ذوالفقار علی
نبی آخرالزماں حضرت محمد مصطفیٰﷺ کی پوری زندگی ایمان والوں کے لئے مکمل
اور بہترین نمونہ ہے۔ آپﷺ نے عقائد سے لے کر عبادات تک ،مسجد سے لے کر
بازار تک ، گھر سے لے کر سیاست کے ایوانوں تک اپنی زندگی سے بہترین نمونہ
چھوڑا ہے، جس کی گواہی خود اللہ تبارک وتعالیٰ نے اپنے ابدی کلام کے ذریعہ
دی ہے۔
رسول اللہ ﷺ کی زندگی میں تم لوگوں کے لئے بہترین نمونہ ہے، ہر اس شخص کے
لئے جو اللہ اور آخرت کے دن پر ایمان رکھتا ہو۔
ذیل کے سطور میںماہ رمضان کے تعلق سے بھی نبی کریم ﷺ کا ہمارے لئے جو
بہترین نمونہ رہا ہے اس کا ایک مختصر نقشہ پیش خدمت ہے کہ نبی کریم ﷺ کس
طرح ماہ رمضان گزارتے تھے۔
ماہ رمضان کا استقبال: نبی کریم ﷺ کا معمول تھا کہ آپ رمضان المبارک کا
شایان شان استقبال فرماتے، چنانچہ آپ شعبان کے آغاز سے ہی نفل روزے کا
اہتمام فرماتے، کبھی تو پورے شعبان کا اور کبھی شعبان کے اکثر ایام کے روزے
رکھتے ، نبی ﷺ کے اس معمول کی وضاحت ہمیں احادیث سے ملتی ہے جن کی روایت
امہات المومنین حضرت عائشہ ؓ اور ام سلمہ ؓ نے کی ہیں۔
شعبان میں کثرت روزہ کا ایک اور مقصد حضرت اسامہ بن زید ؓکی روایت سے معلوم
ہوتا ہے، وہ یہ کہ آپ ﷺ کے فرمان کا مفہوم ہے کہ یہ وہ مہینہ ہے جس کی
اہمیت سے لوگ ناواقف ہیں ، یہ رجب اور رمضان کے درمیان ہے ، یہ وہ مہینہ ہے
جس میں اعمال اللہ رب العالمین کی طرف اٹھائے جاتے ہیں، پس میں پسند کرتا
ہوں کہ میرے اعمال اس حال میں اٹھائے جائیں کہ میں روزے سے رہوں۔
جیسے ہی آپ رمضان میں داخل ہوتے عبادات سے آپ کا شغف خاص طور سے بڑھ جاتا
تھا، فرائض کی طرح نوافل کا اہتمام فرماتے اور فرائض پر خصوصی توجہ فرماتے۔
رمضان المبارک میں ان عبادات کا کیا مقام ہے اس کااندازہ نبی کریم ﷺ کی اس
بات سے لگائےے کہ آپ نے نوافل کے اجر کوفرائض کے برابر قرار دیا اور فرائض
کے اجر کو ستر گنا تک بتایا،اس ماہ میں ایک ایسی رات کا بھی ذکر فرمایا کہ
جس میں کی جانے والی عبادت کا ثواب ایک ہزار مہینے کی عبادت سے بھی افضل
ہے۔چنانچہ آپ ﷺ نے فرمایا: ” لوگو! تم پر ایک بہت ہی عظمت و برکت کا مہینہ
سایہ فگن ہونے والا ہے ، یہ وہ مہینہ ہے جس میں ایک رات ہزار مہینوں سے
بہتر ہے، اللہ نے اس مہینے کے روزے تم پر فرض قرار دیے ہیں اور قیام لیل کو
نفل قرار دیا ہے ، جو شخص اس مہینہ میں دل کی آمادگی کے ساتھ بطور خود کوئی
ایک نیک عمل کرے گا وہ دوسرے مہینے کے فرض کے برابر اجر پائے گا اور جو شخص
اس مہینے میں ایک فرض ادا کرے گا تو اللہ تعالیٰ اس کودوسرے مہینے کے ستر
فرض کے برابر اجر عطافرمائے گا۔ (بیہقی فی شعب الایمان )
روزوں پر خصوصی توجہ: نبی کریم ﷺ سے دوسرا نمونہ جو ہمیں ملتا ہے وہ یہ ہے
کہ آپ وﷺ روزے کا خاص خیال فرماتے، چنانچہ وقت کی پابندی کے ساتھ سحری اور
