رمضان ،قرآن اور ہم

چند ہی ساعتوں کے بعد انوار و برکات کی برسات لے کر ماہ رمضان آنے کو ہے۔یقینا اہل ایمان کے لئے خوشی و مسرت کا پیغام ہے۔کیونکہ التجائیں کرنے ، آسانیاں طلب کرنے ، اپنے اعمال پر غور و فکر کرنے ، اپنے نفس کو قابو کر کے دین اسلام کو پانچوں ارکان میں سے ایک پر عمل کرنے کی گھڑی آن پہنچی ہے۔
جی ہاں ۔ ۔ ۔ وہ مبارک لمحات آنے کو ہیں جن کے بارے میں رب کائنات اپنے بندوں سے فرماتے ہیں کہ ’’ اے ایمان والو!تم پر روزے فرض کئے گئے، جس طرح تم سے پہلی امتوں پر فرض کئے گئے تھے، تا کہ تمھارے اندر تقویٰ اور پرہیز گاری پیدا ہو۔ (البقرہ آیت۱۸۰)

چونکہ روزہ ایک ایسی ریاضت کا نام ہے جو انسان کی نفسانی خواہشات و دیگر تقاضوں کو دبانے کی عادت ڈالتا ہے۔پہلی امتوں کو بھی روزے کا حکم دیا گیا تھا۔جبکہ ان کے روزوں کے احکامات اور مدت میں خاص حالات و ضروریات کے لحاظ سے کچھ فرق بھی تھا ۔مگر امت محمدیﷺ کے لئے ایک سال میں صرف تیس دن کے روزے فرض کئے گئے ۔اور روزے کا وقت طلوع سحر سے لے کر غروب آفتاب تک رکھا گیا۔جو کہ مزاج انسانی کے لئے انتہائی معتدل اور مناسب وقت ہے۔اگر اس وقت میں کمی یا زیادتی کر کے دیکھا جائے تو بھی انسان وہ مقاصد حاصل نہیں کر سکتا جو طلوع سحر سے غروب آفتاب کے درمیان اپنے نفس کی تربیت اور ریاضت کرکے حاصل کر لیتا ہے۔یہی وجہ ہے کہ اہل ایمان اس مبارک ماہ میں اپنے رب کی خوشنودی کو حاصل کرنے کے لئے نبی اکرم ﷺ کے بتائے ہوئے طریقے پر چل کر سحر و افطار ،عبادت و ریاضت ، کا خصوصی اہتمام کرتے ہوئے سعادت و نیک بختی کے راستے پر چلتے ہیں۔

رسالت مآب ﷺ کا فرمان ہے کہ ’’ جب رمضان کی پہلی رات ہوتی ہے تو شیاطین اور سرکش جنّات جکڑ دیئے جاتے ہیں اور دوزخ کے سارے دروازے بند کر دیئے جاتے ہیں۔ان میں سے کوئی دروازہ بھی کھلا نہیں رہتا۔اور جنت کے تمام دروازے کھول دیئے جاتے ہیں، اس کا کوئی بھی دروازہ بند نہیں کیا جاتا ، اور اﷲ کا منادی پکارتا ہے کہ اے خیر اور نیکی کے طالب قدم بڑھا کے آگے آ، اور اے بدی اور بد کاری کے شائق رک، آگے نہ آ! اور اﷲ کی طرف سے بہت سے گنہگار بندوں کو دوزخ سے رہائی دی جاتی ہے۔اور یہ سب رمضان کی ہر رات میں ہوتا ہے۔(سنن ابن ماجہ)

