ہمارے تنقیدی رویے

حضرتِ علی ؓ نے ایک بارایسے شخص کی بابت بات کرتے ہوئے ،جسے کسی شخص کی ساری شخصیت میں محض برا پہلو ہی نظر آتا ہو ، اس گندی مکھی سے تشبیہہ دی تھی جو سارا جسم چھوڑ کر زخم پر جا بیٹھتی ہے۔ نبی کریم ﷺ نے بھی دل آزاری سے منع فرمایا اور سمجھانے کے طریقے میں اعتدال کا دامن ہاتھ سے نا جانے کی تنبیہہ کی۔ایک دانا کا قول ہے کہ جسے تو نے تنہائی میں سمجھایا اس کے دل میں عزت بنالی اور جسے سب کے سامنے لعن طعن کی،اس کی دشمنی مو ل لے لی۔

ادب کا طالبعلم ہو ا اورتحقیق و تنقید پڑھنا پڑی تو کافی عرصے تک اس میں دل نہ لگاکہ یہ ایک خشک مضمون تھااور دوسرا اس کے بارے میں کچھ غلط تصورات ذہن میں جانگزیں تھے کہ شاید یہ محض نقص نکالنے اور عیب جوئی کا ہنر ہے وغیرہ وغیرہ ۔ ایسے میں جناب کاشف نعمانی صاحب سے ملاقات ہوئی، ان سے قبل والدِ محترم کے کچھ دوست احباب جو خاصے صاحبِ علم تھے ان سے بھی اسی سلسلے میں ملاقات ہوئیں۔ نعمانی صاحب کا یہ قول دل میں گھر کر گیا کہ تنقید اور تنقیص میں فرق ہونا چاہیے۔ حلقہ اربابِ ذوق سے جڑے تو معلوم ہوا کہ واقعی تنقید اور تنقیص ِ محض دو مختلف کام ہیں۔وہاں کچھ تلخ تجربات کا بھی سامنا ہوا۔ کوئی فن پارہ تنقید کے لیے پیش ہوتا تو کچھ احباب محض دوسرے کی برائی کرکے، اس کے کام میں خوامخواہ عیب نکال کر مزہ لیتے، کچھ احباب اپنے دوستوں کا ساتھ دینے کے لیے بے جا تعریفوں کے پل باندھتے اور کچھ احباب اپنے ادب پارے کی حمایت کے لیے اپنے دوستوں کے کثیر تعدادحلقے میں لے جاتے، پھر ہوتا وہی جس کو وزیر آغا اپنی کتاب ــ’’مجلسی تنقید‘‘میں بیان کرتے ہیں۔ مجلسی تنقید کے بہت سے نقصانات میں سے ایک بڑا نقصان یہ بھی ہے کہ کچھ خوامخواہ کے نقاد(جو نہ علم کے حوالے سے معتبر ہوتے ہیں نا ہی فن کے بارے میں کچھ جانتے ہیں)ایسے ناقدین کی پیروی میں ادب پارے پر تنقید کرتے ہیں جنہیں وہ اپنے تئیں معتبر مان چکے ہوتے۔ ایک ادب پارے پر لوگوں کی رائے مختلف ہوجانا کچھ برا نہیں ہے لیکن کم از کم ناقد کے علم و ہنر کا بھی کوئی معیار مقرر ہونا چاہیے۔ یہ حلقہ اربابِ ذوق تک ہی محدود نہیں، مجلسی تنقید جہاں بھی ہو، خواہ یہ کوئی بیٹھک ہو، کوئی ویب سائٹ ہو یا کوئی اور جگہ، ہر طرف تقریباً ایک جیسے ہی حالات ہیں۔ ایک خاتون نے ماں کے حوالے سے ایک شعر پیش کیا، اب اگر آپ کا ضمیر آپ کو اس کی حوصلہ افزائی کی جانب مائل نہیں بھی کرتا تو نہ کرے یہ کیا کہ آپ نے اس کے شعر میں سے عیب تلاش کرنا شروع کردیے۔اگر آپ شعر میں عیب بھی تلاش کریں تو ایک ہنر سے کریں، اسے اس سے بہتر رائے دیں، اس کی رہنمائی کریں، یہ کیا کہ جو دل میں آئی فوراً بک دیا حالانکہ خود آپ کو نہ نظم سے شغف ہے نا نثر سے۔ ایک اور دوست نے ایک نظم پیش کی، فوراً اس کو مشورے ملنے لگے کہ اپنا چیک اپ کراو، ہسپتال جاؤ، ہی ہی ہی، ہاہاہا وغیرہ وغیرہ۔ اب اسے کیا کہا جائے ؟ ادب کا مذاق یا اپنے بڑے پن کا وہ احساس جو شاید کسی احساسِ کمتری سے جنم لے رہا ہے یا شاید کوئی محرومی ہے جو لاشعور میں ہر وقت کچوکے لگاتی ہے ؟

