یہ بات لاریب ہے کہ پچھلے ساٹھ سالوں میں
جموں کشمیر کی تاریخ کا ہر باب ظلم و ستم، خوف و دہشت، قتل و غارتگری،
انسانیت کی پامالی ، آہوں اور چیخوں کی کربناک صداؤں، دلخراش و دلسوز
واقعاتوں اوربھیانک و جگرسوز مناظروں سے بھرا پڑا ہے۔ ان ساٹھ سالوں میں
کہی بے گناہوں کو جرمِ بے گناہی میں پیوندِ خاک بنایا گیا تو کہی بے کسوں
کو دارورسن کی گود میں بٹھایا گیا، کہی اسکولی بیگ اُٹھائے بچے کی زندگی کا
چراغ گُل کردیا گیا تو کہی اپنے حقوق کی بازیابی کے لئے آواز اُٹھانے والے
کو پسِ دیوار زندان خانے کے حوالے کر دیا گیا، کہی بستیوں کا تاراج کیا گیا
تو کہی بستیوں میں بسنے والوں کا قافیہ حیات تنگ کیا گیا، کہی ابنِ آدم کو
مشقِ ستم بنایا گیا تو کہی بنتِ حوا کی ناموس چھیتڑوں کی طرح ہوا میں
اُڑائی گئی،کہی دن کی روشنی میں سرزمینِ کشمیر خونِ آدم سے لالہ زار ہوئی
تو کہی رات کی تاریکی میں عزت و عصمت کا جنازہ نکالا گیا، کہی بوڑھے باپ نے
اپنے بیٹے کی جوان لاش کو اپنے کپکپاتے کندھوں پہ اُٹھایا تو کہی ماں نے
اپنے کلیجے کے ٹکڑے کو لحد میں اترتے دیکھا، کہی لاپتہ بھائی کا راستہ تکتے
تکتے بہن کی آنکھیں پتھرا گئی تو کہی بھائی نے بہن کی آہوں اور چیخوں کو
ہوا میں تحلیل ہوتے دیکھا، کہی کشمیر کی گود میں بسنے والوں کی حالت زار پر
کشمیر کو سینہ کوبی کرتے دیکھا گیا تو کہی خونِ ناحق سے رنگین ہوکر جہلم کو
ماتم کرتے ہوئے دیکھا گیا غرض کشمیری قوم نے اس عرصے میں ان گنت اور
لاانتہا ظلم کے نہ تھمنے والے دور کا مشاہدہ کیا اور حق یہ ہے کہ کشمیری
قوم کو دبانے کے لئے جبر کے نت نئے ہتھکنڈے اپنائے گئے لیکن یہ کشمیری قوم
ہی تھی جس نے بُنیان المرصوص بن کر بادِ مخالف کو راستہ بدلنے پر مجبور
کیا۔ تاریخِ کشمیر گواہ ہے کہ غلامی کی طویل اور سیاہ رات کا سینہ چاک کرنے
کے لئے قوم کو بے انتہاقربانیاں دینی پڑرہی ہے جن کا تصور کر کے ہی رونگٹھے
کھڑے ہوجاتے ہیں۔ جب کشمیری قوم کے پیدایشی حق پر شب خون مارا گیا اور پوری
قوم کے جذباتوں، ارمانوں، امنگوں اور خواہشوں کو جبر کے خنجر سے ضرب دے کر
ذبح کیا گیا تو کوئی نہیں جانتا تھا کہ اب کشمیر کے اُفق پر ظلم کی ایسی
آندھی چلے گی جس سے روحِ کشمیر کانپ اٹھے گی اور یہاں کے دشت و جبل،
بحروبراور عرش و فرش ایسے دلخراش مناظر کے چشم دید گواہ بن جائینگے جن
مناظر کا کسی مہذب دنیا نے تصور نہ کیا ہوگا۔ یوں تو کشمیر ی قوم نے اپنی
مبنی بر حق جدوجہد کو منزل مقصود سے درکنار کرنے کے لئے ایسی قربانیاں دیں
