میں حرام اور حلال کے تکلف میں نہیں پڑتا

ہم نے گدھ ختم کر دئیے۔ ایسے ہی خدائی گار تھے۔ گندگی ختم کرنے کے ٹھیکیدار، جہاں مردار نظر آیا نوچ نوچ کر مزے سے کھا جاتے تھے۔ میں خود چشم دید گواہ ہوں نوّے کی دہائی یا اُس سے پہلے کسی کا کوئی جانور مر جاتا تو وہ اسے کسی کھلی جگہ پھینک دیتا۔ چنانچہ جگہ جگہ مرے ہوئے جانور نظر آتے اور یہ کمبخت گدھ غول کے غول اس جانور کے گرد بیٹھے ضیافت اڑانے میں مصروف ہوتے تھے۔چند گھنٹوں میں ہڈیوں کے علاوہ وہاں کچھ نظر نہیں آتا تھا۔ نوّے کی دہائی تک تو ٹھیک کہ لوگوں نے مردار کی افادیت کو محسوس نہیں کیا تھا۔ مگر آج کے اس دور میں اگر یہ ہوتے تو ان کا وجودعام آدمی کے لئے فقط ایک ظلم تھا۔ا س لئے کتنا اچھا ہے کہ ہم نے ان سے چھٹکارا پا لیا ہے۔ وہ ایسے کہ دنیا بھر میں جانور کے علاج کے لئے جو درد دور کرنے والی دوائیں ممنوع تھیں ہم نے جانور پر ان کا بھرپور استعمال کیا۔ ایسی دوائیں کھانے کے دوران جو جانور مر جاتے ان کے کھانے کے نتیجے میں ان کے جسم میں موجود دواؤں کا اثر گدھوں پر بھی کمال ہوتا۔ وہ ایک دن گردن لٹکا کر گم سم بیٹھے رہتے اور دوسرے دن پوری طرح لٹک جاتے۔ دیکھتے ہی دیکھتے چند دنوں میں گدھ ختم ہو گئے۔

گدھ ختم ہونے پر ہم بہت خوش ہیں۔ آج کے دور میں گدھوں کے ہاتھوں انسانی استحصال یقینا ناقابل برداشت ہوتا۔ آج ہم نے گدھ سے بہترمردار کے استعمال کا ہنر سیکھ لیا ہے۔ پہلے مردار گدھ کھاتے تھے، اب ہم خود کھاتے ہیں۔ پہلے بھینس، گدھا اور دوسرے جانور مرے ہوئے نظر آجاتے تھے۔ اب کبھی کبھار کوئی کتا یا بلی مری ہوئی نظر آجائے تو آجائے، کسی قیمتی اور بہتر جانور کی لاش نظر نہیں آتی۔ حتیٰ کہ مری ہوئی مرغی بھی اب نایاب ہوتی جا رہی ہے۔ آپ کے پاس کوئی بھینس ہے، بیچناہے تو ایک لاکھ روپے زرِ نقد مل جائیں گے۔ بیمار ہے، فوری بیچنا پڑ رہا ہے، کوئی قصائی آپ کو پچاس یا ساٹھ ہزار آسانی سے دے دے گا اور اگر خدانخواستہ گائے بیچاری مر گئی تو بھی فکر کی کوئی بات نہیں، شہر میں بہت سے گاہک مردہ بھینس کو خریدنے کو تیار ہیں۔ بس قیمت فقط پچیس، تیس ہزار ملے گی۔ آپ کو یہی بتائے گا کہ کھال بک جائے گی، ہڈیاں بک جائیں گی، چربی بک جائے گی کہ آپ کے لئے چربی سے بنے گھی میں گرما گرم اور لذیذ سموسے تیار ہو سکیں بلکہ سچ یہی ہے کہ زیادہ تر سموسے اسی گھی میں تیار ہوتے ہیں۔مردہ گائے خریدنے والا اظہار یہی کرے گا کہ گوشت ضائع کر دیا جائے گا مگر کیوں!شہر بھر کے ہوٹلوں میں یہی گوشت سستے داموں مہیا کر دیا جائے گا۔ ہوٹل والوں کو اس سے کیا مطلب کہ یہ زندہ جانور کا ہے یا مردہ۔ بھینس کا ہے یا گدھے کا، وہاں تو معاف کیجئے کتا اور بلی بھی چل جائیں تو کھانے والے کیسے جان سکتے ہیں؟

