علیشاہ ، ہم کون ہیں؟

یہ واقعہ صرف پشاور میں رونما نہیں ہوا بلکہ آئے روز ملک کے کسی نہ کسی کونے میں اس طرح کے واقعات رونماہوتے ہیں لیکن ہم دھیان نہیں دیتے، سچ تو یہ ہے کہ ایسے واقعات ہمارے شی میل کے ساتھ صرف رونما نہیں ہوتے بلکہ عام اور غریب لوگوں کی زندگی اسی طرح ختم ہوتی ہے۔

پشاور میں علیشاہ کا قتل اور اس کے ساتھ ہسپتال میں پیش آنے والے واقعات ہماری زندگی کاحصہ بن چکے ہیں۔ میں سلام اورداد د یتا ہوں کہ پشاور میں مقیم علیشاہ کے دوستوں نے اس واقعے پر احتجاج کیا ، میڈیا نے ان کی آواز حکام بالا تک پہنچایا جس کی وجہ سے علیشاہ کو ہسپتال میں کچھ علاج کی سہولت ملی اور صوبائی حکومت نے اعلان کیا کہ ہم تمام ہسپتالوں میں ان کیلئے علاج و معالجے کی سہولت دیں گے اور ان کو باعزت روزگار دینے کا بھی بندوبست کیا جائے گا۔اگر حکومت کے ان وعدوں پر عمل درآمدہوجاتا ہے تو یقینی طور پر اس کا کریڈٹ علیشاہ کے دوستوں اور کے ساتھ ناانصافی پر آواز اٹھانے والوں کو بھی جاتا ہے جن کی وجہ سے صوبائی حکومت جاگ گئی جس طرح میں نے شروع میں لکھا کہ اس طرح کے واقعات ہمارے شی میل کے ساتھ صرف پیش نہیں آتے ان کی تو خوش قسمتی تھی کہ ان کی آواز اور احتجاج رنگ لایا ۔ ہمارے ملک کے تمام ہسپتالوں میں علاج ومعالجے کی سہولت نہ ہونے کے برابر ہے ۔ عام آدمی کے لئے مشکلات ہی مشکلات ہیں۔ مریض کے لواحقین کو سمجھ نہیں آتی کہ وہ کہاں جائے ۔ڈاکٹرز کی کمی اور وارڈز میں بیڈز کی کمی سمیت ٹیسٹ کرانے والی مشینوں کے فقدان سے بھی مسائل بڑھ جاتے ہیں۔ ہمارے شی میل دوست جو شکوہ کرتے ہیں کہ ہمارے ساتھ صرف یہ ناانصافی ہورہی ہے اس سے میں متفق نہیں ہوں یہ ہر انسان کے ساتھ ہوتا ہے جو ہسپتال جاتا ہے جس طرح علیشاہ کیساتھ ہوا ہے ۔ ہمارے شی میل دوستوں کے ساتھ دوسری نہ انصافیاں ضرور ہوتی ہیں جس کاذکر میں کروں گا لیکن اس سے پہلے میں صرف اسلام آباد کے سب سے بڑے ہسپتال پمزکا ذکر کروں گا کہ کچھ دن پہلے ایک دوست جن کی رشتہ دار کا ایکسڈنٹ رات کے وقت مظفرآباد میں ہو اتھا ان کو مظفر آباد ہسپتال لوگ لے گئے وہاں علاج اور آپر یشن کا بندوبست نہیں تھا تو ان کو وہاں سے ڈاکٹرز نے اسلام آباد کے پمز ہسپتال ریفر کیا ۔صبح آٹھ بجے وہ اسلام کے پمز ہسپتال پہنچے تو ڈاکٹرز نے کچھ انجکشن لگوا دیے اور بعد ازاں ان کو ویسے ہی چھوڑ دیا میں شام چھ بجے ان کے پاس گیا تو مریض وارڈز کی جگہ برآمدے میں لوہے کے سٹیچرپرپڑا تھا ان کے بھائی نے بتایا کہ ان کی دوجگہ پر ٹانگ ٹوٹی ہوئی ہے اور جسم کے باقی حصوں پرشدید زخم ہیں اور ہاتھ بھی ٹوٹ ہوا ہے۔میں یہ نہ دیکھ سکا توان کو کہا کہ میرے ساتھ آؤ ایم ایس یا ڈائریکٹر سے بات کرتے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ دوسرے بھائی پرائیویٹ ہسپتال دیکھنے گئے ہم نے مریض کو وہاں لے جانا ہے لیکن پھر بھی ڈاکٹر سے ملتے ہیں ۔ میں نے ڈائر یکٹر سے بات کی تو انہوں نے اپنی مجبوریاں بتائی کہ وارڈز میں جگہ نہیں ہے رش زیادہ اور ڈاکٹرز کم ہے جبکہ ان کا آپریشن آٹھ نو بجے رات کو ہوگا جب بڑے ڈاکٹرز آئیں گے اب تو ایمرجنسی میں صرف جونیئر ڈاکٹرز موجود ہے ۔ ان کا بڑا آپریشن ہے جو یہ ڈاکٹرز نہیں کرسکتے ۔ قصہ مختصر میں وہاں سے چلا گیا اور انہوں نے ہسپتال میں دس گیارہ گھنٹے گزار نے کے بعد اپنے مریض کو پر ائیویٹ ہسپتال شفٹ کیا۔ایسے واقعات اسلام آباد اور راولپنڈی سمیت ملک کے تمام ہسپتالوں میں روزانہ پیش آتے ہیں لیکن ہمارے حکمرانوں پر کچھ اثر نہیں پڑتا بلکہ مجھے تو پمز میں سینئر ڈاکٹر نے یہاں تک بتایا کہ بھائی ہمارے پاس جگہ نہیں ہوتی ہم تو آپریشن کے لئے مریض کو دو دوسال کا وقت دیتے ہیں ۔ اسلام آباد کے سب سے بڑے ہسپتال کے وارڈ میں بیڈ کیلئے آپ کو سفارش کروانی پڑتی ہے۔ تب جاکر آپ کو بیڈ ملتا ہے ۔ حقیقت تو یہ ہے کہ اسلام آباد اور راولپنڈی کے ہسپتال کو دیکھ کر مجھے پشاور کے ہسپتال اچھے لگنے لگے ہیں۔
 
