مار پیٹ

اسلامی نظر یاتی کونسل نے ایک نئی بحث شروع کرادی ہے،یہ در اصل پنجاب اسمبلی کے حقوقِ نسواں بل کا رد عمل ہے،یہ مسئلہ اس وقت اقوامِ متحدہ کے ایجنڈے میں بھی شامل ہے،اس حوالے سےاسلامی نقطۂ نظر کیا ہے،یہ ہم نےیہاں مختلف مصادر ومراجع سے نچوڑ کر نہایت اختصار کے ساتھ ذیل میں پیش کرنے کی کوشش کی ہے:
’’مرد عورتوں پر حاكم ہيں اس وجہ سے كہ اللہ تعالى نے ايك كود وسرے پر فضيلت دى ہے، اور اس وجہ سے كہ مردوں نے اپنے مال خرچ كيے ہيں، پس نيك و فرمانبردار عورتيں خاوند كى عدم موجودگى ميں اللہ كى حفاظت سے نگہداشت ركھنے والياں ہيں، اور جن عورتوں كى نافرمانى اور بددماغى كا تمہيں خوف ہو انہيں نصيحت كرو، اور انہيں الگ بستروں پر چھوڑ دو، اور انہيں مار كى سزا دو، پھر اگر وہ تابعدارى كريں تو اِن کے خلاف كوئى راستہ تلاش نہ كرو، بے شك اللہ تعالى بڑى بلندى والاہے اور بڑائى والا ہے‘‘۔النساء ( 34 (۔
يہاں اس پر متنبہ رہنا چاہيے كہ نہ تو کسی آيت سے اور نہ ہى کسی حديث سے يہ سمجھا جا سكتا ہے كہ ہمارى شريعت ميں بيويوں كو مارنا مستحب ہے، بلكہ نہ مارنا افضل ہے، اور مار كے علاوہ دوسرے وسائل تلاش كرنا ہى بيوى كى نافرمانى كا علاج ہے، بلكہ شريعت ميں تو مار كے بھى قواعد و ضوابط ہيں،یہاں آیت میں جس مار کا ذکر ہے ،اباحت کے لئے ہے،شریعت نے احادیث کی روشنی میں اس کی تفصیلات بیان فرمادی ہیں،ان تمام روایات سےمعلوم ہوتا ہے کہ اس سے علامتی مار مراد ہے، جیسے کوڑے مارنے میں بھی صرف علامتی مار ہوتی ہے۔چنانچہ اس مسئلے میں اصل حکم یہ ہے کہ بیوی پر ہاتھ نہ اٹھائے، جیسا کہ اللہ کے رسول ﷺ کے بارے میں مروی ہے کہ آپ ﷺنے کبھی بھی نہ تو اپنی کسی بیوی پر ہاتھ اٹھایا اور نہ ہی کسی خادم کو مارا۔ [صحیح مسلم] گویا سنت کا اہتمام کرنے والوں کے لیے تو اسوہ حسنہ یہی ہے۔
اسی طرح ایک اور روایت کا مفہوم یہ ہے کہ آپ ﷺنے صحابہ کو حکم دیا کہ اپنی بیویوں پر ہاتھ مت اٹھاؤ۔ تو کچھ عرصہ بعد حضرت عمر ؓ آگئے اور کہا کہ اے نبی کریم ﷺ، آپ کے اس حکم کی وجہ سے بہت سی عورتوں نے اپنے شوہروں پر چڑھائی شروع کر دی ہے۔ تو آپ ﷺنے اپنا حکم واپس لے لیا۔ پھر کچھ ہی عرصہ بعد بہت سی خواتین ازواج مطہرات کے پاس اپنے شوہروں کی شکایات لے کر جمع ہو گئیں،آپ نے خطبہ دے کر صحابہ ؓسے ارشاد فرمایا، جن کی عورتیں میرے پاس ان کی شکایات لے کر آئی ہیں، وہ اچھے لوگ نہیں ہیں۔ (سنن ابو داود)۔پتہ چلااللہ کے رسول ﷺ نے ان لوگوں کو پسند نہیں فرمایا ، جو اپنی بیویوں پر ہاتھ اٹھاتے ہوں۔

