دشمنیوں میں مصالحت۔۔کار نبوی ﷺ
(Amir jan haqqani, Gilgit)
دشمنیوں میں مصالحت کروانا اور انسانوں کی
جانیں بچانا کار نبوت ہے۔ قرآن کریم کے اندر آپس کی تنازعات کو ختم کرنے
اور کروانے کا ذکر صریح ہے۔ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم، اہل بیت عظام
اور صحابہ رضوان اللہ علیہم اجمعین کی پوری زندگی ہمارے لیے اسوہ حسنہ ہے۔
ان کی زندگیوں کا مطالعہ ہمارے لیے آپس کی تنازعات ختم کرکے شیروشکر ہونا
سبق دیتی ہیں۔ قرآن کریم میں واضح ارشاد ہے کہ '' انما المومنون اخوة
،فاصلحوا بین اخویکم، واتقواللہ لعکم ترحمون'' اس آیت کریمہ کی ذیل میں
مفسرین نے تفصیلی گفتگوئیں کی ہیں۔ خلاصہ یہ ہے کہ اگر دو معاشرتی، اسلامی
اور لسانی و مذہبی بھائیوں کے درمیان کوئی جھگڑا ہو،اور وہ مرنے مارنے پر
اترآئیں تو ان کے درمیان صلح کروایا جائے۔ اصلاح کی کوشش بہر حال مسلسل
جاری رکھنی چاہیے۔شرعی حدود کے موافق کے موافق اس معاملے کو طے کردو، صرف
لڑائی اور جھگڑا بند کروانے پر اکتفا نہ کیا جائے بلکہ اس سے بھی آگے بڑھ
کران دونوں گرہووں کے درمیان عدل و انصاف کو برقرار رکھتے ہوئے معاملے کو
صاف کیا جائے تاکہ لڑائی جھگڑے کا احتمال ہی باقی نہ رہے اور اس کوشش میں
کسی بھی قسم کی کوئی نفسیانی غرض کو دُر آنے نہ دیا جائے،اس اصلاح کی
کوششوں کے دروان خدا اور اس کے رسول کے احکامات کو مدنظر رکھتے ہوئے انصاف
کے تقاضوں کو پورا کیا جائے۔ تاکہ انسانی، معاشرتی اور اسلامی برادری میں
امن و امان براقرار ہو، بے شک اللہ تعالیٰ انصاف کرنے والوں کو پسند کرتا
ہے اور ان پر رحم کرتا ہے۔اگر ہم سیرت رسول ﷺ پر غور کرتے ہیں تو ایسے
سینکڑوں واقعات ہمارے سامنے ہوتی ہیں ۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی کوششوں سے
صدیوں سے لڑنے مرنے والے قبائل شیر وشکر ہوئے ہیں۔ آج نبی ۖ کا کام اسی کے
امتیوں نے کرنا ہے اسی کار نبوت کو سامنے رکھتے ہوئے خاندانی، لسانی،
قبائلی، مذہبی اور سیاسی اور مفاداتی طور پر وجود میں آنے والی دشمنیوں میں
مصالحت کروانے کا کام شروع کیا جانا چاہیے۔گزشتہ دنوں داریل سے تعلق رکھنے
والے ایک انتہائی دردمندانسان برادرم ثمرخان ثمر نے ایک دل ہلادینے والی
پوسٹ قارئین کے نذر کی۔ اس کو غور سے پڑھنے کے بعد آنکھیں پرنم ہوئی۔ انہوں
نے صرف داریل کے حوالے سے گفتگو کی ہے میرا دل چاہتا ہے کہ اس گفتگو کو
پورے جی بی کے حوالے سے مختصرا عرض کروں۔ثمر خان ثمر لکھتے ہیں۔
'' یہ دشمنیاں''
"بھائی، آپ کیا جانو، میں کس کرب سے گزر رہا ہوں؟ ہم جیسے لوگ روز جیتے ہیں
اور روز مرتے ہیں۔ڈر، خوف، اضطراب اور اندیشوں کے سائے تلے زندگی کٹ رہی ہے
۔کبھی کبھی اپنے سائے سے بھی خوف آنے لگتا ھے...شب کی تاریکی میں چوروں کی
طرح گھر سے نکلنا اور چوروں کی طرح گھر میں گھس جانا......میری کل کائنات
بس یہ چاردیواری ہے......وہ جو ٹاور دیکھ رہے ہو، درحقیقت وہ "ڈربا" ہے اور
میں مانند "مرغی" اس میں پڑا رہتا ہوں...... آپ آزاد فضاوں میں سانس لینے
والا شخص اس قیدی کا حال کیا جانو گے؟......یہ بھی کوئی زندگی ہے.....؟ کب
کہاں کس موڑ پر نامعلوم گولی مجھے چاٹ جائے، معلوم نہیں.........."
خاندانی دشمنی کی آگ میں جل رہے اک نوجوان کے الفاظ تھے جو آج سے سات آٹھ
سال پہلے مجھ سے کہے تھے.....اور پھر ایسا ہی ہوا کہ نامعلوم گولی اس
نوجوان کو چاٹ گئی......
کہتے ہیں نا کہ: لمحوں کی غلطیوں کا خمیازہ انسان صدیوں بھگت لیتا ہے ان
دشمنیوں کا سبب جاننے کی کوشش کی جائے تو 90% کا تعلق "لمحاتی غلطی" ہی
نکلتا ہے اور پھر یہ غلطی آگے چل کر کیسے خاندان کے خاندان تباہ کر دیتی ہے
اس کا علم ہم سب رکھتے ہیں.....کء یسہاگنوں کے سہاگ اجڑتے، ماں کو جواں سال
بیٹوں کی میتوں پر ماتم کرتے، باپ اور بھائیوں کو چپکے چپکے لاش پر آنسو
بہاتے اور بچوں کو باپ کی لاش پر آہ و زاریاں کرتے دیکھ چکا ہوں......