حضرت سلمان فارسی ؓ فرماتے ہیں کہ ماہ شعبان کی آخری تاریخ کو رسول اﷲ ﷺ نے ایک خطبہ دیا ۔جس میں فرمایا’’اے لوگو ! تم پر عظمت اور برکت والا مہینہ سایہ فگن ہو رہا ہے۔اس مبارک مہینے کی ایک رات (شب قدر ) ہزار مہینوں سے بہتر ہے۔اس مہینے کے روزے اﷲ تعالی نے فرض کئے ہیں اور اسکی راتوں میں بارگاہ خداوندی میں (یعنی نماز تراویح پڑھنے )کو نفل عبادت مقرر کیا ہے۔جو شخص اس مہینے میں اﷲ کی رضا اور اس کا قرب حاصل کرنے کے لئے کوئی غیر فرض عبادت (یعنی سنت یا نفل )ادا کرے گا تو اس کو دوسرے زمانے کے فرضوں کے برابر اس کا ثواب ملے گا۔اور اس مہینے میں فرض ادا کرنے کا ثواب دوسرے زمانے کے ستر فرضوں کے برابر ملے گا۔یہ صبر کا مہینہ ہے اور صبر کا بدلہ جنت ہے۔یہ ہمدردی اور غمخواری کا مہینہ ہے، اور یہی وہ مہینہ ہے جس میں مومن بندوں کے رزق میں اضافہ کیا جاتا ہے۔جس نے اس مہینے میں کسی روزہ دار کو (اﷲ کی رضا اور ثواب حاصل کرنے کے لئے )افطار کرایا تو اس کے لئے گناہوں کی مغفرت او ر آتش دوزخ سے آزادی کا ذریعہ ہوگا، اور اس کو روزہ دار کے برابر ثواب دیا جائے گا۔بغیر اس کے کہ روزہ دار کے ثواب میں کوئی کمی کی جائے۔ صحابہ کرام رضوان اﷲ تعالی علیھم اجمعین نے عرض کیا کہ؛ اے اﷲ کے رسول! ہم میں سے ہر ایک کو تو افطار کروانے کا سامان میسر نہیں ہوتا(تو کیا غربا ء اس ثواب سے محروم رہیں گے۔؟) آپ ﷺ نے فرمایا کہ؛اﷲ تعالی یہ ثواب اس شخص کو بھی دے گا جو دودھ کی تھوڑی سی لسی پر یا صرف پانی کے ایک گھونٹ پر کسی روزہ دار کا روزہ افطار کروا دے ۔پھر فرمایا کہ جو کوئی کسی روزہ دار کو پورا کھانا کھلا دے اس کو اﷲ تعالی میرے حوض یعنی(حوض کوثر)سے ایسا سیراب کرے گا جس کے بعد اس کو کبھی پیاس ہی نہیں لگے گی یہاں تک کہ وہ جنت میں پہنچ جائے گا۔اسکے بعد فرمایا؛ اس ماہ مبارک کا ابتدائی حصہ رحمت ہے اور درمیانی حصہ مغفرت ہے اور آخری حصہ آتش جہنم سے آزادی ہے۔ پھر فرمایا: جو آدمی اس مہینے میں اپنے غلام و خادم کے کام میں تخفیف اور کمی کر دے گا اﷲ تعالی اس کی مغفرت فرما دے گااور اس کو دوزخ سے رہائی اور آزادی دے دیگا۔ (شعب الایمان )

ایک اور جگہ حضرت ابوہریرہ ؓروایت فرماتے ہیں کہ سرکار دو عالمؐنے ارشاد فرمایا :’’جو شخص ایمان کے ساتھ اور ثواب کی نیت سے رمضان کے روزے رکھے اور شب قدر میں ایمان کے ساتھ اور ثواب کی نیت سے عبادت کرے،تو اسکے پچھلے تمام گناہ معاف کردیئے جائیں گے۔‘‘ (ابن ماجہ)

رمضان کریم کو جہاں اور بہت سی خصوصیات نمایاں کر دیتی ہیں ان میں سے ایک قران کریم کا اس ماہ مبارک میں نازل ہونا بھی ہے۔یہی وجہ تھی کہ رسالتماب ﷺ اور ان کے صحابہ کرام رضوان اﷲ تعالی علیھم اجمعین عام ایام کی نسبت رمضان المبارک میں قرآن پاک کی خصوصی تلاوت کا اہتمام کیا کرتے تھے۔حضرت عبداﷲ ابن عمرؓ سے روایت ہے کہ رسول اﷲ ﷺ نے فرمایا! روزہ اور دونوں بندے کی سفارش کریں گے۔(یعنی اس بندے کی جو دن میں روزہ رکھے گا اور رات میں اپنے رب کے حضور کھڑا ہو کر قرآن کریم کی تلاوت کرے گا یا سنے گا)۔ روزہ عرض کرے گا ؛۔اے میرے پروردگار !میں نے اس بندے کو کھانے پینے اور نفس کی خواہش پورا کرنے سے روکے رکھا تھا ، آج اس کے حق میں میری سفارش قبول فرمایئے۔اور قرآن کہے گا کہ ؛۔ میں نے اس کو رات کو سونے اور آرام کرنے سے روکے رکھا تھا۔ پروردگار!آج اس کے حق میں میری سفارش قبول فرمایئے۔چنانچہ روزہ اور قرآن دونوں کی سفارش اس کے حق میں قبول فرمائی جائے گی۔( اور اس کے لئے جنت اور مغفرت کا فیصلہ فرما دیا جائے گا)۔ (شعب الایمان)

