دنیا بھر کے ترقی یافتہ ملکوں میں حکمرانوں
کی معمولی معمولی غلطیوں اور چور بازاریوں پر عوام انکا جینا حرام کردیتی
ہے اورآخر کار چور حکمرانوں کو گھر جاناہی پڑتاہے ترقی یافتہ قومیں اپنی
ترقی اور آزادی کی راہ میں کسی بھی چیز کو حائل نہیں ہونے دیتی وہ لوگ
سمجھتے ہیں حکمران خود اپنے آپ چھلانگ لگا کر اقتدار کے ایوانوں میں نہیں
داخل ہوتے بلکہ انہیں عوام اٹھا کر وہاں تک پہنچاتے ہیں اسی لیے جب تک وہ
اپنے ملک اور عوام کے وفادار رہیں گے تب تک وہ کام کرتا رہیں گے جیسے ہی
انہوں نے کوئی غلط حرکت کی جو ملک اور قوم کے لیے نقصان دہ ہو تو ایسے
حکمرانوں کو فوری طور پر عوام کے احتجاج پر اپنا عہدہ چھوڑنا پڑجاتاہے اور
وہاں کی عوام اس وقت تک چین سے نہیں بیٹھتی جب تک اسکا حساب برابر نہیں
ہوجاتا مگر اسکے برعکس ہم پاکستانیوں نے شرافت کا جو لبادہ اوڑھ رکھا ہے
اور تہذیب کا جو دامن تھام رکھا ہے اسکی بدولت ہم کسی بھی بڑی سے بڑی کرپشن
اور میگا لوٹ مار پر بھی چوں تک نہیں کرتے ہم اتنے مہذب لوگ ہیں کہ چن چن
کو ایسے افراد کو آگے لاتے ہیں جو ہمارے ہی گھروں کو لوٹنا شروع کردیتے ہیں
اور صرف اسی پر ہی اکتفا نہیں کرتے کہ بلکہ ہم خود انہیں راستہ بھی بتاتے
ہیں اور سامان کی نشاندہی بھی کرتے ہیں اپنے ہی گھر کو ہم نے چوروں کی
حفاظت میں دے رکھا ہے جو ہمیں لوٹ کر خود تو خوشحالی کی زندگی گذار رہے ہیں
اور عوام بے چاری غربت کی چکی میں پس رہی ہے نہ صرف چکی میں پس رہی ہے بلکہ
اس چکی سے نکلنے والا خون بھی اپنے حکمرانوں کو پیش کررہی ہے اور اف تک بھی
نہیں کرتی کہ کہیں انکی تکلیف سے حکمرانوں میں جو حکمرانی کا نشہ پیدا
ہوچکا ہے کہیں اسکا سرور ختم نہ ہوجائے ہماری مہذب عوام خود کڑکتی دھوپ اور
تپتی دوپہر میں 50ڈگری سے زائد درجہ حرارت بغیر بجلی کے برداشت کررہی ہے
اور کراچی کے عوام اس دور میں بھی پانی کے بغیر زندہ ہیں مگر اپنے حکمرانوں
کو ایک منٹ بھی تکلیف میں برادشت نہیں کرسکتے اپنی اوقات اور ہمت سے بڑھ کر
ٹیکس دینے والے کئی کئی سال اپنا جوتا اور کپڑا نہیں تبدیل کرتے پھٹ جائے
تو سلائی کرلیتے ہیں رمضان سے پہلے بھی روزوں کی حالت میں تھے اور اب تو
ثواب بھی ملے گا مگرنہ صرف اپنے حکمرانوں کے لیے بلکہ انکی آنے والی نسلوں
کے لیے بھی کئی اقسام کے کھانوں کے پیسے حکومت کو جمع کروا رکھے ہیں ہماری
مہذب قوم اپنے کاندھوں پر اٹھا کر لٹیروں کو اقتدار کے ایوانوں میں پہنچاتے
ہیں اور پھر خود کسی اور کے کاندھے کا سہارا تلاش کرنا شروع کردیتے ہیں