وفاقی وزیر خزانہ جناب اسحٰق ڈار بڑے فخر سے کہتے ہیں کہ ان کے دور میں لوگوں کی قوت خرید بڑھ گئی ہے۔ ٹھیک کہتے ہیں، پہلے لوگ جیب میں دو سو روپے ڈال کر نکلتے تھے اور بمشکل ایک کلو مرغی کا گوشت لے کر گھر واپس آتے تھے۔ اب دو سو روپے لے کر نکلتے ہیں اور دکاندار کو کہتے ہیں ڈھیر سارا گوشت چاہئے اور بتا دیتے ہیں کہ بھائی دکاندار میں حرام اور حلال کے تکلف میں نہیں پڑتا تو دکاندار زیادہ پرانی نہیں اسی دن کچھ گھنٹے قبل مرنے والی مرغی کا گوشت فقط ساٹھ روپے فی کلو کے حساب سے آپ کو دے دے گا۔ خوشی خوشی گھر جائیں اور جناب اسحٰق ڈار کو دعائیں دیں کہ آپ کی قوت خرید بڑھا دی۔ دو سو روپے گھر سے لے کر چلے تھے، تین کلو گوشت بھی مل گیا اور بیس روپے کی بچت بھی ہو گئی۔شروع شروع میں یہ گوشت دس پندرہ روپے کلو ملتا تھا اب یہ کاروبارکافی چل نکلا ہے اس لئے ریٹ زیادہ ہو گیا ہے۔ ویسے بھی جب سے شہزادگان نے پولٹری کا بزنس شروع کیا ہے مرغی جیسی بھی اور جس حالت میں بھی ہو خوب بکتی ہے۔ مرغی کے کاروبار کو کوئی نہیں پوچھتا۔ذبح کی ہوئی بھینس تو تھوڑی سی بھی کمزور ہو تو اسے گدھا ثابت کر دیا جاتا ہے تا کہ لوگ گائے کے گوشت کو چھوڑ کر مرغی کے گوشت کی طرف مائل ہوں۔ لیکن مرغی شریف کی طرف کسی سرکاری اہلکار نے کبھی رُخ نہیں کیا اور نہ ہی اس کا کاروبار کرنے والوں کو کچھ کہنے کی جرأت کی ہے۔ حالانکہ اخبارات کی اطلاع کے مطابق پنجاب کے بہت سے شہروں میں مردہ مرغیوں کا کاروبار کھلے عام ہوتا ہے۔

میں نے ایک دن ایک غریب آدمی کو مری ہوئی مرغی کا گوشت خریدتے ہوئے رنگے ہاتھوں پکڑ لیا اور اسے اتنا کہا کہ شرم کرو۔یہ کیا کہ غربت کے سبب تم لوگوں نے مُردار کھانا شروع کیا ہے جو اسلامی، اخلاقی اور سماجی ہر لحاظ سے غلط ہے۔ وہ اُلٹا مجھ سے لڑنے مرنے کو تیار ہو گیا۔ کہنے لگے پناما برانڈ سیاستدانوں نے جو اتنا مال بنایا ہے وہ بھی مردار ہے۔ سرکاری اہلکار اور بیوروکریٹ جو رشوت کھاتے ہیں وہ بھی مردار ہے۔ صنعت کارجو بجلی چوری کرکے اور سرمایہ دار جو ٹیکس چوری کرکے مال اکٹھا کرتے ہیں وہ بھی مردار ہے۔ صحافی جولفافہ لیتے ہیں وہ بھی مردار ہے۔ پولیس والا جو لوگوں کی مجبوری سے فائدہ اٹھا کر مال بناتا ہے وہ بھی مردار ہے۔ ساری قوم مردار کھا رہی ہے وہ سب مردار تمہیں نظر نہیں آتا۔ مجھ غریب کی مری ہوئی مرغی تمہیں مردار نظر آرہی ہے۔ جاؤ پہلے خود گنگا نہا کر آؤ یا اگر ہمت ہے ان مردار خوروں سے نپٹو،پھر مجھ سے بات کرنا۔

یونیورسٹی سے آتے ہوئے میں ایک سڑک سے گزرتا ہوں۔ وہاں ایک دکان پر پچھلے دو سال سے ایک بورڈ لگا ہوا تھا، جمبو چرغہ 200 روپے اور وہ واقعی 200 روپے میں دیتا رہاہے۔اس وقت جب ذبح کی ہوئی سالم مرغی کار یٹ تین سو کے لگ بھگ تھا۔ چرغہ تمام وقت دو سو روپے ہی کا رہا۔ وہ دکان والا کیسے دو سو روپے میں بیچتا ہے اور اتنا سستا مرغ کہاں سے حاصل کرتا ہے؟یہ سوال آج تک حل طلب ہے۔ لیکن مرغیوں کے کاروبارچونکہ شہزادوں کی اَجارہ داری کی وجہ بہت محترم ہے اور اس لئے مرغی بھی مقدس ٹھہری ہے اسلئے کوئی شخص چاہے وہ کوئی بڑا سرکاری افسر ہی کیوں نہ ہو، مرغی یا مرغی بیچنے والے کی شان میں گستاخی کیسے کر سکتا ہے؟

سستی مرغی سے یاد آیا میں کبھی کبھار سمن آباد سے گزرتا ہوں تو وہاں بکرے کا گوشت فقط چار سو روپے فی کلو بیچنے والا دکاندار بھی مجھے نظر آتا ہے۔ایک دن میں نے خاص طور پر گاڑی روک کر اس دکان کا رُخ کیا۔ بڑے غور سے اس بکرے کو دیکھا، لگتا تھا کہ وہ بکرا یا کچھ بکرا نما ہی ہے اور اگر بکرا نہیں ہے تو پچھلے جنم میں ضرور بکرا رہا ہوگا۔ میں نے ڈرتے ڈرتے دکاندار سے پوچھ لیا کہ بھائی اگر واقعی یہ بکرا ہے تو اتنا سستا کیوں ہے؟ دکاندار نے گھور کر میری طرف دیکھا، پھر بولا، سو فیصدبکرا ہے، لینا ہے تو لو، فضول سوال مت کرو۔ یہ کہتے ہوئے اس نے اپنے ہاتھ میں چُھری اس انداز سے گھمائی کہ مجھے بھاگ جانے ہی میں خیریت نظر آئی۔
Tanvir Sadiq
About the Author: Tanvir Sadiq Read More Articles by Tanvir Sadiq: 582 Articles with 500586 views Teaching for the last 46 years, presently Associate Professor in Punjab University.. View More