فضائلِ رمضان
(Prof Abdullah Bhatti, Lahore)
نبوت و رسالت کے آفتاب و مہتاب ‘انبیاء و
مرسلین کے تاج دار ‘محسنِ انسانیت ‘ فخرِ دو عالم ‘نورِ مجسم ، شافع محشر
سرورکونین ‘محسنِ اعظم ،سیدالمرسلین ‘ہادی عالم ‘رحمتہ للعالمین ‘محبوب خدا
‘پیغمبرِ رحمت ﷺ منبرِ رسول ﷺ پر جلوہ آفروز ہونے اور عاشقانِ رسول ﷺ کی
پیاس بجھانے کے لیے منبر ِ رسول ﷺ کی طرف بڑھتے ہیں۔ جب آپ ﷺ نے پہلی سیڑھی
پر قدم مبارک رکھا تو باآواز فرمایا آمین پھر جب دوسری سیڑھی پر قدم مبارک
رکھا تو فرمایا آمین پھر جب منبرِ رسول ﷺ کی تیسری سیڑھی پر قدم رکھا تو
پھر فرمایا آمین ۔ عاشقانِ مصطفے ﷺ آپ ﷺ کے باآواز آمین کہنے پر تھوڑے
حیران تھے کہ آج شہنشاہِ کائنات ﷺ روٹین سے ہٹ کر باآواز آمین کیوں کہہ رہے
ہیں تو آقائے دو جہاں ﷺ نے فرمایا جب میں نے پہلی سیڑھی پر قدم رکھا تو
میرے پاس فرشتوں کے سردار جبرائیل امین ؑ آئے اور کہا اے سیدنا محمد ﷺ جس
نے رمضان کو پایا اور اُس کی بخشش نہیں کی گئی اﷲ اس کو اپنی رحمت سے دور
کر دے میں نے کہا آمین پھر جبرائیل ؑ نے کہا جس نے اپنے ماں باپ ان میں سے
کسی ایک کو پایا اِس کے با وجود وہ دوزخ میں داخل ہو گیا یعنی ماں باپ کی
خدمت کر کے جنت حاصل نہ کی اﷲ اُس کو اپنی رحمت سے دور کر دے میں نے کہا
آمین پھر جبرائیل ؑ بولے جس کے سامنے محبوب خدا آپ ﷺ کا ذکر کیا جائے اور
وہ آپ ﷺ پر درود شریف نہ پڑھے اﷲ اس کو اپنی رحمت سے دور کر دے تو میں نے
کہا آمین ۔ محترم قارئین اب کہنے والا فرشتوں کا سردار ہو اور آمین کہنے
والے نبیوں کے سردار ﷺ اور محبوب خدا ﷺ ہوں جن کی وجہ سے ہی کائنات تخلیق
کی گئی ہو تا کیا ایسی دعا قبول نہ ہو گی ۔ روز اول سے قیامت تک شب و روز
اِسی طرح چلتے رہیں گے اِن دنوں میں بہت سارے دن افضل ہیں یوں تو تمام
زمانے ، سال ، مہینے ، دن رات اچھی ساعتیں اور صدیاں سب اﷲ تعالی کی ہیں ۔
تاہم رمضان المبارک کو اﷲ تعالی نے خاص اعزاز اور فضیلت سے نوازا ہے ۔رمضان
میں ایک خاص روحانی اور جسمانی سر شاری اور کیفیت ہے قرآن مجید کے نزول اور
روزے کا مہینہ قرار دے کر باقی مہینوں سے اعلی اور ممتاز مقام عطا کر دیا
ہے ۔ ماہِ رمضان میں ہو نے والی عبادت کا درجہ کم از کم ستر گنا اور زیادہ
کی قید نہیں ہے ۔ سرور کائنات ﷺ نے شعبان کے آخری جمعہ کے موقع پر خطبہ دیا
وہ استقبال رمضان کے حوالے سے تھا ۔ رحمتِ دو عالم ﷺ نے فرمایا اے لوگوں تم
پر ایک ایسا مہینہ سایہ فگن ہونے والا ہے جس کا اول رحمت وسط مغفرت اور آخر
جہنم سے آزادی ہے ۔ اِس مہینہ میں ایک رات ہے جو ہزار مہینوں سے بہتر ہے اﷲ
نے اِ س مہینہ میں روزہ فرض کر دیا ہے اور اِس کی رات میں قیام کو نفل کر
دیا ہے جو شخص اِس مہینہ میں کوئی نیکی کر ے تو وہ دوسرے مہینہ میں فرض ادا
کرنے کی مثل ہے اور جو شخص اِس مہینہ میں فرض ادا کرے تو وہ ایسا ہے جیسے
دوسرے مہینہ میں ستر فرض ادا کیے یہ صبر کا مہینہ ہے یہ وہ مہینہ ہے جس میں
مومن کے رزق میں زیادتی کی جاتی ہے اِس مہینہ میں جو کسی روزہ دار کو افطار
کرائے اس کے لیے گناہوں کی مغفرت ہے اور اس کی گردن کے لیے دوزخ سے آزادی
ہے اور اس کو بھی روزہ دار کے مثل اجر ملے گا اور روزہ دار کے اجر میں کو