خون قرض ہوتا ہے اور خون دے کر ہی چکانا پڑتا ہے......میری وادی میں
خاندانی دشمنیوں کا رواج اب کسی حد تک کم ہوا ہے....لوگ آزاد اور خوشحال
زندگی جینا چاہتے ہیںہے ۔بچوں کے ہاتھ میں قلم اور کتاب تھمانا چاہتے
ہیں........بہتر سے بہتر مستقبل دینا چاہتے ہیں....... جو خاندان اس آگ میں
جل رہے ہیں، ان کی خواہش ہے کہ باہر نکلا جائے.......مگر سب سے بڑا سوال یہ
کہ انہیں اس دلدل سے کون کیسے نکالے؟؟؟جرگہ...... ہاں جی اک مخلص،
غیرجانبدار جرگہ یہ آگ بجھا سکتا ہے۔ لوگوں کو دلدل سے نکال سکتا ہے...اگر
ضلع دیامیر کے علمائے کرام، عمائدین اور باشعور لوگ مل بیٹھ کر طے کرلیں تو
میں شرطیہ کہہ سکتا ہوں کہ نصف سال کے اندر اندر پورا ضلع خاندانی دشمنیوں
سے پاک ہوجائے گا...حکومت کو ایسے جرگوں کا اہتمام کرکے علاقے سے بدامنی کا
خاتمہ کرکے امن کا گہوارہ بنا دینا چاہیے............کاش کہ اس طوطی کی
آواز نقارخانے سے باہر نکل کر کسی کے کان میں جا پڑتی.......اے کاش...!!''
ثمرخان کی آواز ارباب اقتدار، حساس اداروں اور صاحبان دل و دماغ اور باسیان
گلگت بلتستان تک پہنچانے کے لیے یہ سطور رقم کررہا ہوں۔ صرف داریل نہیں
پوار گلگت بلتستان اس آگ میں جل رہا ہے۔ کتنی مائیں اپنے لاڈلوں کا ماتم
کرچکی ہے۔ یہ راز اب راز نہیں کہ ہمارے پیارے گلگت بلتستان میں ہرطرح انہیں
خاندانی، علاقائی، مذہبی، سیاسی اور لسانی دشمنیوں نے ''راج'' کررکھا
ہے۔ہزاروں نامعلوم گولیوں نے ہزاروں انسانوں کو خاک و خون میں تڑپایا ہے۔
دو ہزار پانچ سے لیکر دو ہزار تیرہ تک کتنے لوگ انہی گولیوں کا نشانہ بن
چکے ہیں جن کا کوئی ریکارڈ موجود نہیں۔ بس اچانک کسی سمت سے کوئی گولی
آجاتی ہے اور پھر انسان خون اور مٹی میں تڑپ رہا ہوتا ہے۔
ایک ایسے جرگے کی تشکیل جس کے مقاصد صرف اور صرف انسانوں کی جان پچانا ہوا۔
سیاسی اور مذہبی مفادات کا حصول کی بجائے انسانیت کی قدرو منزلت پہچان کر
انسان کو انسان کی گولی سے بچانے کے لیے رضا الہی کی خاطر سامنے آنا
چاہیے۔اس جرگے کا ون پوائنٹ ایجنڈا ہوکہ خاندانی، لسانی، مذہبی، سیاسی اور
علاقائی دشمنیوں کو ختم کرائیں۔ میرے علم میں ایسی درجنوں کوششیں ہیں جن کا
بہترین نتیجہ نکلا ہے۔گزشتہ دنوں ہربن اور تھور کے درمیان ایک بہت بڑا
تنازعہ عمائدین اور علماء کی جرگہ نے ختم کرادی اور جرگے سخت ترین دشمنوں
کو گلے لگوایا۔ گلگت شہر میں کئی ایسی مصالحتیں ہوچکی ہیں جو خالص مذہبی
بنیادوں دشمنیاں چل رہی تھی۔ جن پر کیس دائر کیا گیا تھا وہ مجرم ہی نہیں
تھے مگر بے گناہ لوگ جیلوں میں سڑ رہے تھے۔ جرگوں نے مصالحت کرکے انہیں
جیلوں سے بھی نکالا اور آزاد زندگی گزارنے کا موقع بھی دیا۔ بلاشبہ اس میں
مذہبی قائدین نے بھی مرکزی کردارادا کیا۔آج بھی اگر کوئی جرگہ صرف اس مقصد
کے لیے سامنے آتا ہے تو لوگ جوق درجوق ان کے شانہ بشانہ چلنے کے لیے تیار
ہونگے۔ بخدا ! آج کے اس مصروف ترین دور میں کوئی بھی دشمنیوں میں الجھنا
نہیں چاہتا۔ اگر ان دشمنیوں کا خاتمہ ہوا تو سینکڑوں بے گناہ لوگ جیلوں سے
باہر نکل جائیں گے اور ہزاروں گھروں میں چین اور سکھ کی زندگی شروع ہوجائے
گی اور لوگ اپنا کاروبار حیات پرسکون طریقے سے گزارنا شروع کریں گے۔ کوئی
ہے جو اس کار نبوت ﷺ کو آگے بڑھانے کے لیے میدان میں آجائے؟ اللہ ہم سب کا
حامی و ناصر ہو۔ |
|