اﷲ تعالی نے قرآن کریم میں ایک خاص قسم کی تاثیر رکھی ہے جو دنیا کی اور کسی کتا ب میں نہیں ہے۔یہی وجہ ہے کہ قرآن کریم کو پڑھنے ہی نہیں بلکہ سننے والے پر بھی ایک خاص اثر پڑتا ہے۔شیخ القرآن حضر ت مولانا محمد ضیا ء القاسمیؒ جنھوں نے چالیس سال تک مسلسل رموز قرآنی میں غوطہ زن ہو کر اپنے سامعین میں توحید و سنت کے موتی بانٹے ، فرمایا کرتے تھے ایک بار میں نے جھوم جھوم کر قرآن کا سبق یاد کرتے ہوئے طالب علم کو دیکھا ، وہ دنیا سے بے خبر ہو کر اپنا سبق یاد کرنے میں مگن تھا،اور سبق بھی اسکی مادری زبان میں نہیں تھا ۔میں اس کے قریب گیا اور حیرت سے پوچھنے لگا کہ یہ تم جھوم کیوں رہے ہو۔؟ وہ کہنے لگا کہ! مجھے تو نہیں پتہ میں جھوم رہا ہوں ، میں تو صرف پڑھ رہا ہوں اور جسم خود بخود ہلتا جارہا ہے۔ اﷲ اکبر۔۔۔ یہ قرآن کا اعجاز ہے کہ ہر پڑھنے والے انسان کی روح میں داخل ہو کر اسے دنیا سے بے خبر کر کے اﷲ کے ساتھ جوڑ دیتا ہے۔جو سمجھتا ہے وہ بھی اس کلام میں ڈوبا چلا جاتا ہے اور جو نہیں سمجھتا وہ بھی پگھلتا چلا جاتا ہے۔

حضرت عبداﷲ بن مسعود ؒفرماتے ہیں کہ نبی مکرم ﷺ نے مجھ سے فرمایا ! مجھے قرآن سناؤ ، میں نے عرض کیا کہ آپ مجھ سے سننا چاہتے ہیں جبکہ قرآن پاک آپ پر نازل ہواہے۔آپ نے فرمایا ؛ہاں! جی یہی چاہتا ہے کہ قرآن کسی اور سے سنوں۔ حضرت عبداﷲ بن مسعود فرماتے ہیں میں نے سورۂ نساکی تلاوت شروع کر دی،جب اس آیت کریمہ پر پہنچا ۔ ’’فکیف اذا جئنا من کل امۃ شھید‘‘ (اس وقت کیا حال ہوگا جب کہ ہم ہرہرامت میں سے ایک ایک گواہ کو حاضر کریں گے)۔تو آپ ﷺ نے فرمایا ؛ اب بس کر دو! میں نے آپ کی طرف نظراٹھا کر دیکھا تو آپ کی مبارک آنکھوں میں آنسوبہہ رہے تھے۔(بخاری)

یہی حال رسول اﷲ ﷺ کے اصحاب کابھی تھا۔ایک رات حضرت عمر ؓ شہر کی دیکھ بھال کے لئے نکلے تو ایک مکان سے کسی مسلمان کے قرآن پڑھنے کی آواز سنائی دی۔وہ ’’سورۂ طور‘‘ پڑھ رہے تھے، آپ نے سواری روکی اور کھڑے ہو کر سننے لگے۔جب وہ اس آیت پر پہنچے ۔’’بے شک آپ کے رب کا عذاب واقع ہو کر ہی رہے گا، اس کو کوئی دفع کرنے والا نہیں‘‘تو حضرت عمرؓ کی زبان بے ساختہ یہ الفاظ نکلے’’رب کعبہ کی قسم سچ ہے‘‘۔ پھر آپ ؓ سواری سے اتر ے اور دیوار سے ٹیک لگا کر بیٹھ گئے یہاں تک کے چلنے پھرنے کی طاقت بھی نہ رہی۔حضرت حسن بصری ؒ فرماتے ہیں کہ امیر المومنین حضرت عمر ؓاس آیت کو سننے کے بعد ایسے بیمار ہوئے کہ کم وبیش ایک ماہ تک بستر علالت پر پڑے رہے۔

