احسان کا احسان

 پاکستان اس وقت جس طرح اندرونی اور بیرونی محاذوں پر لڑ رہا ہے یقیناً یہ دور پاکستان کی تاریخ میں ایک مشکل ادوار کے باب میں رقم ہوگا۔ حالات بہت مایوس کن تھے، لیکن اب بہتری آتی صاف دکھائی دے رہی ہے۔ اس بات کو عمومی طور پر پاکستان کے عوام بھی سمجھتے ہیں، لیکن جہاں بات کی جائے نوجوان طبقے کی تو نوجوان اپنے مستقبل کے حوالے سے کافی پریشان اور ناامید نظر آتے ہیں۔ یہی وجہ ہے ایک محتاط اندازے کے مطابق گذشتہ سالوں کے دوران پاکستان سے ذہین اور بہ صلاحیت نوجوانوں کے برین ڈرین کا تناسب 67 فی صد رہا ہے۔ کہیں امن و امان کی صورت حال کی حوالے سے بے چینی ہے تو کہیں معاشی کش مکش نوجوانوں کے خوابوں کو ان سے چھین لیتی ہے۔ اس کے باوجود امید باقی ہے۔ پاکستان کے نوجوان پُرعزم ہیں اور اپنے ملک کے لیے ہر سطح پر کام کرنے کا عزم رکھتے ہیں۔ پاکستانی نوجوانوں نے دنیا بھر میں اپنی صلاحیتوں کا لوہا منوایا اور اپنے وطن کا نام روشن کیا ہے۔

ہمارے نوجوانوں کے عزم وہمت کی حالیہ مثال بحرین میں ہونے والا فلم فیسٹول ہے۔ ’’ناصر بن حماد انٹرنیشنل یوتھ کریٹیوٹی ایوارڈ‘‘ کے عنوان سے منعقد ہونے والے اس فلم فیسٹول میں 113ملکوں کے نوجوانوں نے اپنی اپنی دستاویزی فلم نمائش کے لیے پیش کی۔ ان ایک سو تیرہ ملکوں میں سے 5773 فلمیں موصول ہوئیں، جن کے درمیان مقابلہ تھا۔ ملکوں اور فلموں کی تعداد سے صاف ظاہر ہے کہ یہ مقابلہ انتہائی سخت تھا۔ یہ ہمارے لیے فخر اور خوشی کا مقام ہے کہ اس عالمی مقابلے میں پہلے انعام کی حق دار بنی پاکستانی ڈوکیومینٹری فلم ’جاور۔‘‘ مزید حیرت اور مسرت کی بات یہ ہے کہ یہ فلم بلوچی زبان میں بنائی گئی ہے۔ ہمارے ملک کے لیے یہ انتہائی فخر کا باعث ہے کہ 5773 دستاویزی فلموں اور ایک سو تیرہ ملکوں کے درمیان ہونے والے مقابلے کا فاتح بنا ہمارا پاکستان۔

اس فلم کی کہانی بہت خوب صورت اور چونکادینے والی ہے۔ ’’جاور‘‘ کی کہانی ایک بوڑھے معذور باپ اور اس کے بیٹے کے گرد گھومتی ہے، جو خراب حالات میں زندگی کی جنگ لڑرہے ہیں۔ اس لڑکے کا باپ لیاری میں ہونے والے بم بلاسٹ میں معذور ہو جاتا ہے۔ بیٹا اپنے باپ کے لیے بے حد محتاط رہنے لگتا ہے۔ اب اسے یہ ڈر ہے کہ اس کے بابا کو مزید کوئی نقصان نہ پہنچے۔ لہٰذا وہ اپنے باپ کو ایک کمرے میں بند کر دیتا ہے اور اس کی دیکھ بھال کرتا ہے۔ اس کا یہ خوف اسے ایک نفسیاتی عارضے شیزوفیرینیا میں دھکیل دیتا ہے اور یوں اسے مستقل بم بلاسٹ اور فائرنگ کی آوازیں سنائی دینے لگتی ہے، جب کہ ایسا نہیں ہوتا۔ وہاں امن ہوتا لیکن چوں کہ اس کی زندگی کا ایک عرصہ دہشت کی فضا میں گزرا ہے اور اس کا باپ ان حالات کا نشانہ بنا ہے، اس لیے اس کے دل ودماغ میں خوف بیٹھ گیا ہے اور دہشت کے مناظر نقش ہوگئے ہیں۔ وہ اپنے باپ سے بہت محبت کرتا ہے اور اسے کھونا نہیں چاہتا، اس لیے اپنے طور پر اسے محفوظ کرنے کی کوشش کرتا ہے۔

