بڈھی گھوڑی لال لگام " سلیم اللہ نے دانت
چباتےھوۓ اورآنکھوں سے شعلےنکا لتے زیر لب کہا تو ثمرین نے چونک کر فائلوں
سے سر اٹھایا د ائیں بائیں دیکھا اور کسی بھی "بڈھی " یا لال لگام کو نہ پا
کر سلیم اللہ کو استفساری نظروں سے دیکھا سلیم اللہ کچھ نہ بولا مگر اسکا
چہرہ بتا رہا تھا کہ کافی غصہ میں ہے " کس کو کہہ رہے ہو "؟ ثمرین نے پوچھ
ہی لیا ... اسکو ، سلیم نے اشارے سے روبینہ کی طرف دیکھا تو ثمرین نے کچھ
نہ سمجھتے ھوۓ دوبارہ کہا بتاؤ نا کس پر اتنی تاپ کھا رہے ہو ؟
بتا تو رہا ہوں "لڑکی " بنی پھرتی تھی
کیا ؟ روبینہ لڑکی نہیں ؟ اف خدا یا میں تو عید ملن پارٹی میں اس سے گلے مل
بیٹھی ہوں ... ثمرین مذاق کے موڈ میں تھی وہ جانتی تھی کہ سلیم اللہ ہر وقت
ہی روبینہ کے گرد منڈلاتا رہتا ہے اور ہوسکتا ہے آج بھی روز کی طرح روبی سے
لفٹ نہ پاکر کچھ ناراض ہو مگر یہ معاملہ تو اکثر ہوتا ہے اور سلیم اللہ
کبھی اتنا ناراض نہیں ہوا
ثمرین کے مذاق کو نظر انداز کرتے ھوۓ سلیم نے سامنے والی کرسی سنبھالی اور
نفرت سے شیشے کے کیبن میں بیٹھی روبینہ کو تاڑتے ھوۓ ثمرین کو سر گوشی میں
کہنے لگا تمہیں پتہ ہے اسکے تین بچے ہیں اور یہ شادی شدہ ہے ؟
اچھا ؟ لگتی تو نہیں !
.بس یہی نا " سلیم اللہ پھنکار ا " بیوقوف بنا رہی تھی دو مہینے سے
تمہیں یہ بات کس نے بتائی سلیم ؟ ہوسکتا ہے جھوٹ ہو ثمرین بولی
نہیں نہیں جھوٹ نہیں ہے اس نے خود بتائی مجھے
اچھا پھر تو سچ ہوگی ویسے کافی خوبصورت ہے ابھی تک
ثمرین نے تعریفی نظروں سے روبی کو دیکھا
مجھے تو اچھے کردار کی نہیں لگتی " سلیم اللہ اپنی شرمندگی پر پیچ و تاب
کھا تے ہوۓ اپنی یکطرفہ محبت کا ملبہ روبینہ کے کردار پر ڈال دیا
پچھلے دو ماہ سے وہ نئی مارکیٹنگ آفیسرروبینہ سے پینگیں بڑھانے کی کوشش کر
رہا تھا ایک دو بار ہیومن ریسورس سے روبینہ کے بارے میں معلومات اکھٹی کرنے
کی کوششیں بھی کر چکا تھا مگر کچھ خاص پتہ نہ کر وا سکا
آج روبینہ کے " گھاس نہ ڈالنے " کا راز روبینہ ھی کی زبانی پتہ چلا تو
اپنےغلط اندازوں پر پچھتانے کی بجاۓ اسکو روبینہ پر طیش آرہا تھا کہ دو
مہینہ تک آفس والوں کے سامنے جو وہ خوش فہمیوں کو "محبت " کے افسانوں کی
صورت میں یک طرفہ پیش کرتا رہا اب کیا ہوگا ؟
دوستو ! یہ واقعہ ہمارے معا شرے کی ایک ایسی حقیقی تصویر کشی ہے جس سے آپ
میں سے کوئی بھی انکار نہیں کر سکتا شاید آپکے ساتھ بھی کبھی ایسا ہوا ہو
یا پھر آپکے کسی دوست یا جا ننے والے کے ساتھ اورانکو آپ نے اسی طرح کسی
خاتون یا مرد پر اپنا غصہ اتارتے سنا اور دیکھا ہو ایسے لوگ اکثر دوسروں پر
"دھوکہ دہی ، بے وفائی ،ڈرامہ باز ی " کرنے کا الزام لگاتے ہیں میں اور آپ
یہ سب باتیں سن کر یا تو انکی ہاں میں ہاں ملاتے ہیں یعنی جانبداری کرتے
ہیں یا پھر خاموشی سے اپنے کام سے کا م رکھنے والا سین چلا دیتے ہیں مگر
کبھی ہم نے اتنی ہمت کی کہ تمام واقعات کی کڑیاں جوڑ کر اپنے عزیز ،
رشتےدار یا دوست کو یہ بتا سکیں کہ جو کچھ آپکو محسوس ہوا وہ حقیقت سے