افطار کا اہتمام فرماتے ، آپ ﷺ کے فرمان کا مفہوم ہے کہ لوگ خیر وعافیت کے
ساتھ رہیں گے جب تک وہ افطار میں جلدی کریں گے ، اسی طرح سحری کے سلسلہ میں
فرمایا کہ سحری میں تاخیر کرو، چنانچہ اگر سحری کھاتے ہوئے اذان ہوجائے تو
اس بات کی گنجائش ہے کہ سامنے کا کھانا مکمل کر لیا جائے۔ ویسے احادیث سے
اس بات کا علم ہوتا ہے کہ آپﷺ کی سحری اور اذان کے درمیان پچاس آیتوں کے
پڑھنے کے برابر وقفہ ہوتا تھا۔ آپ ﷺ روزہ کے اوقات میں آدابِ روزہ کا مکمل
لحاظ رکھتے، زبان سے کبھی نازیبا الفاظ تک بھی ادا نہ فرماتے اور اسی کی
تلقین اپنے اصحاب سے بھی کرتے، روزہ کا اصل مقصد تقویٰ کا حصول ہے جیساکہ
ارشاد باری ہے: لعلکم تتقون یعنی تاکہ تمہارے اندر تقویٰ پیدا ہوجائے، نیز
آپ ﷺ نے یہ بھی فرمایا کہ جس نے روزہ رکھ کر بھی جھوٹ بولنا اور جھوٹ پر
عمل کرنا نہ چھوڑا اللہ تعالیٰ کو اس کے بھوکا پیاسا رہنے سے کوئی غرض نہیں
ہے۔(بخاری) نیز آپ ﷺ نے یہ بھی فرمایا کہ تم میں سے کوئی شخص روزے سے ہو
اور کوئی دوسرا اس کو گالی دے یا اس سے لڑنے پر آمادہ ہوجائے تو وہ اس
بھائی سے کہہ دے کہ بھئی میں تو روزے سے ہوں۔ (بخاری و مسلم)
روزے کے اجر وثواب کو بیان کرتے ہوئے نبی کریم ﷺ نے فرمایا کہ جو شخص ایمان
اوراحتساب یعنی اخلاص نیت اور اللہ سے اجر کی امید اور اصلاح نفس کی نیت کے
ساتھ روزہ رکھے تو اس کے تمام پچھلے گناہ معاف کر دیئے جاتے ہیں۔ (بخاری
ومسلم) نیز نبی کریم ﷺ نے فرمایا (رمضان میں) ابن آدم کے ہر عمل کا ثواب دس
گنے سے سات سو گنے تک بڑھا یا جاتا ہے ، اللہ تعالیٰ فرماتا ہے روزہ اس سے
مستثنیٰ ہے کیونکہ وہ میرے لئے ہے اور میں ہی اس کا جتنا چاہوں گا بدلہ دوں
گا۔(بخاری و مسلم)
قیا م لیل کا اہتمام: نبی کریمﷺ سے تیسرا نمونہ جو ہیں ملتا ہے وہ یہ ہے کہ
آپ اس ماہ میں قیام لیل کا خاص طور سے اہتمام فرماتے ، اورلمبا لمبا قیام
فرماتے یہاں تک کہ آپ کے پاؤں میں ورم آجاتا۔نآپ ﷺ اپنے اصحاب کو بھی اس کی
تلقین فرماتے ، قیام لیل کی اہمیت بیان کرتے ہوئے فرمایا کہ جس نے اللہ پر
ایمان اوراحتساب کی نیت سے قیام لیل کیا اس کے پچھلے تمام گناہ معاف کر دئے
جاتے ہیں۔چنانچہ آغاز میں ایسا ہوا کہ آپ ﷺ نے مسجد میں قیام لیل کا اہتمام
فرمایا تو صحابہ کرام بھی نہایت ہی نیک جذبات کے ساتھ آپ ﷺ کی اقتداءمیں
قیام لیل میں شریک ہوئے، اور جب دوسری رات ہوئی تو اس میں صحابہ کرام تعداد
میں اس سے بھی بڑھ کر شریک ہوئے اور ان کے اندرقیام لیل کا بہت زیادہ شغف
نظر آیا، چنانچہ جب تیسری رات ہوئی تو آپ ﷺ اپنے حجرے سے باہر تشریف نہیں
لائے، اس خدشہ سے کہ مبادا یہ نماز فرض نہ ہوجائے۔
قیام لیل پر قدرت رکھنے کے لئے آپ ﷺ نے اپنے اصحاب کو دوپہر کے قیلولہ سے
مدد لینے کی تلقین فرمائی جو کہ قیام لیل کے لئے مددگار ہے۔قیام لیل کی