یہ ڈوکیومینٹری لیاری کی کہانی ہے۔ لیاری کا نام سنتے ہی گینگ اور گینگ وار کا دہشت اور سفاکی کی لکیروں سے بنا نقشہ نگاہوں کے سامنے آجاتا ہے، اور اس کے ساتھ ہی منشیات، قتل وغارت گری، بھتاخوری، ہینڈ گرینیڈ، کلاشنکوف․․․․غرض مافیاز کا پورا کلچر آنکھوں میں پھر جاتا ہے، یہ کراچی کی اس بستی کی بدقسمتی ہے کہ گذشتہ طویل عرصے تک جاری رہنے والے حالات نے اسے ایک منفی پہچان عطا کردی، ورنہ اس علاقے کی اصل شناخت اہل علم، اہل شعروادب، دانش ور، باشعور سیاسی کارکن، فٹ بالر، باکسر، ایتھلیٹس ہیں، مگر اہلیت اور صلاحیت سے مالامال اس بستی کا حکم رانوں کی بے توجہی اور ناانصافی نے وہ حال کیا کہ اس کا خوب صورت چہرہ بگڑ کر رہ گیا اور اس کی پہچان ہی بدل گئی۔ ایسے میں ایک بہ صلاحیت اور پُرعزم نوجوان اور اس کے تخلیقی کارنامے نے لیاری کی اصل شناخت اجاگر کردی ہے، اور ساتھ ہی ہمیں بتادیا ہے کہ ٹیلنٹ کسی طبقے یا علاقے کی میراث نہیں ہوتا۔

یہ نوجوان ہے احسان شاہ۔
’’جاور‘‘ کے خالق احسان شاہ کو اس بات پر فخر ہے کہ اس کا تعلق کراچی کے علاقے لیاری سے ہے۔ یہ بلوچ نوجوان لیاری میں بسنے والے دیگر بہت سے نوجوانوں کی طرح بہت کچھ کرنے کا عزم رکھتا تھا۔ اور یہ عزم اسے فقط اس لیے تھا کہ وہ پاکستان سے محبت کرتا ہے۔ احسان نے یہ فلم محدود وسائل کے باوجود بنائی اور نامساعد حالات کے باوجود ہمت نہیں ہاری۔ فقط ایک کیمرے اور دو لینسز کے ساتھ کام یابی سے بننے والی یہ فلم بلاشبہہ احسان شاہ اور اس کے ساتھیوں کا کارنامہ ہے۔

احسان کہتا ہے کہ لیاری، جسے کراچی کی ماں کہا جاتا ہے، کے لوگ 2002سے 2015 تک گینگ وار کی آپس کی لڑائی میں پستے رہے۔ ’’ہمیں ہمارے بڑے بتاتے تھے کہ کہ پاکستان کے لاتعداد لوگوں نے اسپورٹس اور سیاست کے حوالے سے بڑی کام یابیاں حاصل کی ہیں ان کا تعلق یا تو لیاری سے تھا یا پھر وہ لیاری سے ہی تربیت لے کر آگے نکلے ہیں۔ لیکن ہم نے جب ہوش سنبھالا تو گینگسٹرز کو اپنے سروں پر راج کرتے دیکھا، لیکن ہم نے اپنی سوچ اور امیدیں بدل دی ہیں۔ ہمیں اگر لیاری سے باہر موقع نہیں ملتا تو موقع ہم خود کوشش کرکے پیدا کرتے ہیں۔ ہم اپنے راستے خود ہی ڈھونڈ رہے ہیں۔ چاہے وہ فلم ہو یا دوسرے کام ہم ہر جگہ محنت کر کے آگے بڑھ رہے ہیں۔‘‘

لیاری طویل عرصے تک ناگفتہ بہ حالات رہنے کے بعد اب قدرے امن قائم ہے۔ احسان شاہ جیسے نوجوان لیاری کو نئی پہچان دے رہے ہیں۔ اس سے قبل بھی لیاری سے تعلق رکھنے والے فٹبالر اور باکسرز پاکستان کا پرچم عالمی سطح پر بلند کر چکے ہیں۔

ضرورت اس امر کی ہے کہ ان باصلاحیت نوجوانوں کی حوصلہ افزائی کی جائے، تاکہ لیاری کے باشندوں میں پائی جانے والی محرومیوں کا ازالہ کیا جا سکے۔

اس نوجوان فلم ساز کا کہنا ہے کہ لیاری پس ماندہ علاقہ ہونے کے باوجود بہ صلاحیت افراد سے مالا مال ہے، لیکن اپنی صلاحیتوں کے اظہار کے لیے انہیں سخت محنت کرنا پڑتی ہے۔ حکومتی سطح پر بہ صلاحیت نوجوانوں کی حوصلہ افزائی نہیں کی جاتی۔

لیاری ہو، کراچی یا ملک کے دیگر شہر اور بستیاں، وہاں جرائم اور دہشت گردی کے پنپنے کی ایک اہم وجہ یہ ہے کہ ہم نے اپنے نوجوانوں کو کم ہی یہ موقع دیا ہے کہ وہ اپنی صلاحیتوں کا اظہار کرسکیں۔ چناں چہ یہ خلا منفی سرگرمیاں پورا کر رہی ہیں۔ ضرورت ہے کہ احسان شاہ اور اس جیسے بہ ہمت اور بہ صلاحیت نوجوانوں کی حوصلہ افزائی ہر سطح پر کی جائے۔ احسان کا یہ پوری قوم پر احسان ہے کہ تاریکی میں ڈبودی جانے والی پاکستان کی ایک بستی میں امید کا ایسا دیا جلایا جس کی روشنی سے ہمارے ملک کا نام عالمی سطح پر دمک اٹھا ہے۔ ہم ایسے نوجوانوں کا ساتھ دیں تو نہ جانے کتنے چراغ روشن ہو جائیں گے۔
Sana Ghori
About the Author: Sana Ghori Read More Articles by Sana Ghori: 317 Articles with 311854 views Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.