خدا نے مرد اور عورت کو ایک ہی پیٹ سے پیدا
کیا. مرد کو اگر جسمانی طاقت دی تو عورت کو قوت برداشت کی طاقت سے نوازا.
عورت کو اگر ماں بنایا تو جنت اسکے قدموں میں رکھ دی. بیٹی بنایا تو رحمت
بنا دیا. بیوی بنایا تو جسم کا حصہ بنا دیا. غرض ہر رشتے میں زندگی کے ہر
موڑ پہ عورت کی اہمیت اجاگر کی. اسلام سے پہلے زمانہ جایلیت میں عورت کو
زندہ جلا دیا جاتا یا پھر دفن کردیا جاتا تھا. اسلام نے اس تصور کو ختم کیا.
اسلام نے عورت کو اوج ثریا عطا کیا. اسکے حقوق متعین کیے. جائیداد سے لیکر
گھریلو،کاروباری معالات میں اسکی حدیں اور حصہ قائم کیا. شرعی اور قانونی
حصہ. جس سے اسے کوئی بھی جدا نہیں کرسکتا. زندگی میں شادی تک کے معاملات
میں بھی عورت کی ذاتی مرضی کو اہم قرار دیا. مگر آدم کے دور سے لیکر آج تک
ہر دور میں بنت حوا اپنے حقوق کیلئے لڑتی آئی ہے. عورت کو حقوق دینے کی بات
تو ہر دور میں کی گئی. قانون بنائے گئے مگر عمل کبھی بھی نہ ہوسکا. جب جب
ابن آدم کو موقع ملا اس نے عورت پہ وار کیا. خود کو اسکا حکمران ظاہر کیا.
اس کے حقوق ہڑپ کرنے میں کوئی کسر نہ چھوڑی. چاہے وہ 19ویں صدی کی عورت ہو
یا پھر آج کی ہر دور میں مرد نے خود کو عورت سے برتر ثابت کرنا چاہا.
پاکستان کا نام چونکہ اسلامی جمہوریہ پاکستان ہے تو اسکا نام سن کے ہی ایسا
لگتا ہے کہ یہاں اسلامی نظام رائج ہوگا. اسلام میں عورت کا جو مقام ہے وہ
پاکستان کی عورتوں کو حاصل ہوگا. مگر ہائے افسوس یہ صرف نام ہی اسلامی
جمہوریہ پاکستان ہے. اسلامی قانون جیسا کوئی بھی قانون یہاں نہیں چلتا.
یہاں آج بھی عورت کو غیرت کے نام پر قتل، جنسی زیادتی، تشدد، تیزاب ڈالنا،
اور زندہ جلانے کے واقعات اب معمول بنتے جارہے ہیں. اگر پچھلے تین ماہ کا
ریکارڈ اٹھا کے دیکھ لیں تو ان 3 ماہ میں زندہ جلا دینے کے واقعات رپورٹ
ہوئے جسے خاص طورپر میڈیا نے بہت زیادہ کوریج کیا. اپریل میں ایبٹ آباد میں
ایک جرگے نے فیصلہ کرکے 15 سالہ لڑکی کو زندہ جلا دیا. لڑکی نے اپنی دوست
کی پسند کی شادی کرانے میں مدد کی تھی اس معاملے کو میڈیا نے بہت زیادہ
رپورٹ کیا کہ شاید کوئی اعلی احکام اسکا نوٹس لیں اور جرگے کے قانون کو ختم
کریں لڑکی کے قاتلوں کو گرفتار کریں. میڈیا چیختا رہ گیا مگر اس دل سوز
واقع پر بھی کسی کی آنکھ نہ کھلی. ایک معصوم لڑکی اپنوں کے ہی فیصلے سے موت
کے گھاٹ اتار دی گئی. اس واقعہ کو ابھی چند ہی دن گزرے تھے کہ ایک اور
افسوس ناک سانحہ پیش آیا. پنجاب کے علاقے مری میں ایک سکول ٹیچر کو شادی سے
انکار کرنے پر کچھ لڑکوں نے اغوا کرنے کے بعد زندہ جلا دیا. جائے حادثہ پر
ہی لڑکی کا جسم 80 سے 85% مکمل طورپر جھلس چکا تھا. لڑکی نے اپنی آخری
سانسیں ہسپتال میں لیں. یوں ایک اور لڑکی درندگی کا شکار ہوکر موت کی آغوش
میں جا سوئی. قاتل کوئی پیشہ ور قاتل نہیں تھے. نو عمر لڑکے تھے جن کی عمر
ابھی پڑھائی کی تھی. لڑکی نے شادی سے انکار کیا تھا جسکا بدلہ لڑکے نے
دوستوں کیساتھ ملکر جان لیکر لیا. ابھی اس پر تحقیقات جاری تھی کہ پولیس
معاملہ کی تہہ تک بھی نہیں پہنچ پائی تھی ایک اور دلخراش حادثہ ہوگیا.
پنجاب کے دارلحکومت لاہور میں سگی ماں نے اپنے ہی ہاتھوں سے ماہ رمضان کے
بابرکت مہینے میں اپنی بیٹی کو زندہ جلا دیا. وہ ماں جو اپنی اولاد کو چوٹ
تک نہیں لگنے دیتی. 9 ماہ اپنے پیٹ میں رکھ کر اپنے خون سے پالتی ہے وہی
قاتل بن گئی. لڑکی کا قصور کیا تھا کہ اس نے والدین کی مرضی کے خلاف شادی
کی تھی. اور ایک ہفتے بعد اپنی والدہ سے ملنے کیلئے گھر آئی تھی. یہ ماہ
اپریل،مئی اور جون میں اب تک لڑکی کا زندہ جلا دینے کا تیسرا بڑا واقعہ ہے.