ہمارا مسئلہ یہ ہے کہ پورے ملک کے ہسپتالوں کا برا حال ہے۔ ہمیں امید تھی کہ خیبر پختونخوا میں عمران خان کی حکومت آنے کے بعد ہسپتالوں کا نظام بہتر ہوجائے گا لیکن افسوس سے کہناپڑتا ہے کہ ہسپتالوں میں کچھ خاص تبدیلی نہیں لائی گئی ہے اب تک صرف باتیں اور اعلانات ہوتے رہے ہیں ۔بڑے ہسپتالوں میں رش کم کرنے کا بہتر ین طریقہ یہ ہے کہ ڈسٹرکٹ اور تحصیل سمیت گاؤ ں کے سطح پر چھوٹے ہسپتالوں میں علاج کی بہترین سسٹم بنائیں اورملک کے تمام سرکاری ہسپتالوں میں علاج دوا سمیت فری کریں ۔ تب ہمارے شی میل اور عام لوگوں کو فائدہ اور سہولت ہوگی۔

ہماری ملک کی بدقسمتی یہ ہے کہ یہاں پر کوئی نظام موجود نہیں ہے ہر کسی نے اپنی دوکان اور قانون بنایا ہے ۔ معاشرے کے دوسر ے طبقوں کی طرح یہاں پر خواجہ سرا کیلئے بھی کوئی بندوبست نہیں ہے۔ پورے ملک میں ان کی تعداد لاکھوں میں ہے لیکن خیبر پختونخوا میں ایک اندازے کے مطابق پچاس ہزار خواجہ سرا یا شی میل بستے ہیں جن میں اکثریت کو گھروں سے نکال دیا گیاہے یا خودگھروں سے بھاگے ہیں، جو بعد ازاں اپنے گروہ میں شامل ہوجاتے ہیں ۔ ہمارا ملک جو برائے نام اسلامی کہلاتا ہے ، پھر پختون معاشرہ جو اپنے ہر کام پر فخر کرتا ہے وہاں پر ان کی زندگی اجیرن ہے۔ان کا معاشرے میں ہر طرح کا مذاق اڑایا جاتا ہے ۔ان بے ضرور اور معصوم لوگوں کی معصومیت سے غلط فائدہ اٹھانا ہم اپنا حق سمجھتے ہیں۔ صوبائی حکومت ان کیلئے اور کچھ نہ کرے ان کو کم ازکم فری مکان اور رہا ئش مہیا کر ے جن میں یہ لوگ عزت سے زندگی بسر کر سکیں۔ حکومت کا فرض ہوتا ہے کہ وہ معاشرے کے ہر طبقے کی جان ومال کی حفاظت کرے اسی طرح شی میل کی جان ومال کی حفاظت کرنا بھی حکو مت کاکام ہے۔دوسرا یہ لوگ خود بھی اپنی لڑائیاں چھوڑ دیں آپس میں اتحاد و اتفاق کا مظاہرہ کریں جس طرح ابھی سب نے مشتر ک علیشاہ کیلئے آواز بلند کی، اسی طرح ہرمسئلے پر متحد رہیں۔ اگر حکومت اپنے وعدے بھول جاتی ہے تو احتجاج کے ذریعے حکومت کو وعدے یاد دلائے۔ علیشاہ کے قاتل کی گرفتاری بڑی کامیابی ہے پولیس کو خراج تحسین پیش کیاجانا چاہیے لیکن اس کے بعد ہر قسم کا پریشر شی میل اور ان کے ایسوسی ایشن پر آئے گا ۔ حکومت کی ذمہ داری ہے کہ وہ اس کیس میں خود مدعی بن جائے اور گرفتار شخص کو پھانسی کے بندھن تک پہنچایا جائے تاکہ معاشرے کیلئے یہ سبق بنے۔ جب تک ظالموں کوسزا نہیں ملتی غریب اور امیر کے لئے الگ الگ قانون کا خاتمہ نہیں ہوتا اس وقت تک صرف شی میل کے منہ سے یہ نہیں نکلے گا کہ ہم کون ہیں؟ یہ ہر اس بے بس اور لاچار کی آواز ہے جس کے ساتھ ظلم وزیادتی سے ہم باز نہیں آتے لیکن اﷲ کا قانون اور لاٹھی بے آواز ہوتی ہے، ایک دن آئے گا کہ ان سب غریب اور مظلوم لوگوں کو حساب دینا ہوگا ۔ ان کی آہ وبقا سے بچو اور ان کو انصاف دو۔ان کو معاشرے کاحصہ سمجھو۔
 
Haq Nawaz Jillani
About the Author: Haq Nawaz Jillani Read More Articles by Haq Nawaz Jillani: 268 Articles with 226178 views I am a Journalist, writer, broadcaster,alsoWrite a book.
Kia Pakistan dot Jia ka . Great game k pase parda haqeaq. Available all major book shop.
.. View More