یہ تو وہ بزرگ ،مقدس و مطہرشخصیات تھیں جن سے اﷲ رب العزت راضی ہو نے کا اعلان خود قرآن میں کر چکے تھے مگر اس کے باوجود بھی ان کا یہ حال تھا۔لیکن سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ آج ہم مسلمانی کا دعوی کرنے کے بعد کس موڑ پر کھڑے ہیں۔کیا ہم نے اس طرح قرآن کریم میں غوطہ زن ہو کر اس کے رموز اسرار کو پانے کی کوشش کی۔؟ کیا ہماری نوجوان نسل شعور قرآنی کو حاصل کرنے کی خواہاں ہے بھی کہ نہیں؟کیا ہماری خواتین مسائل قرآنی کو سمجھنے کی سکت رکھتی بھی ہیں یا نہیں؟کیا ہم میں قرآن کو سمجھنے کی ویسی تڑپ ہے جس نے مولانا ابوالکلام آزادؒ کو بھی تڑپاتے ہوئے ترجمان القرآن کا انتساب لکھنے پر قلم نے مجبور کر دیا۔فرماتے ہیں کہ’’ غالباََ دسمبر ۱۹۱۸ء کا واقعہ ہے کہ میں رانچی میں نظر بند تھا۔ عشاء کی نما ز فارغ ہو کر مسجد سے نکلا تو مجھے محسوس ہوا کہ کوئی شخص پیچھے آرہا ہے۔ مڑ کر دیکھا تو ایک شخص کمبل اوڑھے کھڑا تھا۔
’’آپ مجھ سے کچھ کہنا چاہتے ہیں؟‘‘
’’ہاں جناب، بہت دور سے آیا ہوں‘‘
’’کہاں سے؟‘‘
’’سرحد پارسے‘‘
’’یہاں کب پہنچے؟‘‘
’’آج شام کو پہنچا، میں بہت غریب آدمی ہوں ، قندھار سے پیدل چل کر کوئٹہ پہنچا ، وہاں چند ہم وطن سودا گر مل گئے تھے۔
انہوں نے نوکر رکھ لیا اور آگرہ پہنچا دیا۔آگرہ سے یہاں تک پیدل چل کر آیا ہوں‘‘۔
’’افسوس۔ ۔ ۔! تم نے اتنی مصیبت کیوں برداشت کی؟‘‘
’’اس لئے کہ آپ سے قرآن مجید کے بعض مقامات سمجھ لوں ۔میں نے الہلال اور البلاغ کا ایک ایک حرف پڑھا ہے۔‘‘
یہ شخص چند دنوں تک ٹھہرا ، اور پھریکا یک واپس چلا گیا ۔وہ چلتے وقت اس لئے نہیں ملا کہ اسے اندیشہ تھا ، میں اسے واپسی کے مصارف کے لئے روپیہ دوں گا،اور وہ نہیں چاہتا تھا کہ اس کا بار مجھ پر ڈالے۔اس نے یقینا واپسی میں بھی مسافت کا بڑا حصہ پیدل طے کیا ہوگا۔

مجھے اس کا نام یاد نہیں ۔مجھے یہ بھی نہیں معلوم کہ وہ زندہ ہے یا نہیں۔لیکن اگر میرے حافظے نے کوتاہی نہ کی ہو تی ، تو میں یہ کتاب اس کے نام سے منسوب کرتا۔

آیئے ۔ ۔ ۔ آج اسی تڑپ کے ساتھ ا پنے قلوب کو جگایئے ، بیدار کیجئے ، اور اس ماہ رمضان کی آمد پر عہد کیجئے کہ نبی آخر الزماں ﷺ کے بتائے ہوئے طریقے پر چل کر ، ان کے یاروں کی سی تڑپ کو اپنے دلوں میں سلگا کر، قرآن کریم کو صرف پڑھنے ہی نہیں بلکہ حرف حرف میں ڈوب کر،آیات کو سمجھ کر اﷲ رب العزت کے دیئے گئے احکامات پر عمل کرنے کی کوشش کریں گے۔۔۔!
ختم شد۔
Umar Qasmi
About the Author: Umar Qasmi Read More Articles by Umar Qasmi: 16 Articles with 19540 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.