پس قرآن مجید میں جو بیویوں کو مارنے کی اجازت ہے تو اس کا ایک معنی تو یہ ہے کہ اگر خاوند اپنی بیوی پر نشوز (نافرمانی) کی صورت میں ہاتھ اٹھا لے، اگرچہ اسے حکم یہی ہے کہ وہ ہاتھ نہ ہی اٹھائے، لیکن اگر اٹھا لے، تو خاوند سے قصاص نہیں لیا جائے گا۔ شان نزول کی روایات میں موجود ہے کہ ایک صحابیؓ نے اپنی بیوی کے نشوز پر انہیں تھپڑ دے مارا تو وہ اپنے والد کے ساتھ آپ کی خدمت میں آئیں تو آپ نے کہا کہ خاوند سے قصاص لیا جائے ،لیکن اس پر اللہ عزوجل نے یہ آیات نازل فرما دیں ،تو آپ نے فرمایا کہ ہم نے کچھ ارادہ کیا تھا اور اللہ عزوجل نے کچھ اور چاہا۔(تفسیر قرطبی، تفسیر ابن کثیر)۔

دوسری بات یہ ہے کہ بیوی پر ہاتھ اٹھانے کی اجازت عمومی (general) نہیں بلکہ استثنائی (exceptional) ہے کہ صرف ان عورتوں پر ہاتھ اٹھانے کی اجازت دی گئی ہے کہ جن میں نشوز یعنی سرکشی اور بغاوت ہو۔ قرآن مجید گھر کے ادارے میں مرد کی حاکمیت کو برقرار رکھنا چاہتا ہے کہ وہ گھر کا سربراہ اور اولاد کا مربی ہے۔ اور اگر عورت، مرد کی اس حاکمیت کو قبول نہ کرے اور اس کے بالمقابل کھڑی ہو جائے تو اسے نشوز کہتے ہیں اور یہ خاندان، اولاد اور نسل سب کچھ تباہ کر دینے کے مترادف ہے۔ جس گھر میں عورت کا نشوز ہو گا، وہاں اولاد کبھی اپنے باپ کی فرمانبردار نہیں ہو سکتی بلکہ اس کی عزت تک نہیں کرے گی۔

تیسری بات یہ کہ ہاتھ اٹھانے کی بھی اجازت ہے، حکم نہیں ہے جیسا کہ حالت احرام سے نکلنے کے بعد کہا کہ "فاصطادوا" یعنی شکار کر لو۔ اب اس کا مطلب یہی ہے کہ اگر کوئی احرام سے نکلنے کے بعد شکار کر لے تو گناہ اور کفارہ نہیں ہے۔ اس کا یہ مطلب تھوڑی ہے کہ ادھر سے حاجی یا معتمراحرام سے نکلے، اور ادھر سے بندوقیں پکڑ کر ،چالیس لاکھ کا مجمع شکار پر نکل کھڑا ہو۔ اور آخری بات یہ ہے کہ یہ اجازت بھی آخری درجے میں دی گئی تا کہ ایک چھوٹے ضرر کو قبول کر کے ایک بڑے ضرر سے بچا جا سکے اور وہ بڑا ضرر طلاق کا ضرر ہے۔ واللہ اعلم۔

معاشرے میں جو لوگ بیویوں ،خادموں،ماتحتوں،کمزوروں،قیدیوں،ملزموں،طلبۂ کرام یاکسی پر بھی ہاتھ اٹھاتے ہیں ،یا قسم قسم کی خطرناک سزائیں دیتے ہیں،بمباریاں،ڈرون حملے اور ٹارگٹ کلنگ کرتے ہیں،وہ قرآن مجید پڑھ کر یہ اقدامات نہیں اٹھاتے، مشرق ومغرب میں عام انسانی معاشرہ ویسے ہی اخلاقی طور پر بہت گرا ہوا ہے،مسلم یا غیرمسلم سب ہی تباہ ہوچکے ہیں، لہذا ان مظلام کو ختم کرنے کے لیے عالمی سطح پراخلاقی تربیت کی ضرورت ہے نہ کہ قرآن مجید کو تبدیل کرنے کی۔
 
Dr shaikh wali khan almuzaffar
About the Author: Dr shaikh wali khan almuzaffar Read More Articles by Dr shaikh wali khan almuzaffar: 450 Articles with 816889 views نُحب :_ الشعب العربي لأن رسول الله(ص)منهم،واللسان العربي لأن كلام الله نزل به، والعالم العربي لأن بيت الله فيه
.. View More