خط کا انتظار!
(Muhammad Anwar Graywal, BahawalPur)
لاہور میں ٹریفک کے جدید نظام پر عمل درآمد
کا آغاز ہوگیاہے، بتایا گیا ہے کہ اب ٹریفک وارڈنز اور خفیہ کیمروں کی مدد
سے ٹریفک کی خلاف ورزی کرنے والوں کو ہاتھ ڈالا جاسکے گا، جس چوک پر وارڈن
نہیں ہونگے وہاں خلاف ورزی کرنے والوں کی خفیہ کیمرے سے تصویر لی جائے گی،
وارننگ لیٹر گھروں کے پتے پر ارسال کیا جائے گا،معافی نہیں ملے گی۔ دوسری
طرف یہی کیمرے وارڈنز کی بھی نگرانی کریں گے۔ جس کے لئے شہر میں پچاس کیمرے
لگا دیئے گئے ہیں، ویجی لینس سیل بھی قائم کردیا گیا ہے۔ اس کاروائی کے تحت
اب تک پانچ ہزار شہریوں کو خط لکھے جاچکے ہیں۔ آئندہ خلاف ورزی کرنے والوں
کا ڈیٹا ایکسائز کو بھی فراہم کیا جائے گا، گاڑی فروخت کرنے کے بعد ٹرانسفر
کرتے وقت پورا جرمانہ ادا کرنا پڑے گا۔ خبر سے یہ معلوم نہیں ہوا کہ جن
پانچ ہزار شہریوں کو خط لکھے گئے ہیں، ان کا کیا جواب آیا، یا انہیں دی گئی
وارننگ کیا رنگ لائی، یا پھر جرمانہ ان کے کھاتے میں جمع ہوگیا ، جو کبھی
گاڑی فروخت کرتے ہوئے انہیں قومی خزانے میں جمع کروانا ہوگا۔ وارڈن ہوں یا
کیمرہ، ٹریفک قانون کی خلاف ورزی کرنے پر اس کے گھر کا پتہ کیسے معلوم
ہوگا؟ اگر یہ پتہ ایکسائز والوں سے لیا جائے گا جوگاڑی کے کاغذات بنواتے
وقت لکھوایا گیا تھا، تو بہت سے لوگ ایسے ہوتے ہیں، جو آئے روز اپنا پتہ
بدلتے رہتے ہیں، کیونکہ جن لوگوں کے ذاتی گھر نہیں ہوتے وہ یقینا خانہ
بدوشوں کی طرح مختلف گھروں میں قیام کرتے سفر جاری رکھتے ہیں۔ ایسے میں بے
شمار خط تو کسی پتہ کے مناسب نہ ہونے کی وجہ سے گلیوں میں دھکے کھاتے رہیں
گے۔ جن پچاس ہزار شہریوں کو یہ خط بھیجے گئے ہیں، ان میں سے نہ جانے کتنے
لوگوں کو ملے ہیں اور کتنے ایسے ہیں جو اپنے گھر تبدیل کرچکے ہیں؟
یقینا ٹریفک انتظامیہ نے اس معاملے میں تمام فول پروف انتظامات مکمل کئے
ہوں گے، بڑے سر جوڑ کر بیٹھے ہونگے، یہ فیصلے ہوئے ہونگے، یہ اندازہ لگایا
گیا ہوگا کہ نئے نافذ ہونے والے بندوبست سے کتنے لوگ قانون کی گرفت میں
آئیں گے؟ پہلے سے معاملہ بہتر ہوگا یا کچھ عرصے کے بعد اس منصوبے کو چھوڑ
کر کوئی اور بندوبست شروع ہو جائے گا؟ تاہم اس کے ساتھ ٹریفک وارڈنز کی
نگرانی والی بات زیادہ پائیدار دکھائی دیتی ہے، ان کے لئے نہ پتے کا مسئلہ،
نہ ایکسائز کے محکمے کا چکر۔ بس سامنے بیٹھے کارکردگی کا پول کھل جایا کرے
گا، موصوف ٹریفک کنٹرول کررہے تھے، چالان کر رہے تھے، یا کچھ دیگر مصروفیات
تھیں۔ (تاہم وارڈن سسٹم میں کوتاہیاں دیگر ٹریفک پولیس سے بہت کم ہیں)
قانون پر عمل درآمد کی بات ہے، تو یہ وارڈن اور کیمرے ان نوجوانوں کے بارے
میں کیا فرماتے ہیں جن کی ابھی ڈرائیونگ کی عمر نہیں ہوتی اور وہ بڑی بڑی
گاڑیاں اور موٹرسائکل سڑکوں پر بھگاتے دکھائی دیتے ہیں، آئے روز حادثات کا
موجب بنتے ہیں ، قیمتی جانیں ضائع ہوتی ہیں، ان کے بارے میں قانون تو یقینا
خاموش نہیں ، مگر قانون پر عمل کروانے والے عموماً خاموشی اختیار کرلیتے
ہیں۔ کسی نوجوان کو روکنے پر اگلے ہی لمحے وہ قیمتی موبائل نکالتا اور کسی
کانمبر ملا کر وارڈن کو اس پر بات کرنے کا حکم دیتا ہے۔ یہاں تو یہ بھی
ہوتا ہے کہ ایسے میں اگر کسی نوجوان کی بڑی کار کی ٹکر سے کوئی بے گنا ہ
راہگیر مارا بھی گیا، تو اس کو پوچھنے والے بھی مشکل میں آجاتے ہیں۔ بڑے
اور طاقتور لوگ قانون کی کمزور رسیوں کی گرفت میں نہیں آتے۔ یہ کیمرے اور
وارڈن اُن گاڑیوں اور موٹر سائکلوں کا کیا کریں گے جو درجنوں کی تعداد میں
روزانہ چوری ہوتے، یا چھین لئے جاتے ہیں؟ کیا وہ ان کے اصل مالکان کو واپس
مل سکیں گے، یا وہ مستقل ہی ہضم ہوگئے؟ اور پھر یہ کیمرے اور وارڈن اس منظر
کی رپورٹ بھی کسی کو پیش کریں، جس میں وی وی آئی پی پروٹوکول میں ٹریفک روک
دی جاتی ہے، متبادل راستوں پر ٹریفک جام کا کیا حال ہوتا ہے، لوگ کس طرح
پریشان ہوتے ہیں اور ٹریفک بلاک کروانے والی شخصیت کو کس طرح بددعائیں دیتے
ہیں؟ یہ تمام امور بھی ان خفیہ کیمروں کی نگاہ میں ہوتے تو ہیں، مگر ان کی
روک تھام کرنے والا کوئی نہیں، کیونکہ جس نے یہ مسائل حل کرنے ہیں، دراصل
مسائل پیدا کرنے والے وہ خود ہوتے ہیں۔ کون نہیں جانتا کہ مسائل حل کرنے کا
واحد طریقہ قانون پر عمل درآمد ہے، اگر عمل نہیں ہوگا تو نہ کیمرے کام آئیں
گے، نہ وارڈن کچھ کرسکیں گے اور نہ ہی خطوں سے کوئی تبدیلی آئے گی۔ |
|