جو صرف زندہ قومیں دے سکتی ہیں ، یہاں ماں کی گود سے بیٹے کو چھین کر کسی
چوراہے پر قتل کر کے پھینک دیا گیا مگر ماں نے اُف تک نہ کی، یہاں آشیانوں
کو راکھ میں تبدیل کیا گیا مگر لوگوں نے آہ تک نہ کی، یہاں لاکھوں جوانوں
کو زمین کا پیوند بنا دیا گیا مگر کبھی کسی نے آنسوؤں کو نہ بہنے دے کر قوم
کے حوصلوں کو شرمندہ نہ کیامگر اس بد نصیب قوم کی تاریخ میں کچھ ایسے
سانحات رقم کئے گئے جن کی وجہ سے پوری قوم خون کے آنسو روپڑی۔ کشمیر کی وہ
کون سی آنکھ ہے جس نے ان دلسوز واقعاتوں پہ آنسوؤں کے بدلے خون نہ بہایا
ہو۔ کشمیری تاریخ کے ان سانحات میں ایک ایساسانحہ جس نے قوم کو ایسا گھاؤ
دیا جس کا درد تقریبََا بیس سال گذرجانے کے بعد بھی کشمیر کے بچے ، بوڑھے،
جوان ، مائیں اور بہنیں اپنے سینے میں محسوس کرتے ہیں ، سانحہ ’’کنن پوشہ
پورہ‘‘ جس میں عزت کی رداؤں اور عصمت کی قباؤں کو بے رحم ہاتھوں نے رات بھر
تار تار کیا ،کشمیری قوم کی اُن عزت مآب ماؤں اور بہنوں کی جگرسوز داستان
ہے جن کا سب کچھ اپنے گھر کے اندر ہی لُٹ گیا اور جن کی حالت پر رات کے
تارے تادمِ سحر تک اشک باری کرتے رہے۔سانحہ کنن پوشہ پورہ کو انجام دینے
والے شیطان صفت ابھی آزادی کے ساتھ گھوم کر کشمیریوں کے زخم پر نمک چھڑنے
کا کام کر ہی رہے تھے اور انصاف کا قاضی ابھی فتویٰ دینے کے لئے شواہد اور
ثبوت ہی اکٹھا کر رہا تھا کہ اس قوم پر ایک اور زخم لگایا گیا جس نے کنن
پوشہ پورہ کی یاد تازہ کردی۔ ۲۹ مئی ۲۰۰۹ء کو شوپیان کی آسیہ اور نیلوفر
اپنے باغ میں گئے تاکہ کھانے کے لئے سبزی لائیں اور سبزی تو نہیں آسکی لیکن
وہاں سے اُن دونوں کی لاشیں آئی جن کو دیکھ کر آسمان بھی پھٹ پڑا اور زمین
بھی سہم کر رہ گئی۔۲۹ مئی کی وہ شام جب شوپیان میں سورج تھک ہار کر اہرہ بل
کے اونچے پہاڑوں کے پیچھے سستانے کی تیاری کر رہاتھا ،شام کا اندھیرا دن کی
روشنی کو نگلنے کی کوشش کر رہا تھااور پرندے اپنے اپنے گھونسلوں کی جانب
لوٹنے کا سوچ رہے تھے مگر آسیہ اور نیلوفر گھر سے تو نکل گئیں لیکن انھوں
نے وآپس مڑنے کا سوچا ہی نہیں ، سوچتے بھی کیسے ،کیونکہ وہ ایک ایسی دنیا
میں پہنچ چکی تھیں جہاں سے جانے والے وآپس نہیں لوٹتے۔دن کی روشنی میں گھر
سے باغ کی طرف نکلنے والی آسیہ اور نیلوفر جب اُس وقت بھی وآپس نہیں لوٹیں
جب اندھیرا روشنی پہ حاوی ہو چکا تھا تو ظاہر ہے کہ گھر والے بہت پریشان
ہوگئے، اُنھوں نے رات بھر ڈھونڈا لیکن اُن کا نام و نشان کہی نہ ملا ، صبح