تنقیدی رویوں میں اعتدال یہ ثابت کرتاہے کہ آپ کتنے با ہنر ہیں، کتنے با ادب ہیں اور آپ کو کچھ علم بھی ہے یا نہیں ؟ ایک بار ایک فورم پر ایک غزل پر بات ہورہی تھی، ایک صاحب نے جمالیات پر گفتگو شروع کردی۔ میں اس وقت جمالیات کے بارے میں پڑھ رہا تھا، میں نے انہیں پرائیویٹ میسج کیا کہ بھائی صاحب آپ جمالیات کے بارے میں میری بھی کچھ مدد اور رہنمائی کیجیے۔ مدد یا رہنمائی تو کیا ہونی تھی، ان صاحب نے جو اپنے حلقہ احباب میں بہت معتبر بنے بیٹھے تھے اور کچھ لوگ اپنے کمنٹس میں ان کا حوالہ دیتے تھے، بدتمیزی شروع کر دی۔ میں ان کے جملے حذف کرتے ہوئے بس یہ بتانا چاہوں گا کہ میں نے جس قدرعاجزی سے ان سے سوال کیا تھا انہوں نے اتنی ہی درشتگی سے پھٹکار کر رکھ دیا۔ گزشتہ دنوں ایک دوست عبدالعزیز ملک صاحب نے اپنی کتاب عنایت کی، جس کا نام ہے ــ’’اردو افسانے میں جادوئی حقیقت نگاری‘‘ میں یہ کتاب بیٹھا پڑھ رہا تھا کہ ایک اور مجلسی نقاد صاحب گھر تشریف لائے(ویسے ان کے محض تنقیصیرویے کی وجہ سے اکثر احباب انہیں مکھی کہہ کر پکارتے تھے اور اس کی وجہ ابتدا میں بیان کیا گیا حضرت علی ؓ کا قول ہے ) آتے ہی میرے ہاتھ سے کتاب اچک لی۔ کتاب کا نام پڑھا اور زور دار قہقہہ لگایا۔ میرے کچھ دریافت کرنے سے پہلے ہی گویا ہوئے ’’یہ کیا بکواس موضوع ہے، بھلا جادو اور حقیقت کا بھی کوئی تعلق ہوسکتاہے‘‘۔ میں نے بصد احترام کہا کہ جناب صاحبِ مقالہ نے اردو کے بڑے افسانہ نگاروں کے ہاں اس کی روایت کوثابت بھی کیا ہے اور بتانا چاہا ہے کہ یہ اصطلاح (Magic Realism)کس طرح یورپ اور لاطینی امریکہ سے ہم تک پہنچی اور اس کے عملی نمونے کیا ہیں لیکن ان صاحب نے مجال ہے جو میری ایک سنی ہو۔اپنا 10منٹ کا لیکچر سنایا اور مجھے اپنی جانب متوجہ نہ پا کر چلتے بنے۔ ایسا کتنی ہی بار دیکھنے میں آتا ہے کہ جو لوگ نقاد نہیں بھی ہیں صرف اپنی ہانکتے ہیں، کسی ایک نقطے پر اپنا مطمع نظر واضح کیا اور دوسرے کی بات ان سنی کر کے چلتے بنے۔ ایک بارمیرے ایک استادِ محترم نے ایک مشہور شاعر کا قصہ سنایا تھا (نام بالکل درست یاد نہیں شاید وہ احسان دانش تھے)۔ استادِ محترم کہتے ہیں کہ جب وہ شاعر صاحب ایک غزل لکھ کر اصلاح کے لیے اپنے استادِ محترم کے پاس لے گئے تو انہوں نے کہا اسے طاق میں رکھ دواور کل پھر لکھ لاؤ۔ اس بار شاعر صاحب نے اسی غزل کو دوبارہ کہا اور لکھ کر لے گئے، استاد صاحب نے بدستور وہی رویہ روا رکھا۔ جب اس طرح سو بار کے قریب ہوچکاتوشاعر صاحب نے کہا استادِ محترم سے غزل کی اصلاح نہ کرنے کا گلہ کیا۔ استادِ محترم نے کہا کہ اب سب سے نیچے سے اپنی پہلی غزل نکال لاؤ اور آخری بار کہی غزل سے موازنہ کروسارا معاملہ خود سمجھ آجائیگا۔ جب دیکھا تو واقعی دونوں میں خیال اور الفاظ کے چناؤ کا زمین آسمان کا فرق موجود تھا۔ وہ استادِ محترم کی حکمتِ عملی سمجھ گئے اور شکریہ ادا کیا۔

میں اکثر سوچتا ہوں کہ ہمارے تنقیدی رویے، اگر ان میں اعتدال ہو اور مقصد اصلاح اور سمجھانا ہوتو کتنا اچھا ہو؟ ہم کتنے لوگوں کی دل آزاری سے بچ جائیں اور کتنے لوگوں کو راہِ راست پر لا سکیں؟ مجھے کوئی ذاتی رنج و غم نہیں اس کے باوجود میں تنقید کے حوالے سے جن چیزوں کو پڑھ چکا ہوں، جب ان مو ضو عات پر اس حوالے سے لا علم لوگوں کو بات کرتے ہوئے اور اپنی بات منوانے پر مصر دیکھتے ہوئے ، دیکھتا ہوں تو دکھ ضرور ہوتا ہے۔ہمارے رویوں میں اعتدال یقینا نئے لکھاریوں کی حوصلہ افزائی کا سبب بنے گا بلکہ ربطِ باہمی اور خلوص و محبت کی بھی آبیاری ہوگی ۔
M Khurram Yasin
About the Author: M Khurram Yasin Read More Articles by M Khurram Yasin: 5 Articles with 4188 views I am a research scholar of Ph.D Urdu and currently working as Educator. I have written a no of articles, stories and done translations of some famous .. View More