فضیلت میں آپ ﷺ کا فرمان ہے کہ جو شخص رمضان میں راتوں کو قیام کرے اس کے
تمام پچھلے گناہ معاف کردئےے جاتے ہیں۔(بخاری و مسلم)
تلاوت قرآن مجید کا اہتمام: ماہ رمضان کے حوالے سے نبی کریم ﷺ سے ایک اور
اسوہ ہمیں ملتا ہے، وہ یہ ہے کہ آپ ﷺ اس مہینے میں قرآن مجید کی زیادہ سے
زیادہ تلاو ت فرماتے اور قیام لیل میں بھی اس کا اہتمام فرماتے، چنانچہ ہر
رمضان میں جبریل امین ؑآپ ﷺ کو قرآن سنتے سناتے ، آخری رمضان میں تو جبریل
امین ؑ نے دوبار آپ ﷺ کو قرآن مجید کا مذاکرہ کروایا، نبی کریم ﷺ سب سے
زیادہ سخی تھے اور آپ ﷺ رمضان میں اور زیادہ سخاوت فرماتے جب جبرئیل ؑ آپ
سے ملتے ، وہ آپ سے رمضان کی ہر رات میں ملتے تھے اور آپ کو قرآن مجید کا
مذاکرہ کراتے ، چنانچہ آپ ﷺ تیز ہوا سے بھی زیادہ سخی تھے۔
قرآن مجید اور ماہ رمضان کے باہمی تعلق کا اندازہ اس سے لگائیے کہ اسی ماہ
میں قرآن مجید کے نزول کا آغاز ہوا ،بلکہ رمضان کے یہ روزے اسی نزول قرآن
کے شکریہ کے طور پر ہیں، جیساکہ اللہ تعالیٰ نے ارشاد فرمایا: ولتکبروااللہ
علیٰ ما ھداکم و لعلکم تشکرون یعنی تاکہ تم اللہ کی اس ہدایت پر اس کی
کبریائی بیان کرو اور اس کی اس (نعمت قرآن پر ) اس کا شکرگزار بنو۔
ماہ رمضان کے روزے اور قرآن مجید میں اس پہلو سے بھی انتہائی گہرارشتہ ہے
کہ دونوں ہی کا مقصد بندے کے اندر اللہ کا تقویٰ پیدا کرنا ہے،اس لئے قرآن
مجید کا حق ہے کہ اس کو خوب ٹھہر ٹھہر کر ترتیل کے ساتھ پڑھا جائے اور اس
کے معانی پر بھی غور کیا جائے،اور اس سے اثر لینے کی کوشش کی جائے، نہ کہ
جلدی جلدی حروف زبان سے ادا کر دئے جائیں کہ کتاب الہی کی عظمت کا احساس
بھی دل میں پیدانہ ہو سکے ،اور نہ اس کے معنی پر غور کیا جائے اور نہ ہماری
زندگی پر اس کا کوئی اثر پڑے۔
صدقہ وخیرات میں اضافہ: ماہ رمضان کے تعلق سے نبی کریم ﷺ کی زندگی میں ہمیں
ایک اور نمونہ ملتا ہے،وہ ہے آپ ﷺ کے صدقات و خیرات کے حوالے سے،یوں تو آپ
ﷺ عام دنوں میں بھی کثرت سے صدقہ وخیرات کیا کرتے تھے مگر جب رمضان کا
مہینہ آتا تو آپ اس عمل کو اور زیادہ تیز رفتاری سے انجام دیتے،غریبوں
مسکینوں اور یتیموں کے لئے افطار و سحر کا انتظام فرماتے اور اپنے اصحاب کو
بھی اس کی تلقین فرماتے۔آپ ﷺ نے اس مہینہ ہی کو شھرالمواساة یعنی ہمدردی
اور رحمدلی کا مہینہ قراردیا ہے،جس کا مطلب ہوتا ہے ہر طرح کے محتاج اور
ضرورت مند کی مدد کا مہینہ۔
رمضان کے آخری عشرہ کا خاص اہتمام: نبی کریم ﷺ سے اس ماہ رمضان کے تعلق سے
ایک اور اسوہ اور نمونہ ہمیں ملتا ہے وہ یہ ہے کہ آپ اس کے آخری عشرہ کا
خاص اہتمام فرماتے ، چنانچہ آپﷺ سے اس عشرہ میںجو اعمال ثابت ہیں وہ
اعتکاف، لیلة القدر کی تحری اور تلاش،کثرت سے نمازیں پڑھنا اورذکر و اذکار
اور دعاؤں کا اہتمام ہے ۔چنانچہ جب آخری عشرہ شروع ہوتا تو آپ ﷺ سب سے کٹ