جب ۳۰ مئی کی سحر طلوع ہوئی اور لوگ تلاش کرتے کرتے نالہ رمبی آرہ تک پہنچے
تو وہ یہ دیکھ کر ششدر رہ گئے کہ آسیہ اور نیلوفر پتھروں کے ننگے بستر پر
تشدد و اجتماعی عصمت دری کی لحاف اوڑھ کر سو چکی تھیں ، لوگ چیخنے لگے یااﷲ
یہ کیا ہوا؟ یہ کیا ماجرا ہے؟کس بد خصلت و شیطان صفت ہاتھوں نے یہ ظالمانہ
فعل انجام دیا ؟ اہل خانہ زاروقطار رو رہے تھے اور ٹھنڈے جسموں کو پکار رہے
تھے کہ خدارا ہمارے سوالوں کا جواب دو، کس نے آپ کے معصوم جسموں کو جنسی
تشدد کر کے چھلنی کر دیا؟ لیکن جواب کون دیتا کیونکہ آسیہ اور نیلوفر کی
زبانیں خاموش ہو چکی تھیں۔ اپنی حالت بیان کرنے کے لئے اُن کے پاس کچھ رہا
ہی نہیں تھا البتہ رمبی آرہ کی فضاسوگوار تھی ، وہاں کے پتھر مرثیہ خواں
تھے، وہاں کے درخت خود کو ہلا ہلا کر لوگوں کے سامنے ظلم کی داستان بیان
کرنے کی کوشش کر رہے تھے مگر کاش قدرت اُنھیں زبان عطا کردیتی تو وہ بیان
کردیتے کہ کس طرح سے آسیہ و نیلوفر کی فلک شگاف چیخوں نے رمبی آرہ کے
اردگرد کے درودیوار ہلادئیے، کس طرح درندہ صفت حیوانوں نے اپنی درندگی کا
اظہار کرتے ہوئے معصوموں کی کھلتی جوانیوں پر ترس نہ کھایاکیونکہ اس کی گود
میں ظلم کا ایسا ننگا ناچ کھیلا گیا جو چشمِ فلک نے آج تک نہ دیکھا تھا۔
الغرض شوپیان سانحہ نے بھی کشمیری قوم کو ایسا زخم دیا جس کے درد نے پورے
کشمیر کو بے قرار کر دیا، سارا کشمیر دہل اٹھا، کشمیر کی سڑکیں ویران
ہوگئی،بازار سنسان ہو گئے ہر ایک آسیہ و نیلوفر کے قاتلوں کو سزا دینے کی
مانگ کر رہا تھا پھر اُس وقت کی حکومت نے عوام کے آگے سرنڈر کرتے ہوئے
تحقیقات کا حکم دیا۔ سانحہ شوپیان کی نام نہاد تحقیقات مکمل کر کے سی بی
آئی نے حقیقت سے بعید رپورٹ عدالت عالیہ میں پیش کر کے گویا آسیہ و نیلوفر
کے لواحقین کی بالخصوص اور کشمیری عوام کی بالعموم نمک پاشی کی۔حالانکہ
گذشتہ سالوں کے دوران کشمیریوں پر کیا کچھ نہیں گذری ہے، کس کس نوعیت کے
المیات پیش نہیں آئے مگر جہاں تک شوپیان سانحہ کا تعلق ہے یہ بہت ہی المناک
اور خون کے آنسو رلادینے والا واقعہ ہے۔گو دو معصوم خواتین کی عصمت دری اور
قتل کا یہ واقعہ دل دہلانے والا تو تھا ہی لیکن بعدازاں اس کی نام نہاد
تحقیقات سے جو پُراسرار باتیں سامنے آئیں یا جس طرح سے اس سانحہ کے مجرمین
کو بچانے کے لئے تحقیقاتی عمل کو پُرپیچ موڑ دئے گئے اُس نے اس واقعہ کو اس
طرح کے دیگرواقعات سے جداگانہ اور زیادہ افسوسناک بنا دیا ہے۔ سی بی آئی نے