زیادہ آپکے اندازے تھے آپ نے حقیقتوں کی بنیاد اندازوں پر رکھی اور اب اس
یک طرفہ خواب کے ٹوٹنے اور بکھر جانے کا قصور وار آپ نہ جانے کس کو ٹہر ا
رہے ہیں
آگے چلیں تو اس دوہرے چہرے والے معاشرے میں نیوز میڈیا کا کردار بھی انہی
اندازوں پر قائم نظر آتا ہے .افسوسناک پہلو یہ ہے کہ خبروں کا جاننے اور
معلومات حاصل کرنے کا حق ایک مہذب معاشرے میں بنیادی حق سمجھا جاتا ہے مگر
مسلہ یہ ہے کہ ہم پہلے" مہذب " تو ہوجائیں پھر بنیادی حقوق کی بات بھی کریں
گےمگر یہاں تو یہ عا لم ہے کہ "ہرخبر پر نظر " اور " سچ اور جھوٹ کا فرق
جان کر جیو " جیسے نعرے دینے ولے میڈیا ہاوسز "سلاٹر ہاوسز " سے کم نہیں
جہاں سچی خبروں کے گلے پر چھری پھیر کر اپنی من پسند بوٹیاں بنائی جاتی ہیں
اکثر صحافت کے نام سے شہرت پانے والے اینکرز رائی کا پہا ڑ یا پھر پہا ڑ کی
رائی بنانے میں آپنا ثانی نہیں رکھتے انکی پہلی کوشش یہ ہوتی ہے کہ نہ رائی
رائی دیکھائی اور سنائی دے اور نہ پہآ ڑ ہم تک اپنی اصل حالت میں پہنچے
اپنے اندازوں کو " خبر " کی شکل میں ہمارے لاونج اور بیڈ رومز تک پہنچا کر
نہ صرف گھروں میں جھوٹی بے آرامی پھیلاتے ہیں بلکہ بیرون ملک رہنے والے
پاکستانیوں پر بھی بد ترین اثرات مرتب کرتے ہیں !وہ ایسا کیوں کرتے ہیں ؟
اس کے لیے کوئی راکٹ سائنس جاننا ضروری نہیں ہر "نوکرپیشہ " وہی کرتا ہے
جسکی وہ تنخواہ لیتا ہے
کسی صدر یا کسی وزیر اعظم کے بارے میں اپنے اندازوں کے گھوڑے دوڑاتے ہیں
اور "بریکنگ نیوز " کے نام پر ملکی ساکھ اور قومی اعتبار کو یہ کہہ کر
"بریک " کر دیتے ہیں کہ اب اس صدر یا وزیر اعظم کی واپسی ناممکن ہے ، انکے
دو نمبر اندازوں کے مطابق صدر کو "فالج "ہوگیا ہے وہ بول نہیں سکتے ،اس بات
پر گھنٹوں ٹاک شوز ہوتے رہے کہ " اگر " صدر پاگل یا دیوانہ ہوگیا ہے تو
آئین اس سلسلے میں کیا کہتا ہے،تقریبا ہر تین ماہ بعد "اندازہ " لگایا جاتا
ہے کہ طاقتور اشرفیہ جو پچھلے 69 برسوں سے مزید طاقت حاصل کرنے کی ہوس میں
پاکستان کو الٹے پاؤں چلانے پر مصر رہی ایک بار پھر منتخب جمہوری ایوانوں
کو ٹانگ پھنسا کر گرانے کے منصوبے بنا رہی ہے !اب منصوبہ بنا نہ بنا مگر
چار پیسے کمانے والوں نے ملک کا اعتماد بین الاقوامی فورمز پر ٹکے کا نہیں
رہنے دیا
اب ایک نئی دنیا کی طرف چلیں جو یقینن حقیقی دنیا اور تصوراتی دنیا کا
انوکھا ملاپ ہے یعنی سوشل میڈیا کی دنیا
مگر جسطرح پاکستانی نیوز میڈیا نے خبروں اور تجزیوں کو اندازوں کے اندھے
کوئیں میں دھکا دے دیا ہے اسی طرح یہ معاشرتی رویہ ہمیں سوشل میڈیا استعمال
کرنے والے سوشل اینیملز میں سے بھی جھانکتا نظر آتا ہے
کسی بھی سوشل میڈیا سائیٹ پر جائیں ہمارے معاشرے کا یہ عکس نمایاں ہے کہ
اپنے اندازوں کے تحت ھی افراد کی جنس ، عمر، قابلیت ، مذہبی اورسیاسی
وابستگیوں کا تصور باندھتےہیں
سیاسی امورپردسترس کا مطلب یہ نکالا جاتا ہےکہ آپ یقینن ایک مرد ہیں