کر مسجد میں معتکف ہوجاتے اور خوب خوب عبادات اور ذکر واذکا اور دعاؤں کا
اہتمام فرماتے ، احادیث میں ہمیں ملتا ہے کہ اس عشرہ میں نہ صرف خود بلکہ
پورے اہل خانہ کو بھی جگاتے او ر اس کا اہتما م کرنے کی ترغیب دیتے ۔
لیلة القدر کی تحری اور تلاش: اسی آخری عشرے میں آپ ﷺ طاق راتوں میں لیلة
القدر تلاش کرتے، یہ اکیسویں ،تیئیسویں، پچیسویں، ستائیسویں اورانتیسویں
رمضان کی راتیں ہیں، اللہ تعالیٰ نے اس رات کو اپنے بندوں سے مخفی رکھا ہے
تاکہ بندے اللہ کی رضاکی طلب میں خوب جد وجہد کریں ،چنانچہ نبی کریم ﷺ نے
فرمایا کہ لیلة القدر کو رمضان کے آخری عشرہ کی طاق راتوں میں تلاش کرو۔
قدر کی وہ متعین رات کون سی ہے اس کی نشاندہی تو نہیں کی گئی ہے البتہ اس
کی کچھ نشانیاں بیان کی گئیں ہیں وہ یہ کہ وہ رات انتہائی پر امن اور ٹھنڈی
ہوتی ہے اور اگلے دن کے سورج میں تمازت نہیں کے برابر ہوتی ہے، اس کا اشارہ
ہمیں سورہ قدر سے بھی ملتا ہے جس میں فرمایا گیا ہے کہ یہ رات سراسر سلامتی
کی رات ہوتی ہے اور یہ سلسلہ طلوع فجر تک رہتا ہے۔
اس آخری عشرے اور خاص طور سے طاق راتوں میں پڑھنے کی جو خاص دعا نبی کریم ﷺ
نے سکھائی ہے وہ ہے اللھم انک عفو تحب العفو فاعف عنی، یعنی میرے رب تو
سراپا عفو ہے اور عفو و در گزر کو محبوب رکھتاہے لہذا مجھ سے عفو و درگزر
کا معاملہ فرما۔ جو شخص اس قدر والی رات کو پالے گا اور یقین ہے کہ جب ہر
طاق رات بلکہ آخری عشرہ کی تمام راتوں میں مکمل انہماک سے ذکر واذکار، دعا
ومناجات اور عبادات کا اہتمام کرے گا تو ضرور ہے کہ اس کو وہ ہزار مہینے سے
بہتر رات مل جائے گی اور بندہ اس رات کی عبادت کے اجرو ثواب سے نوازا جائے
گا، اور جو بندہ اس کی تلاش کرنے سے محروم رہ جائے گا وہ نبی کریم ﷺ کے
فرمان کے مطابق تمام ہی خیر سے محروم رہ جائے گا۔ (ابن ماجہ)
ذکر واذکار اور دعا کی کثرت کا اہتمام: نبی کریم ﷺ سے ایک اور اسوہ ماہ
رمضان کے حوالے سے یہ ملتا ہے کہ آپ ﷺ کثرت سے ذکر واذکار اور دعاؤں کا
اہتمام فرماتے ، ایک حدیث کا مفہوم ہے کہ جب رمضان المبارک کا مہینہ آتا تو
نبی ﷺ کا رنگ بدل جاتا اور نماز میں اضافہ ہوجاتا اور دعا میں بہت عاجزی
فرماتے، اورآپ ﷺ پر بہت ہی زیادہ خوف غالب آجاتا تھا۔ ایک اور حدیث کامفہوم
ہے کہ اللہ تعالیٰ رمضان میں عرش کو اٹھانے والے فرشتوں کو حکم دیتا ہے کہ
اپنی عبادتیں چھوڑ دو اور روزہ رکھنے والے بندوں کی دعاؤں پر آمین کہو۔
ماتحتوں کے ساتھ نرمی کا معاملہ : ماہ رمضان میں نبی کریم ﷺ سے ایک اور
اسوہ جو ہمیں ملتا ہے وہ یہ کہ آپ ﷺ رمضان میں اپنے ماتحتوں کے ساتھ نرمی
کا معاملہ فرماتے، آپ ﷺ نے تو عام دنوں میں بھی اپنے ماتحت کے ساتھ حسن
سلوک اور نرمی کی تاکید فرمائی ہے، اورآپ ﷺ نے بذات خود کبھی بھی اس کی کسی
