صدائے احتجاج

یوں تو گلگت بلتستان میں روز اول سے ہی فرسودہ نظام کے ذریعے گلگت بلتستان کے عوام کو بھیڑ بکریوں کی طرح ہانکا گیا ہے جس باعث جی بی کے عوام اس جدید دور میں بھی بنیادی انسانی حقوق سے محروم پسماندہ ہیں یہاں یہ کہنا بھی ضروری ہے کہ عوام کو اس حال تک پہنچانے میں عوامی چناؤ سے منتخب سیاستدان بھی برابر کے شریک ہیں حیرت اس بات کی ہے کہ عوام لاڑکانہ،رائیونڈ اور بنی گالہ کے نعرے مسلسل لگارہے ہیں حقیقت اور سچائی کڑوی ضرور ہوتی ہے مگر ذہنی بالیدگی کے ساتھ ساتھ آشکار ہو ہی جاتی ہے کہنے کا مطلب یہ ہے کہ وفاقی جماعت کا نمائندہ آپ کا کتنا بھی قریبی کیوں نہ ہو وہ ہمارا نمائندہ نہیں ہوسکتا ہے وہ جی بی کا نمائندہ کبھی نہیں بن سکتا ہے وہ اس لیئے کہ وہ ایک تیار شدہ منشور کے اندر آنکھیں میچ کر چھلانگ مارتا ہے حالانکہ اسے یہ بھی جانکاری ہے کہ اس منشور میں علاقے کا کوئی مفاد نہیں۔گزشتہ حکومت پاکستان کی بدترین حکومت رہی ہے اُس دور میں نام نہاد اسمبل میں کتنے قانون پاس ہو کر عوام کو فائدہ پہنچا۔مگر ارکان اسمبل ذاتی مفادات کی خاطر سب کچھ دیکھتے ہوئے خاموش رہے کسی میں بھی صدائے احتجاج کرنے کی ہمت نہیں ہوئی۔ یہی حال موجودہ حکومت کا بھی ہے بس انداز بدلا ہوا ہے۔تواریخ میں یہ ذکر بدرجہ اتم موجود ہے جب بھی کہیں تبدیلی آئی ہے تو اس دھرتی کے وفاداروں کی وجہ سے آئی ہے ہر کوئی بے ضمیر نہیں ہوتا ہے،ہر کوئی وطن فروش نہیں ہوتا ہے اس دھرتی میں غیرتمند بھی موجود ہیں جو عوام کا درد رکھتے ہیں جو عوامی توقعات کا احساس رکھتے ہیں جو اس سرزمین کے وفادار ہیں وہ غریب سہی مگر قوم کا سپوت ہونے کے ناطے ذاتی مفادات کو بالائے طاق رکھ کر لٹیروں کے سامنے ببانگ دہل عوام کی ترجمانی ضرور کرتے ہیں۔آج یہی کچھ ڈپٹی اسپیکر نے کیا جو جی بی کی تاریخ کاایک انمٹ حصہ بنا ہے۔حالانکہ ڈپٹی اپیکر کی بہت بڑی ذمہ داری بنتی ہے اپنی جماعت کے لحاظ سے بھی اس کے باوجود اپنی ہی پارٹی کی ناقص کارکردگی کو بے نقاب کر کے یہ دکھا دیا وہ واقعی عوامی نمائندے ہیں لوٹ مار اور فریب کے بازاار کو تالہ بندی کا اعلان کر کے ایک اہم کارنامہ سر انجام دیا ہے۔ڈپٹی اسپیکر نے اعوان میں موجود نمائندوں کے مردہ ضمیر کو بھی جھنورا ہے۔سوال یہ ہے آیا عوا م وٹ کے ذریعے جس نمائندے کو اسمبلی تک پہنچاتی ہے کیا وہ فقط اپنے لوازمات کے حصول میں بے خبر رہے یا عوام کی بھی کچھ خبر لے آج تک تو ہر آنے والے نے اپنا ہی سوچا ہے۔افسوس اس بات کا ہے کہ فرزند گلگت بلتستان نواز خان ناجی کی نقش قدم پر ارکان اسمبلی بھی چلتے تو آج جی بی کے عوام بھی ایک باوقار قوم کی طرح پہچانے جاتے۔یہ حقیقت ہے کہ وفاقی پارٹیوں کے دم چھلہ بننے سے کبھی بھی عوامی سطح پر تبدیلی آنی نہیں ہے،سب کچھ ہمارا ہوتے ہوئے بھی ہمیں بکاری بنا رکھا ہے۔