کرپشن کی ہوشربا کہانیاں اور سزا۔۔۔۔؟
(Dr M Abdullah Tabasum, )
اسپشل جج سینٹرل اسلام آباد ملک نزیر احمد
نے 2010ء میں حج انتظامات میں خرد برد کرنے کے الزام میں سابق وفاقی وزیر
مذہبی امور علامہ حامد سعید کاظمی کو بارہ سال قید کی سزا اور چودہ کروڑ
83لاکھ اور چوالیس ہزار چھ سو جرمانہ کی سزا سنائی عدم جرمانہ پر مزید چار
سال قید ہو گی سابق حج ڈی جی راؤ شکیل احمد کو 40 سال سزا اور آفتاب احمد
کو 30 سال کی سزا سنائی گئی ہے سزا سنانے کے بعد احاطہ عدالت سے ہتھکڑیاں
لگا کر گرفتار کر لیا گیا اور سزا کے متعلق ایف آئی اے کو آگاہ کیا گیا
ملزمان نے سزا کے خلاف اپیل کرنے کا اعلان کیا پاکستان میں یہ اپنی نوعیت
کا کوئی واحد واقعہ نہیں ہے اس سے پہلے بلوچستان کے سیکرٹری خزانہ مشتاق
رئیسانی کی اقامت گاہ سے ستر کروڑ روپے کے لگ بھگ کی ملکی و غیر ملکی کرنسی
نوٹ اور زیورات کابرآمد ہو نا ایسا واقعہ ہے جس نے پاکستان میں بد عنوانی
کے طویل ترین سلسلے کا سراغ دیا ہے حالیہ مہنیوں میں یہ اطاعات سامنے آتی
رہی کہ کراچی سے کرنسی نوٹوں کی لانچیں بھر بھر کر دئبی کے ساحل پر لنگر
انذاز ہوتی تھی ،کوئٹہ کے ایک سرکاری گھر سے اس بڑی مقدار میں رقوم اور
زیورات کا یوں ملنا ایسی تمام کہانیوں کی صداقت پر مہر ثبت کرتا ہے کہ
پاکستان کو لوٹ پاٹ کر اپنے لئے دولت کے انبار لگانے والے ملک کے ہر حصے
میں موجود ہیں ،قبل ازیں اس سے کہیں زیادہ ہوشربا کہانیاں ان افسروں کے
بارے میں بھی سامنے آ چکی ہیں ،جن کو حساس اور سلامتی کی ذمہ داریاں تفویض
کی گئی تھیں اور وہ وہ بھی بلوچستان میں تعینات تھے ،سیاسی رہنماؤں کی بد
عنوانیوں کی داستانیں تو ہر قدم پر سنانے کے لئے آن موجود ہوتی ہیں اور
پاکستان نہ صرف اسلامی ریاست ہے بلکہ اس کے قیام کی خاطر جذبہ محرکہ بھی
اسلام تھا اور وعدہ تھا کہ اسے ترویج دین کے لئے تجربہ گاہ بنایا جائے گا ،یہ
بھی کوئی بد قسمتی کی بات نہیں کہ مذ ہب کے وہ علمبردار جن سے توقع کی جاتی
ہے کہ وہ عام مسلمانوں کو دین کی تعلیم سے آشناکرائیں گے اور ان کی مذہبی
شعائر کے حوالے سے تربیت کریں گے ان کی قابل لحاظ تعداد بھی ایسے دھندوں
میں ماخوذ ہے جن کے ذریعے مقصد زیادہ سے زیادہ دولت انذوزی کرنا ہے ،سندھ
میں امور حکومت کے حوالے سے جو منظر ذہنوں میں واضح ہے وہ حد درجہ اذیت ناک
ہے اس صوبے کاکوئی محکمہ یا ادارہ ایسا نہیں جسے کرپشن نے اپنی لیپیٹ میں
نہ لے رکھا ہو صوبے میں کوئی کس قدر جائز ہی کیوں نہ ہو اسکی انجام دہی کے