غلطی پر جھڑکاتک نہیں، جیسا کہ حضرت زید ؓ نے بیان کیا، آپ ﷺ نے یہ بھی
فرمایا کہ اپنے ماتحت کو وہی کھلاؤ جو خود کھاؤ اور وہی پہناؤ جو خود پہنو،
اور اگر کوئی مشکل کام اس کے ذمے لگاؤ تو اس کی مدد کرو۔
صدقة الفطر کا اہتمام: نبی کریم ﷺ سے ایک اور اسوہ رمضان المبارک کے حوالے
سے صدقة الفطر کا اہتمام ہے۔ اس کے بارے میں آپ ﷺ نے اسے روزہ رکھتے ہوئے
روزہ داروں کی دانستہ یا نادانستہ سرزد ہوئی فحش باتوں اور گناہ کے کاموں
کا کفارہ اور غریبوں اور مسکینوں کے کھانا کھلانے اور عید کی خوشی کا سامان
قرار دیا۔ اس صدقہ فطر کے تعلق سے آپﷺ کی ہدایت یہ ہے کہ اسے عیدگا جانے سے
قبل قبل ادا کردیا جائے تو وہ صدقہ فطر ہے، ورنہ عام صدقات کی طرح کا ایک
صدقہ ہے، ظاہر ہے یہ دونوں مقاصد کہ غلطیوں کا کفارہ اور غریبوں کے لئے
سامان طعام و خوشی اسی صورت میں ہے جب اس کو اس کے متعین وقت کے اندر ادا
کردیا جائے۔
افطار و سحر میں میانہ روی: رمضان المبارک میں افطار وسحر کے حوالے سے بھی
ہمیں نبی کریمﷺ کا اسوہ ملتا ہے، آپ ﷺ دونوںہی میں اسراف وتبذیر سے بچتے
ہوئے میانہ روی اختیار فرماتے ، آپ ﷺ نے اس ماہ کو جسم کو فربہ بنانے کے
بجائے روح کی بالیدگی اور فربہی کا ذریعہ قرار دیا ہے، اور اتنی ہی غذا
لینے کی ہدایت فرمائی ہے جتنے سے روزہ رکھنے میں مدد مل جائے ، ظاہر ہے کہ
روزہ کا مقصد ہی اللہ تبارک وتعالیٰ نے تقویٰ بیان فرمایاہے، تقویٰ جسم کی
نہیں بلکہ روح کی بالیدگی اور تقویت کا نام ہے۔
حضرت ابن عمرؓ کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے ایک شخص کو ڈکار لیتے سنا تو
فرمایا: اپنی ڈکار کم کر اس لئے کہ قیامت کے سب سے بڑھ کر بھوکا وہ شخص
ہوگا جو دنیا میں خوب پیٹ بھر کر کھاتا ہے۔ (ترمذی)
اس پہلو سے جب ہم غور کرتے ہیں تو صاف معلوم ہوتا ہے کہ ہم نے ماہ رمضان کے
مقصد کو بالکل ہی الٹ دیا ہے، اور ہماری زیادہ تر توجہ جسم کی بالیدگی پر
ہوتی ہے ، بلکہ دن بھر بھوکا پیاسا رہنے کے بعد معدہ کو ہلکی غذا کی ضرورت
ہوتی ہے جس کو وہ بآسانی ہضم کر سکے ، مگر ہم اس کے بالکل برعکس نہایت ہی
مقوی غذائیں فراہم کرتے ہیں اور اپنی صحت کو نقصان پہنچاتے ہیں۔ اس پر
مستزاد یہ کہ ہم اپنی ضرورت سے زیادہ کا انتظام کرکے اسے کافی مقدار میں
روزانہ ضائع بھی کرتے ہیں جو اسراف و تبذیر اورایک اور بڑا جرم ہے۔جب کہ
دوسری طرف ایک بڑی انسانی آبادی فقر و فاقہ کی وجہ سے موت کے منہ میں ہے،
جیسا کہ ہمیں افریقی ممالک میں نظر آتا ہے۔گویا ہمیں اس ماہ رمضان کے ذریعہ
اللہ اور اس کے رسول ﷺ نے جو تعلیم دی ہے ہم اس کی صریح خلاف ورزی کررہے
ہوتے ہیں۔
اللہ تبارک و تعالیٰ ہمیں اسوہسولﷺ کے مطابق اپنے ہر ملنے والے ماہ رمضان
کو برتنے اور اس سے کماحقہ استفادہ کرنے کی توفیق عطا فرمائے۔ آمین ثم آمین |