جس انداز سے اس واقعہ کو ہمیشہ کے لئے دفن کرنے کی کوشش کی وہ افسوسناک ہی
نہیں بلکہ مذموم بھی ہے۔ ہونا تو یہ چاہئے تھا کہ اس سانحہ کے پیش آنے کے
ساتھ ہی مجرموں کے جکڑ لئے جانے کے سامان کئے جاتے مگر ایسا نہیں کیا گیا
بلکہ ایک ہاتھ پہ تحقیقات کا اعلان کیا گیا اور دوسری طرف مجرموں کی پردہ
پوشی کرنے کا مذموم عمل بھی شروع کیا گیا۔ دماغ پر معمولی زور دئے جانے پر
ہی یہ بات واشگاف ہو جاتی ہے کہ سانحہ شوپیان کو روزِ اول سے ہی دبائے جانے
کی کوشش کی گئی بلکہ تھانہ شوپیان میں اس سانحہ سے متعلق کئی دنوں تک محض
ایک معمولی شکایت درج رہی۔ اس کے بعد سابقہ وزیراعلیٰ کا وہ حق سے بعید
بیان جو اُنہوں نے سانحہ کے پیش آنے کے بعد ہی دیا کہ دونوں کی موت قدرتی
طور ایک نالے میں ڈوبنے سے ہوئی، یہ الگ بات ہے کہ بعد ازاں عوامی موڑ کو
بہت خراب ہوتے دیکھ کر عمر عبداﷲ نے معافی مانگی اور یہ تاثر دیا کہ انہیں
انتظامیہ نے غلط اطلاع فراہم کی تھی گو عمر عبداﷲ نے معافی طلب کی مگرکیا
غلط اطلاع فراہم کرنے والے کسی آفسر کے خلاف کوئی کاروائی بھی کی گئی کسی
کو نہیں معلوم حالانکہ اس بات کو خارج از امکان قرار نہیں دیا جاسکتا ہے کہ
غلاط اطلاع فراہم کرنے والے افسران نے کسی سازش کے تحت ہی وزیراعلیٰ کو غلط
اطلاع فراہم کی تھی ، اگر اس غلطی کو سنجیدگی سے لے کر اس کی وجوہات تلاش
کی گئی ہوتیں تو ممکن ہے کہ مجرمین کو چھپنے کا یوں موقع نہ ملا ہوتا۔ جان
کمیشن کے ذریعے کی گئی تحقیقات میں بھی کئی خامیاں عیاں تھیں مگر ان کی
جانب کوئی دھیان دئے بغیر سرکار نے عوام کی زبردست مزاحمت کے باوجود بھی
خامیوں سے پُر اس تحقیقاتی رپورٹ کو تھوپنے کی کوششیں کی۔ پھر پولیس کی
سپیشل انوسٹی گیشن کا نتیجہ بھی اسی طرح صفر کے برابر رہا اور مجرموں اور
عدالت کے مابین فاصلہ بڑھتا ہی گیا۔ ضابطہ یہ تھا کہ اس سانحہ میں جو بھی
لوگ شک کے دائرے میں تھے ان کے خلاف سخت کاروائی شروع کر کے جرم کی جڑوں تک
پہنچنے کی کوشش کی جاتی مگر جان کمیشن سے لے کر سی بی آئی کی فرسودہ
تحقیقات کی کاروائی کا جائزہ لینے پر ایسا لگتا ہے کہ جرم کی جڑوں کی جانب
جانے کے بجائے تحقیقاتی ٹیموں کا سفر کسی اور ہی سمت تھا۔سی بی آئی نے جو
مفصل رپورٹ پیش کی اس کا حقیقت کے ساتھ دور کا واسطہ بھی نہیں ہے، چنانچہ
ایجنسی کا کہنا تھا کہ دونوں کی موت نالہ رمبی آرہ میں ڈوب مرنے سے ہوئی ہے
جو کہ انتہائی مضحکہ خیز ہے حالانکہ جان کمیشن نے بھی اس بات کی گواہی دی