اس وقت دونوں تاریخی کوہلوں میں پانی نہ ہونے کی بنا پر خشک ہوچکی ہیں لوگوں کی فصلیں تباہ ہیں کوئی پوچھنے والا نہیں بجلی کے نظام میں شہباز شریف کا فارمولہ چل رہا ہے،کرپشن،اقرباپروری عروج پر ہے بیڈ گورننس کی داستان لمبی ہے اور ہمارے عوام بھی ووٓٹ دینے کے بعد لمبی تان کر سوئے پڑے ہیں ووٹ دینا کمال نہیں بلکہ زندوں کی صف میں شامل ہو کر نمائندے کا گریبان پکڑ کر کام نکالنے کا گُر بھی عوام کو آناچاہئے۔ایک جانب عوامی پشتنی اراضی پر قابض ہونے کی کوششیں ہورہی ہیں یاد رکھیں جب علاقہ متنازعہ ہے تو یہاں کی ہر چیز بھی متنازعہ ہے اگر اندر کے غدار شامل منہ ہوں تو کسی کی مجال نہیں کی ایک درخت کی شاخ بھی کوئی اپنی مرضی سے کاٹے،ہمارے ہر مسلے کا حل سٹیٹ سبجیکٹ رول ہے اب وقت آگیا ہے کہ اس کی بحالی کے لئے جدوجہد کی جائے بصورت دیگر ایرے غیرے آپ پر قابض اور حاکم بنتے جائیں گے۔جس باعث ہم تنزلی کا شکار ہونگیں اس لیئے سٹیٹ سبجیکت رول کی آواز اس اعوان میں اُٹھنی چاہئے، اور یہ بات بھی سچ ہے کہ ہماری باہمی دوری کی وجہ سے ہمارے ساتھ کھلواڑ کھیلا جارہا ہے۔جب کہ ہمارے مفادات یکسان نقصان بھی ایک ہے ہمارا جینا امرنا ایک ہی ہے جو بھی تقسیم کی بات کرتا ہے وہ ہمارا دشمن اور اغیار کا ایجنٹ ہے،گلگت بلتستان کی اپنی تاریخی ایک حیثیت ہے۔ہماری آزادی میں کسی اور کا ناخن بھی نہیں کٹا ہے،درد،کرب اور تکلیف سے ہم گزر رہے ہیں غیر یہاں آکر عیش کر رہے ہیں۔اب بھی وقت ہے اگر ہم قومی سطح پر ایک ہوئے، متحد ہوئے تو ہماری بقاء ہے ہم ہی نے یہی پیدا ہونا ہے اور یہی مرنا ہے لہٰذا ذمہ داری ہماری بنتی ہے کہ ہم آنے والی نسلوں کے لئے ایک صاف شفاف راہ کاتعین کریں،نہ ہم کسی کے قرضدار ہین نہ کوئی سیاسی مزدور اگر کسی کو سیاسی مزدوری کا شوق ہے تو وہ وہاں جا کر کرے یہاں کے سادح لوح عوام کو استعمال نہ کرے آج جعفر اﷲ نے جو آواز اُٹھایا ہے ہم سب کو اس آواز کا حصہ بننا چاہئے ،آزمائش شرط ہے ایک مرتبہ گلگت بلتستان کو ووٹ دے کر تو دیکھیں کتنی تبدیلی آتی ہے وفاقی جماعتوں کو تو اب تک آزماتے ہوئے آئے ہیں۔جو بھی قومی مشترکہ مفادات کی بات کریگا،جو بھی باضمیر ہوگا اس کا ساتھ دینا ہم سب کا فریضہ ہے۔اب ہمیں بیدار ہو کر فیصلے کرنے کی ضرورت ہے اور ڈور کو اپنے ہاتھ میں رکھنے کی شدت سے ضرورت ہے،ہم سب کو حصہ بقدر جُسہ دھرتی کی تعمیر و ترقی میں اپنا اپنا کردار ادا کرنا ہوگا،پروردگار عالم ہم سب کو ایک باوقار قوم بننے کی توفیق عطا فرمائے(آمین)
Yousufali Nashad
About the Author: Yousufali Nashad Read More Articles by Yousufali Nashad: 18 Articles with 19132 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.