زندگی امتحان لیتی ہے

اس دنیا میں بسنے والے لوگوں میں سے کچھ امیر ترین اور اعلیٰ طبقے سے تعلق رکھتے ہیں۔ جن کو ہر طرح کی سہولیات میسر ہوتی ہیں۔ گرمیوں کے شدید موسم میں ایر کنڈیشنڈ والے ماحول میں دن رات ایسے گزر جاتے ہیں کہ گرمی کا پتہ بھی نہیں چلتا ۔ اسی طرح سردیوں کے موسم میں گیزر ، ہیٹر ز کی سہولت دستیاب ہوتی ہے اور یوں موسم کی شدت کو محسوس کیے بغیر ان کی زندگی گزرتی ہے مگر اس دنیا میں کچھ لوگ ایسے بھی ہیں کہ جن کی زندگی امتحانوں کی شکار رہتی ہے۔ آئے دن نت نئی صورتوں میں ہونے والی آزمائش کے مراحل سے گزرتے ہیں۔ میں ان لوگوں کی بات کر رہا ہوں جن کو غریب طبقے میں شمار کیا جاتا ہے ۔ یہ ایسے لوگ ہوتے ہیں کہ دن بھر محنت ، مزدوری کر کے اپنا اور اپنے بیوی بچوں کا پیٹ پالتے ہیں۔اور اگر ایک دن مزدوری نہ ملے تو ان کا گزارہ مشکل ہو جاتا ہے۔ایسے مزدور اور محنت کش لوگوں کو اگر کوئی آزمائش یا نقصان کا سامنا کرنا پڑے تو ان کا جینا مزید دشوار ہوجاتا ہے۔

ناصر بھی ایسے ہی لوگوں میں شمار ہوتا ہے۔ ابھی زیر تعلیم تھا کہ والد کی وفات کا صدمہ اٹھانہ پڑا جس کی بناء پر مزید تعلیم جاری نہ رکھ سکا اور محنت مزدوری کرنا شروع کردی۔ شادی ہونے پر اﷲ پاک نے پھول جیسا بیٹا عطا کیا جو کینسر کی بیماری کی وجہ سے زیادہ دن آنکھوں کی ٹھنڈ ک نہ بن سکا اور ناصر کی کپڑے سلائی کی دن رات کی محنت و مشقت سے کمائی ہوئی ساری جمع پونجی کے علاوہ دوستوں سے ادھار لے کر بھی علاج پر خرچ ہونے کے باوجود ٹھیک نہ ہوا ا ور روتے ہوئے ناصر کو چھوڑ کر ہمیشہ کے لیے تمام بیماریوں سے نجات پاکر اﷲ کو پیارا ہو گیا۔الغرض خدا کی مرضی کے آگے سر جھکانہ پڑا اور ناصر نے دوبارہ کپڑے سلائی پر دن رات محنت شروع کر دی ۔ کچھ ہی مہینوں میں ناصرنے دن رات کی محنت کی بناء پر دوستوں ، رشتہ داروں سے ادھار لے کر بچے کے علاج پرلگائے ہوئے پیسے لوٹا دیے ۔اور مسلل محنت کی وجہ سے ناصر کا گھر کا چولہا جلنے لگا۔