لئے متعلقہ حکام اور اہلکاروں کی مٹھی گرم کئے بغیر کامیابی ممکن ہی نہیں ،مقام
شکر ہے کہ موجودہ حکمرانوں نے ان کی جگہ لی اور حالات کو اپنی بے پناہ محنت
اور لگن سے سنبھالا دیا،کرپشن ملک عزیز کے رگ وپے میں سرایت کر چکی ہے یہی
وجہ ہے کہ اس کا چلن پورے ملک میں کسی نہ کسی درجے ہر شعبے میں موجود ہے ،اس
کی روک تھام کے لئے قوانین اپنی جگہ موجود ہیں انتظامیہ اور اہلکاروں
کاپورا نظام روبہ عمل ہے لیکن اسے مزید بدقسمتی ہی کہا جائے کہ کرپشن کی
روک تھام پر مامور عمال بھی اسی دھندے میں ملوث ہوگئے ہیں جبکہ وہ نظام اس
کی روک تھام کے لئے وضع کیا گیا تھا اسے بھی کرپشن کے لئے استعمال کیا جاتا
ہے ،ہر شخص ایک ہی سوال کرتا ہے کہ یہ تباہ کن صورتحال کیونکر درست ہو گی
خرابی اس حد تک بڑھ گئی ہے کہ اس سے ملکی سالمیت کوشدید خطرات لاحق ہیں ،کرپشن
کو بڑا سمجھنے کاتصور تک ختم ہو چکا ہے اس میں کوئی شبہ نہیں دنیا کے ترقی
پذیر ہی نہیں ترقی یافتہ ممالک میں درجہ بدرجہ کرپشن پائی جاتی ہے زندہ
معاشروں میں اس کے خلاف برسر عمل نظام اسی تناسب سے حرکت میں آتا رہتا ہے
اور اسے عندالضرورت سخت بھی بتایا جاتا ہے تاکہ یہ بُرائی بے محابا انذاز
میں پنپ نہ سکے ،ہمارے ہاں پورا زور اس بُرائی کے فروغ میں مخصوص ہو کر رہ
گیا ہے اگر کہا جائے کہ36/37سال قبل ایران میں آئے اس انقلاب جیسی کوئی
تبدیلی پاکستان میں وارد ہونے کے لئے ماحول تیار ہو چکا ہے تو یہ تخمینہ
زیادہ غلط نہ ہو گا ،معاشرے میں بد عنوانی کی غلاظت اس ہمہ گیر انذاز میں
پھیل چکی ہے کہ اسے روک دینے کی کوششوں کی بھی مزاحمت ہو گی ،ایک روایت کے
مطابق بلوچستان میں گزشتہ پانچ سال کی حکومت میں ارکان اسمبلی کو ترقیاتی
منصوبوں کی مد میں جس قدر رقوم دی گئیں ان کا تین سے پانچ فیصد خرچ ہوا
جبکہ پچانوے سے ستانوے فیصد فاضل ارکان صوبائی اسمبلی اور انتظامیہ کے کل
پروزوں کی تجوریوں میں چلی گئیں ،اس دوران جعلی ٹھیکے الاٹ ہوتے رہے ،کاغذی
منصوبے بنتے رہے ان کا کاغذ میں ہی افتتاح اور تکمیل کی رسوم ادا کی گئیں ،حساس
اداروں سمیت اعلی سطح کی قیادت کو اس بُرائی کاپورے طور پر علم تھا لیکن
کسی نے ہاتھ ڈالنے کی ہمت پیدا نہیں کی کیونکہ یہ سب کو علم تھا کہ حصہ
نقدر حبشہ اوپر تک پہنچ رہا ہے اب جبکہ اس مرتبہ پھر ترقیاتی سرگرمیاں نکتہ
عروج کی جانب بڑھ رہی ہیں اور چین کی طرف سے پاکستان میں چھیالیس ارب ڈالرز
کی خطیر رقم سرمایہ کاری کے زریعے اقتصادی راہداری کی تعمیر کاڈول ڈالا جا