ہماری تہذیب یافتہ قوم نے اپنے ذہن پر بھی زور دینا چھوڑ دیا ہے پرانی
باتوں اور قصوں کو فورا ہی دفن کردیتی ہے تاکہ نہ رہے بانس اور نہ بجے
بانسری کیونکہ ہم اگر حکمرانوں کی کرپشن کے پرانے قصے لیکر بیٹھ جائیں گے
تو پھر نئی کہانیاں کہاں سے جنم لیں گی اور ہم نے اپنے آپ سے غربت کی لیکر
سے نیچے رہنے کا جو وعدہ کررکھا ہے وہ کیسے نبھا پائیں گے ہماری بلا سے کون
کیااورکتنا لوٹ رہا ہے ابھی پانامہ لیکس کا قصہ گذرے صرف ایک ماہ ہی گذرا
ہے شروع شروع میں تو کچھ لوگوں نے چائے کی پیالی میں ایسا طوفان کھڑا کردیا
تھا کہ ایسے محسوس ہورہا تھاہم نے اپنی پرانی تہذیب کو لات مارنے کا
پروگرام بنا لیا ہے مگر بھلا ہو کچھ بزرگ سیاستدانوں کا کہ انہوں نے ہاتھ
سے جاتے ہوئے تہذیب کے دامن کو بچا لیا ورنہ دنیا کیا کہتی کہ ہم اپنوں ہی
کے خلاف سینہ تان کر کھڑے ہوگئے جن کو خودہم نے اٹھا کر حکمرانی کے تخت پر
بٹھا یا ہوا ہے ملک کی دولت کو غیر قانونی طور پر صرف پاکستان کے حکمرانوں
ہی نے باہر منتقل نہیں کیا اس لوٹ مار میں کئی دوسرے ممالک کے حکمران بھی
شامل ہیں مگر وہاں کی جاہل اور بد تہذیب قوموں نے اپنے ہی حکمرانوں سے حساب
مانگ لیا اور آخر کار انہوں نے اپنے عہدے چھوڑ دیے مگر ہمارے حکمران عوام
کی خاطر کانٹوں کی سیج پر بیٹھ کر ملک وقوم کی جو خدمت کررہے ہیں وہ شائد
ہی کسی اور ملک کے حکمران کررہے ہوں ایک دور تھا کہ سرے محل کے نام پر
بینظیر بھٹو صاحبہ کو بلیک میل کیا جاتا رہا بعد میں کچھ مک مکا ہوا تو بات
آئی گئی ہو گئی اب جب سے وزیراعظم میاں نواز شریف صاحب اور انکی فیملی کے
نام کے کھاتے کھلیں ہیں اور پانامہ لیکس میں انکا ذکر آیا تو ایک بار پھر
حکمرانوں نے سرے محل کا نام لیکر پیپلز پارٹی کی قیادت کو ایسے ڈرانا شروع
کردیا ہے جیسے کسی خاتون کو چھپکلی دکھا کر ڈرایا جاتا ہے مگر ہماری مہذب
قوم نہ صرف میثاق جمہوریت کا دفاع کررہی ہے بلکہ قیام پاکستان سے لیکر آج
تک جس جس نے جو جوبدتہذیبی اوردھوکہ فراڈ ہمارے ساتھ کیا ہے ہم صرف اپنی بے
نام سی شرافت کی بدولت انکے خلاف بھی کبھی کچھ نہیں کیا تو ہم اپنی روایات
کے خلاف موجودہ ڈاکوؤں اور لٹیروں کے خلاف بھی کچھ نہیں کرینگے نہ صرف اب
بلکہ کبھی بھی نہیں کیونکہ غربت کی مہذب دنیا جو ہمارے خون میں رچ بس چکی
ہے وہ کیسے تبدیل ہوسکتی ہے اگر ہمارے خون میں غیرت کی رتی رتی رہتی تو آج
ہمارے ہاتھوں کے تراشے ہوئے پتھر کے صنم بت خانے میں بھگوان بن کر نہ بیٹھے
ہوتے ۔
|