ئی کمی نہیں ہو گی صحابہ ؓنے عرض کیا یا رسول اﷲ ﷺ ہم میں سے ہر شخص کی یہ
استطاعت نہیں ہے کہ وہ روزہ دار کو افطار کر اسکے تو رحمتِ دو عالم ﷺ نے
فرمایا اﷲ تعالی یہ ثواب اس شخص کو بھی عطا فرما ئے گا جو روزہ دار کو ایک
کجھور یا ایک گھونٹ پانی یا ایک گھونٹ دودھ سے روزہ افطار کرائے یہ وہ
مہینہ ہے جس کا اول رحمت ہے جس کا درمیان مغفرت ہے اور جس کا آخر جہنم سے
آزادی ہے ۔ جس شخص نے اِس مہینہ میں اپنے خادم سے کام لینے میں کمی کی اﷲ
اس کی مغفرت کر دے گا اور اس کو دوزخ سے آزاد کر دے گا اِس مہینہ میں چار
خصلتوں کو جمع کر و دو خصلتوں سے تم اپنے رب کو راضی کرو اور دو خصلتوں کے
بغیر تمھارے لیے کوئی چارہ کار نہیں ہے ۔ جن دو خصلتوں سے تم اپنے رب کو
راضی کرو گے وہ کلمہ شہادت پڑھنا اور اﷲ تعالی سے استغفار کر نا ہے اور جن
دو خصلتوں کے بغیر کو ئی چارہ نہیں ہے وہ یہ ہیں کہ تم اﷲ سے جنت کا سوال
کرو اور اس کی دوزخ سے پناہ طلب کرو اور جو شخص روز دار کو پانی پلائے گا
اﷲ تعالی اُس کو میرے حوض سے پانی پلائے گا اسے پھر کبھی پیا س نہیں لگے گی
حتی کہ وہ جنت چلا جائے گا ۔ سرور دو عالم محبوب خدا ﷺ نے یہ بھی فرمایا کہ
جس شخص نے رمضان کے مہینہ میں اپنی حلال کمائی سے کسی روزہ دار کا روزہ
افطار کرایا تو رمضان کی تمام راتوں میں فرشتے اس کے لیے استغفار کر تے ہیں
اور لیلۃ القدر میں فرشتوں کے سردار جبرائیل امین ؑ اس سے مصافحہ کر تے ہیں
اورجس سے جبرائیل ؑ مصافحہ کر تے ہیں اس کے دل میں رقت پیدا ہو تی ہے اوراس
کے آنسو نکلتے ہیں حضرت سلیمان ؓ نے عرض کی یا رسول اﷲ ﷺ یہ فرمائیے کہ کسی
شخص کے پاس افطار کرا نے کے لیے کچھ نہ ہو تو رحمت ِ دو جہاں ﷺ نے فرمایا
ایسا شخص ایک مٹھی کھانا دے دے میں نے کہا یہ فرما ئیے اگر اس کے پاس روٹی
کا ایک لقمہ بھی نہ ہو تو شافع محشر ﷺ نے فرمایا وہ ایک گھونٹ دودھ دے دے
میں عرض کیا اگر اس کے پاس وہ بھی نہ ہو تو فرمایا وہ ایک گھونٹ پانی دے دے
۔ حضرت عبادہ بن صامتؓ بیان کرتے ہیں کہ جب رمضان آیا تو سرور کائنات ﷺ نے
فرمایا ۔ تمھارے پاس رمضان آگیا ہے یہ برکت کا مہینہ ہے اﷲ تعالی تم کو اِس
میں ڈھانپ لیتا ہے اِس میں رحمت نازل ہو تی ہے اور گناہ جھڑ جاتے ہیں اور
اِس میں دعا قبول ہو تی ہے اﷲ تعالی اِس مہینہ میں تمھار ی ر غبت کو دیکھتا
ہے سو تم اﷲ کو اس مہینہ میں نیک کام کرتے دکھا ؤ کیونکہ وہ شخص بد بخت ہے
جو اس مہینہ میں اﷲ کی رحمت سے محروم رہا ۔ حضرت عبدالرحمان بن عوف ؓ بیان
کر تے ہیں فخرِ دو عالم ﷺ نے رمضان کا ذکر کیا اور تمام مہینوں پر اِس کی
فضیلت بیان کی پس فرمایا جس نے رمضان کی حالت میں ثواب کی نیت قیام کیا
نفلی نمازیں ادا کیں وہ گناہوں سے اِس طرح پاک ہو جائے گا جس طرح آج اپنی
ماں کے پیٹ سے پیدا ہوا ۔ہم خوش قسمت ہیں کہ ہمیں ایک بار پھر سحر خیزی کے
لمحے جو بڑے دلآویز اور افطاری کے روح پرور مناظر جو ایمان افروز ہوتے ہیں
ملے ہیں ۔ گویا جس طرح بہار کے آنے سے پورا موسم بدل جاتا ہے اِسی طرح
رمضان کی آمد سے پورا ماحول بدل جاتا ہے ۔ رمضان خدا کا مہمان مہینہ ہے اور
مہمان کا احترام ہر انسانی معاشرے میں احسن طریقے سے کیا جاتا ہے ۔ |
|