اورخاتون کے نام سےاکاونٹ چلا رہے ہیں ،آپ" یا علی مدد" کا سٹیٹس بنائیں تو
یقینن اہل تشیع ہیں احمدیہ جما عت کےسربراہ کےمتعلق ٹویٹ دینےپرآپ احمدی
قرارپائیں گے،آپ اداس شاعری کریں تو یقینی "اندازہ " ہے کہ آپ محبت میں
ٹھکرائے گیے ناکام عاشق ہیں اورطربیہ فلمی گانے ٹویٹ کریں تو آپکو "زبردستی
" نوجوان تصور کیا جاتا ہے ، بلوچوں کی جبری گمشدگی آپکو "ملک دشمن اور را
کا ایجنٹ " بنا دیتی ہے اور پنجاب کو اعداد ؤ شمار کے ذریعے استحصالی صوبہ
کہنے پر ہر کسی کا اندازہ یہی ہوتا ہے کہ آپ کچھ بھی ہیں مگر ایک پنجابی
نہیں ہوسکتے اب آپ لاکھ یقین دلا دیں کہ ایک پنجابی بھی پنجابی اشرافیہ کے
استحصالی کردارپرروشنی ڈال سکتا ہے مگر اپنے غلط اندازے کو صحیح ثابت کرنے
کے لیے کبھی ہیکنگ ، کبھی سٹاکنگ اور کبھی ٹرولنگ کے"ورچول ٹولز" استعمال
کیۓجاتےہیں
سواگر یہ اندازےہم اپنے تک ھی رکھیں تو یہ مسلہ پیدا ھی نہ ہولیکن ہم
تواپنے اندازوں کو خود ھی حقیقت کا رنگ دے کر بضد ہوتے ہیں کہ جو"اندازہ "
ہم نےلگایا تھا وہ ھی درست ہےاورجو بھی اس کو غلط اندازہ کہہ کرجھٹلا رہا
ہے وہ " جھوٹ " بول رہا ہے، سازش کررہا ہے یا دھوکہ دےرہا ہے
درحقیقت یہ وہ وبا ہے جو ڈنڈے کےذریعہ اس معاشرے میں پھیلائی گئی ہےیعنی
"جو ہم نے کہہ دیا وہی صحیح ہے" اور پھراسکو صحیح ثابت کرنے کے لیے خوف اور
لالچ جیسے گھٹیا ھتیاروں کا استعمال کیا گیا
آج اس یتیم ملک میں یا تو قتل ؤ غارت کے ذریعے یہ ثابت کیا جاتا ہے کہ فلاں
فلاں غدار اور کافر تھا لحاظہ اسکا ماوراۓ عدالت قتل "جایز" ہے یا "مالی
کرپشن " کے الزا مات کے ذریعے اپنے اندازوں کو درست ثابت کروایا جاتا ہے کہ
فلاں فلاں سیاسی پارٹی اور اسکی قیادت مالی ہیر پھیر یا ملکی مفادات کوپس
پشت ڈالنے کی سزا وار ہے
سچے دانشورتویوں بھی ہمارے معاشرے سے مفقود ہوتے جارہے ہیں مگرجوانگلیوں
پرگنےچنے کچھ کھرے تجزیہ نگار حیات ہیں وہ بھی اس بارے میں بات کرتے ہچکچا
تے ہیں کہ ریاست کے اندر جن لوگوں نے ریاست قائم کی انہوں نے اپنے "اندازوں
" کو درست ثابت کرنے کے لیے اس ملک میں مالی اور اخلاقی کرپشن کی بنیاد
رکھی اور آج بدقسمتی سے سارا معاشرہ بشمول نیوز میڈیا اور سوشل میڈیا ان
اندازوں کی سیڑھیوں پر اندھا دھند چڑھتا اور پھر اگلی ھی باری میں حقیقتوں
کے سانپوں سے ڈسا جاتا ہے مگر مجال ہے ہم میں سے کوئی اپنی غلطی مان کر
اندازے لگانا ترک کر دے اورمفروضوں کی بجاۓ حقیقت ، تاریخی سچائی ، دلیل ،
منطق اور اعداد وشمار سے اپنی بحث کا آغاز کرے اور خوشدلی سے حقایق کو
تسلیم کرے
کس قدر افسوسناک امر ہے کہ آج پاکستان نامی ملک کو آزادی کے٦٨ سال بعد بھی
صرف ہمارے غلط اندازوں اور ان پر بے جا اصرار کی وجہ سےاس سانپ سیڑھی
کےکھیل سےنجات نہیں مل پا رہی . ہم ایک قدم آگے تو دس قدم پیچھےکا سفر کر
رہےہیں اورجس حیرت انگیز
ڈھیٹا ئی سے ہم من حیث القوم ملکی ،سیاسی،مذہبی،معاشرتی اور معاشی "ہوائی
موقف اور اندھے اندازوں " پر قائم ہیں وہ تاریخ میں کم ہی قوموں کو نصیب
ہوئی |