رہا ہے ضرورت اس امر کی ہے کہ عظم الشان منصوبے کوبدعنوانی کی آلائشوں سے
محفوظ رکھنے کی ہر ممکن تدبیر کی جائے ،چینی حکام نے ماضی میں گاہے گاہے اس
بارے میں حکومت پاکستان کی توجہ مبذول کرائی جسکے جواب میں اعلی حکومتی سطح
پر یقین دہانیوں بھی کرائی جاتی رہی ہیں خزانے کے وفاقی وزیر محمد اسحاق
ڈار،منصوبہ بندی واصلاحات کے وزیر احسن اقبال کی موجودگی میں اس امر
کااطمینان کرنے کی وجوہ موجود ہیں کہ اس فیقد المثال منصوبے کو کرپشن سے
بچانے کی ہر مکمن سعی کی جائے گی اس کے باوجود اضافی احتیاطدرکار ہے وزیر
اعظم نواز شریف نے تین سال قبل زمام اقتدار سنبھالنے کے بعد جن امور پر غیر
معمولی توجہ دی ہے ان میں سے کرپشن کاسد باب سرفہرست ہے اس میں انہیں قابل
لحاظ کامیابی ملی ہے تاہم سرکاری حکام کی اقامت گاہوں سے نوٹ برآمد کرنے کی
مہم نہ صرف جاری رہنی چائیے بلکہ اس کا دائرہ بھی وسیع کرنے کی ضرورت ہے ،
ٹرانس پیرنسی انٹرنیشنل کے مطابق گزشتہ پندرہ سالوں کے دوران سب سے زیادہ
کرپٹ دور ’’پرویز مشرف‘‘ کا رہا ہے جنرل پرویز مشرف کے حوالے سے نیب نے
تحقیقات شروع کی تو وہ فوجہ زمینوں کو سیاسی رشوت کے طور پر اپنے من پسند
افراد میں تقسیم کیں لیکن بعد ازاں ااس ادارے نے لیت و لعل سے کام لینا
شروع کر دیا ،2005ء میں اسٹاک ایکسچینج کی ہیرا پھیری سے لیکر پاکستان
اسٹیل ملز کی نکاری تک ،چینی کے اسکینڈل سے لیکر صاف پانی کے اربوں روپے
مالیت کے پراجیکٹ تک،دفاعی خریداری کے معاملوں میں خردبرد جس میں فضائیہ کے
لئے جاسوسی جہاز خریدنے کے معاملات شامل ہیں ،فوجی زمینیں جے یو آئی (ف)
اور اپنے نجی استاف میں تقسیم کرنے کے کیس بھی شامل ہیں ،اور تو اور 2005ء
کے زلزلے فنڈز میں ہیرا پھیری اور جعلی پنشن اسکینڈل،جکارتا میں پاکستانی
جائیداد فروخت کرنے کے ساتھ ساتھ اپنے چیف آف اسٹاف کو فائدہ پہنچانے کے
لئے اسلام آباد کے ماسٹر پلان میں تبدیلی کا کیس،اور لا تعداد غیر آئینی
اور غیر قانونی تقرریاں ایسے معاملات ہیں جن کو نیب مسلسل نظر انداز کر رہا
ہے ،اپنے دور حکومت میں ملک کے اندر اور ملک سے باہر اثاثوں کے ساتھ پرویز
مشرف ارب پتی بن جانے والے سے کسی نے سوال تک نہیں کیا ۔۔۔۔؟ کیوں یہاں پر
نیب کو آنکھوں پر پٹی باندھنے کا مشورہ کہاں سے اور کیوں آیا۔۔۔۔؟ کیوں
فوجی آمروں کا احتساب نہیں کیا جا رہا ۔۔۔۔؟ اس کے دور حکومت میں ہونے والے
میگا کرپشن اسکینڈلز پر تحقیقات اور مقدمات درج کیوں نہیں کئے جارہے ہیں - |
|