ابھی کچھ ہی مہینے گزرے تھے کہ مٹھو نامی شخص نے اپنے معصوم بھانجے کو قتل کر کے الزام غریب ناصر پر لگا دیا ۔ مٹھو اسی گاؤں میں رہتا تھا جس کا ذہنی توازن درست نہیں تھا۔ پولیس کو بار بار اپنی بے گناہی کی دہائی دینے کے باوجود ناصر ایک نہ سنی گئی اور حوالات میں بند کر دیا گیا۔گاؤں کے لوگوں نے بھی متعدد بار ناصر کی بے گناہی کے لیے پولیس کو بیان ریکارڈ کروائے مگر شایدخدا کو منظور نہیں تھا یا ابھی ناصر کا امتحان باقی تھا۔ساڑھے چار مہینوں بعد خدا خدا کر کے رہائی ملی ناصر اپنے بیوی بچوں کے درمیان ایک مرتبہ پھر یوں تھا کہ ایک پیسہ بھی جیب میں نہیں تھا بلکہ ادھار لے لے کر ناصر کی رہائی کے لیے پیسے خرچ ہوتے رہے۔اب ایک مرتبہ پھر ناصر بالکل یوں چکا تھا کہ غربت کی انتہا تھی اور پیٹ بھرنے کے لیے نوالہ میسر نہ تھا۔ناصر نے ایک با ر پھر خدا کی مرضی کے سامنے سر جھکایا اور صبر شکر کر کے دن رات ایک کر دیا اور رات گئے تک کپڑے سلائی کرتا رہتا۔ اور ایک سال کی محنت کے بعدسارا قرضہ اتار دیا۔ناصر شروع سے ہی بہت محنتی تھا مگر آئے دن امتحانوں کی وجہ سے پریشان رہتا تھا۔ شاید کچھ لوگوں کی قسمت میں ہی امتحان اور آزمائشیں زیادہ ہوتی ہیں۔اور ایسے لوگ ایک امتحان سے خدا خدا کر کے نکلتے ہیں تو دوسرا امتحان آ گھیرتا ہے ۔ ناصر کی قسمت بھی کچھ ایسی ہی معلوم ہوتی ہے۔
اپنے گزشتہ سارے دکھ بھلا کر دن رات کپڑے سلائی کی محنت پرپھر سے زور دے دیا اور اس کے علاوہ اگر سلائی کام کم ہوتا تو کوئی بھی دوسرا مزدوری کا کام ہاتھ سے جانے نہیں دیتا۔ناجائز مقدمے سے رہائی ملے ہوئے تقریبا دو سال کا عرصہ بیت چکا تھا۔ناصر کا اچھا گزر بسر ہورہا تھا اور کام ، کام اور کام کو اس نے اپنا اصول بنایا ہوا تھا۔اور دوستوں ، رشتہ داروں اور سیر و تفریح کے لیے جانے کی بجائے ناصر اپنے کام پر توجہ دیتا اور ہر وقت کپڑے سلائی میں ہی لگا رہتا۔گزشتہ دنوں ایک قریبی رشتہ دار کی شادی کی پارٹی میں شرکت کرنے کے لیے اسے اپنے قریبی رشتہ دار کے گھر گیاجانا پڑا۔شادی کا پروگرام روائتی شادیوں کی طرح مہندی ، بارات ، ولیمہ کے الگ الگ انتظانات پر مشتمل تھا اور تقریبا ً تین دن تک جاری رہنا تھا۔ ناصر اپنی فیملی کے ہمراہ شادی والے گھر پہنچا تو رشتہ داروں اور دوستوں سے مل کر بہت خوش ہوا۔ شادی کے اس پروگرام میں ناصر راحت محسوس کررہا تھا کیونکہ کافی عرصے بعد وہ گھر سے نکلا تھا۔دوستوں اور رشتہ داروں کو بھی ناصر سے ایک طویل عرصے بعد ملاقات کر کے بہت اچھا لگا۔مہندی اور بارات کے فنگشن مکمل ہو چکے تھے اور ولیمہ باقی تھا۔ ولیمے والی صبح ناصر کی آنکھ فون کی گھنٹی بجنے سے کھلی۔فون سننے پر ناصر افسردہ ہوگیا اور اس کے چہرے پر پریشانی کے واضح اثرات دکھائی دے رہے تھے۔رشتہ داروں کے پوچھنے پر ناصر نے بتایا کہ اس کی کپڑے سلائی والی دوکان کا تالا توڑ کر کپڑوں سمیت دیگر سامان چوری کر لیا گیا ہے۔ ناصر کو شادی کا فنکشن ادھورا چھوڑ کر افسردہ حالت میں جانا پڑا۔گاؤں پہنچ کر ناصر سیدھا دوکان کی طرف گیا اور دوکان کی حالت دیکھنے پر معلوم ہوا کہ اس کی دوکان سے تین درجن کے قریب سلے ہوئے تیار سوٹوں سمیت کل 45 سوٹ ، استری ، ٹی وی اور دیگر سامان چوری ہوچکا تھا۔ناصر ایک بار پھر ایک بڑی آزمائش کی زد میں آچکا تھا۔اس نے نقصان کی رپورٹ مقامی پولیس چوکی میں درج کروائی گئی مگر واقعے کے چھ ماہ گزرنے کے باوجود ابھی تک کوئی سراغ نہیں لگایا جا سکا۔
Malik Muhammad Shahbaz
About the Author: Malik Muhammad Shahbaz Read More Articles by Malik Muhammad Shahbaz: 54 Articles with 39985 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.