کہ نالہ رمبی آرہ میں اتنا پانی نہیں ہے کہ جس سے ڈوب کر مرا جاسکتا ہے اور
نہ ہی گذشتہ ایک دہائی کے دوران اس نالے میں کسی کے ڈوب مرنے کی کوئی تاریخ
ہی ہے۔ بحث کے لئے اگر مان بھی لیا جائے کہ آسیہ و نیلوفر قدرتی طور اس
نالے میں ڈوب گئیں تھیں لیکن ان کے جسموں پر لگے زخموں کا کسی کے پاس کوئی
جواب ہے؟ آخر وہ زخمی کیسے ہوگئیں ؟ ان کے پوشیدہ اعضاء پر تشدد کے نشانات
کیسے تھے؟ سی بی آئی کی 66 صفحات پر مشتمل رپورٹ کے حرف حرف پر بحث کی
گنجائش موجود ہے اور اسے جھوٹ ثابت کیا جاسکتا ہے، حد یہ ہے کہ ایجنسیوں نے
مجرموں کی نشاندہی کرنے کے بجائے خود سوگواروں کو ہی کٹہرے میں کھڑا کیا
چاہے وہ انصاف کے متلاشی وکلاء ہوں، ڈاکٹر یا پھر واقعی کے عینی
شاہدین،حالانکہ سی بی آئی ایک ایسا ادارہ ہے جس نے پُراسرار معاملوں کی تہہ
تک جاکر کئی بار اپنی صلاحیتوں کا اعتراف کروایا ہے مگر بدنصیبی یہ ہے کہ
کشمیر میں یہ ایجنسی ہمیشہ ہی دورُخی پالیسی اور مصلحتوں کا شکار ہوکر اپنی
شبیہ بگاڑتی رہی ہے۔سانحہ کنن پوشہ پورہ ہو یا ہائی پروفائل جنسی سکینڈل سی
بی آئی نے حقائق سے چشم پوشی کرکے کشمیر میں عوام مخالف اشتہار دیا حالانکہ
جنسی سکینڈل کی تحقیقات کے دوران بدنامی کا داغ حاصل کر چکی اس ایجنسی کو
سانحہ شوپیان نے اپنی ساخت بحال کرنے کا ایک نادر موقع فراہم کیا تھا مگر
اس نے اس موقع کو گنوا دیا۔آج جب سانحہ شوپیان کو سات سال مکمل ہوئے لیکن
عصمتوں کے قاتل آج بھی کھلے عام اور آزاد گھوم کر کشمیریوں کے زخموں پر نمک
پاشی کا کام کر رہے ہیں بلکہ اس معاملے کو سرد خانے میں ڈالا جا چکا ہے جو
اہلِ خانہ کے ساتھ ساتھ پوری قوم کے جذباتوں کے ساتھ کھلواڑ ہے اور حقوق
البشر کی پامالی ہے۔ پوری کشمیری قوم اس بات کی منتظر ہے کہ کب مظلوموں کی
دادرسی کی جائے گی اور سماج کے لئے ناسور بنے ان بدخصلت انسانوں کو کب اپنے
کرموں کی سزا ملے گی تاکہ قوم کی بیٹیاں ان ظالم پنجوں سے چھٹکارا پائیں جو
وقت وقت پر بنتِ کشمیر کی حیا کی چادر کو داغدار کرنے کی کوشش کرتے ہیں
۔ضرورت اس بات کی ہے کہ سانحہ شوپیان کا فیصلہ غیرجانبدارانہ اور منصفانہ
ہو تاکہ آسیہ اور نیلوفر کی بے قرار روحوں کو قرار مل سکے۔ کشمیری قوم کا
اس بات پر متزلزل بھروسہ ہے کہ تابندہ غنی کی طرح دیر سویر کنن پوشہ پورہ
اورسانحہ شوپیان کو انجام دینے والے ملزم رسوا ہو کر اپنے کیفرِ کردار تک
ضرور پہنچے گے کیونکہ مظلوموں کی آہیں اﷲ تعالیٰ کے ہاں رائیگاں نہیں جاتی
ہے کیونکہ انکے بیچ میں کوئی پردہ نہیں ہوتاہے ۔ |