رمضان آگیا

“میں حقوق اللہ تو معاف کر دونگا مگر حقوق العباد معاف نہیں کرونگا-”

رمضان آ گیا رمضان آگیا ہر کوئی چیختا پھر رہا ہے- کہیں دہی بڑوں کے ٹھیلے سجے ہیں کہیں عید کی تیاریاں ہو رہی ہیں انسان جھولی بھر بھر کر نیکیاں سمیٹنے میں لگے ہیں مگر کونسی نیکیاں کسی نے سوچا ہے-؟

سبزی فروٹ کے دام مہنگے کر دو – رمضان میں نہیں کمائیں گے تو کب کمائیں گے؟ چینی پتی کی شارٹیج کر دو- روزے ہیں عوام کو لینی ہی پڑے گی- اشیائے خوردونوش کے نرخ بڑھا دو- کپڑا لتا زیور مھنگا کردو بکری ہو گی سیزن لگاؤ بنگلے بناؤ- مگر کسی نے سوچا ہے امیر کو تو اپنی شان و شوکت برقرار رکھنی ہے وہ تو خریدے گا ہی مگر غریب جنہیں کوئی کیڑے مکوڑوں سے زیادہ ہمیت نہیں دیتا ان پر زندگی کا روزن مزید تنگ ہو جائے گا- تم چینی تو بیچ کر امیر سے پیسے بٹور لو گے مگر قمر غریب کی جھکے گی- بچے غریب کے مریں گے- اتنا ظلم کرنے کے بعد کونسی عبادت قبول ہو گی تمھاری؟

یہ کیسی عبادت ہے یہ کیسا ثواب جسے اکٹھا کرتے ہوئے تم نے کئی زندگیاں جھنم بنا دیں-

غرور و تکبر تو صرف خدا کی صفت ہے تمہیں کیونکر یہ تمکنت راس آئے گی؟ مت بھولو یہ تمھارے روزے فاقوں سے زیادہ ہمیت نہیں رکھتے مت بھولو وہ رب تمھاری عبادتیں تمھارے منہ پر دے مارے گا-
تم نے جھوٹ بولنا نہیں چھوڑا، انسان کو عزت اور برابری دینا نہیں سیکھا دھوکہ دہی سے باز نہیں آئے فتنئہ و فساد پھیلانا نہیں چھوڑا تو 16 یا 20 گھنٹے کی بھوک تمھاری زیادتیوں کا، دوسروں کو دیئےگئے دکھوں کا مداوا کیسے ہو سکتی ہے؟

وہ دن دور نہیں جب تمھارے اعمال تمھارے سامنے کھولے جائیں گے اور تمھاری دکھاوے کی عبادتیں تمھارے منہ پر ماری جائیں تب غریبوں کے دکھوں کا حساب ہو گا مگر ڈرو شاید اس دن سے پہلے تم پر یہ غریب قیامت صغری کی طرح ٹوٹ پڑیں اور تم سے اپنے اک اک نوالے کا حساب کریں—

اجرت میں نہ ہوا اضافہ کام بڑھ گیا
مزدور کا دن تھا امیر کا آرام بڑھ گی

اس عشرت کدے کی رعنائیوں سے بہر نکلو اور اس فیصلے کے دن کی تیاری کرو جس دن دنیا کی شان و شوکت ،مال و متاع،رشوت کچھ کام نہ آئے گا- خود کو اس پیشی کیلئے تیار کرو جو عدالت بہت جلد لگنے والی ہے-

دوسروں کی زندگیوں میں زہر گھولنا بند کرو ورنہ وہ دن دور نہیں جب وقت پلٹا کھا جائے- تم نے اس امیر آدمی کی داستان تو سنی ہو گی جس نے اپنے عالی شان محل کے بڑے سارے دسترخوان کے زعم میں اپنے دروازے پر صدا لگانے والے فقیر کو پیٹ کر وہاں سے بھگا دیا تھا اور قسمت کا پھیر اسے اک دن اسکے اپنے ہی محل کے دروازے پر فقیر کے روپ میں لاتا ہے اور دروازہ کھولنے اسکی سابقہ بیوی آتی ہے اور اس محل اور اس عورت کا مالک اسکی جھولی بھر کر اسے وہاں سے بھیجتا ہے یہ شخص کوئی اور نہیں وہی بھکاری تھا جسے کبھی اس دروازے سے خالی ہاتھ لوٹایا گیا تھا-

اے خودغرضو اور اپنی جھولی بھر کر فٹ پاتھ پر سوئے ہوؤں کو کچلنے والو ہوش کرو اس سے پہلے جب وہ وقت آجائے یا کوچ کا نکارہ بج جائے اور تم اپنی نادانی اور حیرانی میں سوال جواب کرنا بھی بھول جاؤ-

اٹھو میری قوم کے غریبوں کو جگا دو
کاخ امراء کے در و دیوار ہلا دو
 
Farheen Naz Tariq
About the Author: Farheen Naz Tariq Read More Articles by Farheen Naz Tariq: 32 Articles with 34774 views My work is my intro. .. View More