دیگر ایسے کئی واقعات ہوئے ہونگے جو میڈیا کی نظر سے اوجھل ہونگے. ان تینوں
حادثات میں کہیں نہ کہیں کسی سرے سے شادی ضرور جڑی ہے. زیادہ تر غیرت کے
نام پر قتل کے واقعات بھی کچھ انہی پہلوں کی طرف اشارہ کرتے ہیں. آج ہمارے
معاشرے میں جہاں بے پناہ مسائل ہیں وہیں ایک مسلہ شادی بھی ہے. آج ہمارے
گھروں میں شادی کے واقعات پر بحث تو کی جاتی ہے مگر اس معاملے میں کبھی بھی
اولاد کو اعتماد میں نہیں لیا جاتا. انکی پسند نا پسند کو کوئی اہمیت نہیں
دی جاتی. خود کو ماڈرن ظاہر کرنے والے بھی ان معاملات کو اولاد کو دور ہی
رکھتے ہیں. جسکا نتیجہ پھر ایسے حادثات کی صورت میں نکلتا ہے.مگر اس کے بعد
سزا کی مستحق صرف عورت ہوتی ہے.
ایسا تو اب معلوم بن گیا ہے یہ واقعات تو ہماری زندگی کا حصہ بن چکے ہیں.
ہمیں ان واقعات کی اس قدر عادت ہوچکی ہے کہ اب ہمیں ایسے واقعات پڑھنے یا
سننے سے کوئی فرق نہیں پڑتا. نہ آنسو نکلتے ہیں نہ دل دکھتا ہے. سن سن کے
دل پتھر کے ہوگئے. یہ سب تو اب قانون بنتا جارہا ہے. پہلے پہل تیزاب
پھینکنے کا عمل رواج پایا. پھر جنسی زیادتی ایک عام سی آئے روز کی خبر ہونے
لگی. اس کے بعد غیرت کے نام پر قتل کا ٹرینڈ چل نکلا. اور اب عورت کو زندہ
جلا دینے کا قانون. یہ سب رواج بن کر ہمارے معاشرے کا حصہ بنتا جارہا ہے.
ایسے معاملات میں زیادہ تر مجرم وہ لوگ ہوتے ہیں جن سے ہمارا قریبی تعلق
ہوتا ہے. یعنی کہ،
"اپنے ہی گراتے ہیں نشیمن پر بجلیاں"
ایسے واقعات میں سب سے بڑا قصور ہمارے وڈیرا اور جاگیردرانہ نظام کا ہے. آج
بھی ہمارے اسلامی ملک پاکستان میں جنگل کا قانون رائج ہے جسکے حکمران ہمارے
نام نہاد مرد ہیں اور مجرم ہمیشہ عورت. جسے انصاف تو کبھی بھی نہیں ملتا
مگر سزا سب سے پہلے اسے دی جاتی ہے.
ہم ہر معاملے میں اپنی غلطی کا الزام دوسروں کے سر پر ڈالنے میں ذرا بھی
نہیں کتراتے. ایسے واقعات میں بھی اگر ہم حکومت کو کوسیں انتظامیہ کا رونا
روئیں تو وہ پنجابی کی کہاوت
"جیندیاں نوں ڈانگاں تے مویاں نوں بانگاں" دینے والا معاملہ ہے. ایسے مسلے
ہمارے گھریلو مسلے ہیں. اس میں اگر کچھ فقدان ہے تو وہ ہمارے پرورش اور
ہماری سوچ کا. اگر گھر سے ہی عورت کو عزت دینے کی بات سکھائی جائے اسے حقوق
دیے جائیں تو ایسے واقعات ہوں ہی نہ. اگر ایک بیٹے کو پسند کی شادی کی
اجازت ہے تو بیٹی کو بھی حق دیا جائے مگر اسے اسکی حدیں بتاتے ہوئے. دوسرا
ہماری حکومت کو چاہیے کہ ملک سے یہ جنگل کا قانون ختم کرے. جس میں عورت کو
ونی کرنے سے لیکر زندہ جلا دینے تک کے فیصلے بھی خوش اسلوبی سے کیے جاتے
ہیں. حکومت اور انتظامیہ ذرا پاناما اور ٹی او آرز کے جھگڑوں سے نکل کر ان
پر بھی نظر ثانی کرے اور ان قاتلوں کو سخت سے سخت سزا دے. جو عورت کے تحفظ
کیلئے قانون بنائے گئے ان پر عمل درآمد کرائے تو ممکن ہے آئندہ ایسے واقعات
سے بچا جا سکے. پاکستانی عورت کی عزت اور نام اچھال کر آسکر لینے والے بھی
ذرا کوئی تحفظ حقوق نسواں پر توجہ دیں تو کیا ہی بات ہے. ورنہ یہی وہ لوگ
ہیں جو اس طرح کے کردار دکھا کے ہمارے منفی ذہنوں کو اور زیادہ بھڑکاتے ہیں
اور انہیں نئی نئی راہیں دکھاتے ہیں. |