے میں کچھ عرصہ پہلے والدین اپنے بچوں کی شادیاں زیادہ تر اپنے رشتہ داروں میں یا ذات برادری میں کرتے تھے۔لیکن آج کل تعلیم اور آمدنی میں فرق کی بناء پر والدین میں آپس میں رشتے ناطے کرنے کی بجائے اپنے برابر کے لوگوں کو ترجیح دیتے ہیں۔موجودہ دور نمائشی دور ہے ‘ زندگی کے ہر معاملے میں نمود و نمائش ایک فیشن بن گیا ہے۔
نہ جا ظاہر پرستی پر اگر کچھ عقل و دانش ہے
چمکتا جو نظر آتا ہے وہ سب سونا نہیں ہوتا

رشتہ طئے کرنے سے قبل لڑکی کی نمائش بھی اس نمائشی دور میں فیشن بن چکا ہے۔ جس میں خود لڑکے اور لڑکوں کے والدین لڑکی کی شرافت‘ اخلاق ‘ سلیقہ مندی اور حسن سیرت کے بجائے گوری رنگت دراز قد ‘ دبلی پتلی‘ نازک اندام اور خوبصورت لڑکیوں کے رشتے پسند کرتے ہیں۔جب کہ یہ خوبی ہر لڑکی میں موجود نہیں ہوتی۔ اور اِس موقع پر تعلیم ، ہنر ، سلیقہ مندی حسن اخلاق ، سیرت و کردار کو نظرانداز کردیا جاتا ہے ۔ جبکہ شاعر کا یہ کہنا ہے ؂
حسن صورت عارضی حسن سیرت مستقل
اُس سے خوش ہوتی آنکھیں اِس سے خوش ہوتا ہے دل

یوں معاشرے کی بے شمار لڑکیاں ‘ لڑکوں کے والدین کے سامنے رد کردی جاتی ہیں۔ رد ہونے والی اکثر لڑکیاں نفسیاتی مسائل کا شکار بھی ہو جاتی ہیں اور بعض احساس کمتری میں مبتلا ہو کر رہ جاتی ہیں۔رد کرنے والوں میں کبھی والدین اور کبھی لڑکا خود شامل ہوتا ہے۔دوسری طرف لڑکیوں کے والدین بھی اکثر اوقات لڑکے کو مسترد کردیتے ہیں۔عموما ً لڑکیوں کے والدین کی خواہش ہوتی ہے کہ ان کی بیٹیاں بڑے گھرانوں میں بیاہی جائیں اور ان کے لئے ڈاکٹر‘ انجینئر ‘ بزنس مین‘ آرمی ‘ بنک آفیسر‘ گورنمنٹ افسر‘ سی اے‘ ایم اے کا رشتہ مل جائے جبکہ ان کی بیٹیاں زیادہ تعلیم یافتہ بھی نہیں ہو تیں یعنی دونوں طرف ہی اپنا اپنا معیار ہوتا ہے۔

ایسا بھی ہوتا ہے کہ لڑکا خود لڑکی کا انتخاب کرلیتا ہے تو والدین کا فرمان جاری ہوتا ہے کہ یہ ہرگز نہیں ہو سکتاتمھاری شادی ہماری مرضی سے ہوگی۔مگر میری پسند کا آپ کو کوئی خیال نہیں؟ میری زندگی کا اتنا بڑا فیصلہ آپ میری مرضی کے بغیر کیسے کرسکتے ہیں؟ یہ آواز لڑکے کی ہوتی ہے اور عموماًوالدین یہ کہہ کر اپنا فیصلہ صادر کر دیتے ہیں کے یہ ہمارا متفقہ فیصلہ ہے ‘ ہم تمھارے بارے میں تم سے بہتر سوچتے ہیں۔اس قسم کی گفتگو اکثر گھرانوں میں ہوتی ہے‘ اس میں اولاد اپنی پسند کی شادی پر بضد ہوتی ہے۔جبکہ والدین یہ حق اپنے پاس رکھنے کے متمنی ہوتے ہیں اور یہاں سے شادی جیسے اہم ‘ نازک اور حساس مسئلہ پر اختلافات کا ایک باب کھل جاتا ہے۔جو ہنستے بستے گھروں میں اکثر تلخیاں گھول دیتا ہے۔

یہاں سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ آخر شادی کس کی پسند سے کی جائے ۔ اپنی پسند سے یا والدین کی مرضی سے ۔

جواب اِس کا یہ ہے کہ شادی اپنی پسند سے کی جائے۔ مگر مرضی والدین اور اپنے بڑوں کی ہو۔ کیونکہ والدین نہایت دوراندیش ، ماحول اور حالات و خیالات سے واقف ہوتے ہیں۔ وہ بڑے جہاں دیدہ ہوتے ہیں وہ اپنی اولاد کے حق میں نہایت متفکر ، مخلص اور خیرخواہ ہوتے ہیں۔
٭٭٭
 
syed farooq ahmed
About the Author: syed farooq ahmed Read More Articles by syed farooq ahmed: 65 Articles with 52331 views Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.