تکبر ، حسد اور ہماری زندگی
(Muhammad Jawad Khan, Havelian)
کائنات کا سب سے پہلا گناہ حسد تھا جو
ابلیس نے آدم علیہ السلام پر کیا (تفسیر عزیزی) اور اس سے یہ سبق ملتا ہے
کہ تکبر اور حسد کا مرض اچھے اچھے لوگوں کو لاحق ہو سکتا ہے اور انہیں
ایمان تک سے محروم کر سکتا ہے، شیطان بڑا عبادت گزار تھا ، ابلیس نے سات
لاکھ سال اﷲ تعالیٰ کی عباد ت کی تھی لیکن اس نے اپنے آپ کو بڑا سمجھا اور
آدم علیہ السلام کے مقام و مرتبہ کو دیکھ کر جل بھن گیااور اسی چیز نے اُسے
بارگاہ ِ الہٰی میں مردود اور مغضوب بنا دیاچنانچہ حکم ہوتا ہے کہ :" اور
پھر دیکھو جب ایسا ہوا تھا کہ ہم نے فرشتوں کو حکم دیا تھا کہ آدم کے آگے
سر بسجود ہو جاؤ وہ جھک گئے مگر ابلیس کی گردن نہیں جھکی اس نے نہ مانا اور
گھمنڈ کیا اور حقیقت یہ ہے کہ وہ کافروں میں سے تھا" (سورۃ البقرہ) ۔ شیطان
کے اندر غرور و تکبر تھا اور اسکا مقصد تھا کہ میں آدم سے افضل ہوں اس لئے
کہ مجھے آگ سے بنایا گیا اور آگ ہمیشہ بلند ی اور رفعت چاہتی ہے اورآدمِ
مخلوق ِ خاکی،بھلا خاک کو آگ سے کیا نسبت۔۔۔؟؟؟ اے خدا پھر یہ حکم کہ ناری
خاکی کو سجدہ کرے کیا انصاف پر مبنی ہے۔۔۔؟؟؟ میں ہر حالت میں آدم سے بہتر
ہوں لہذا وہ مجھے سجدہ کرے نہ کہ میں اس کے سامنے سر بسجود ہوں۔ مگر بدبخت
شیطان اپنے غرور و تکبر میں یہ بھی بھول گیا کہ دونوں خدا کی مخلوق ہیں اور
مخلوق یہ نہیں جانتی کہ کون افضل ہے اور کون نہیں۔۔۔؟؟؟ غرور و تکبر عقل پر
پردہ ڈال دیتے ہیں یہاں تک کہ بعض اوقات متکبر انسان اﷲ تعالیٰ کے مقابل
بھی آجاتاہے، فرعون، قارون ، ہامان اور شہداد جیسوں کو تکبر ہی نے اپنے
خالق و مالک کے مقابلے میں لا کھڑا کیا تھا اور یہ ایسا خبیث اور دقیق مرض
ہے کہ بسا اوقات انسان اس میں مبتلا ہوتا ہے لیکن اسے پتہ ہی نہیں چلتا کہ
میں اس مرض میں مبتلا ہوں، بہت سارے لوگ ہیں جو اپنے آپ کو خاکسار ، عاجز ،
لاشی ، حقیر اور فقیر کہتے ہیں حالانکہ ان کے باطن میں تکبر کے جراثیم ہوتے
ہیں۔ صوفیاء کہتے ہیں کہ بڑی کٹھن ریاضتاور عبادت کرنے والوں اور اپنی
اصلاح اور باطن کے تزکیہ ک کوشش کرنے والوں کے دل و دماغ سے بھی جو چیز سب
سے آخر میں نکلتی ہے وہ حُبِ مال اور حُبِ جا ہ ہوتی ہے ، جُبِ جاہ اسی میں
ہوتی ہے جس میں تکبر ہوتا ہے۔
قرآن و سُنت میں متکبروں اور تکبر کی شدید مذمت کی گئی ہے اﷲ تعالیٰ کا
فرمان ہے " میں ان لوگوں کو اپنی آیات سے پھیر دوں گا جو زمین پر ناحق تکبر
کرتے ہیں ۔"(سورۃ الـاعراف)پھر ارشاد ہوتا ہے کہ: " آج (قیامت کے دن) تمہیں
ذلت کا عذاب دیا جائے گا اس وجہ سے کہ تم زمین پر ناحق تکبر کرتے
تھے۔"(سورۃ الاحقاف)پھر ارشاد ہوتا ہے کہ :" بے شک جو لو گ میری عبادت سے
تکبر کرتے ہیں وہ جہنم میں ذلت کے ساتھ داخل ہوں گئے "( سورۃ غافر)۔ پھر
ارشاد ہوتا ہے کہ : " کیاجہنم میں متکبرین کا ٹھکانہ نہیں ہے"۔( سورۃ
الزمر)اور آخر میں ارشاد ہوتا ہے کہ : بے شک وہ (اﷲ تعالیٰ ) تکبر کرنے
والوں کو پسند نہیں کرتا "(سورۃ النحل)۔انسان کو ہمیشہ غرور و تکبرسے دور
رہنا چاہیے کیونکہ اس کی نظر ہمیشہ اپنی کمزوریوں پرہونی چاہیے اور وہ اُسے
اپنی حقیقت کو کبھی فراموش نہیں کرنا چاہیے، ہمیشہ اپنے آپ کوکمزور ،
خطاکار اور گنہگار سمجھنا چاہیے، اپنے آپ کو اﷲ رب العزت کا محتاج اور فقیر
سمجھنا چاہیے۔ انسا ن جتنا اپنے آپ کو اپنے رب کے حضور جھکائے گا تو رب
العزت اُس قدر اُس کو عزت و عظمت سے نوازیں گئے ، اُس قدر اس کی شان و شوکت
میں اضافہ کیا جائے گا اور اگر اس نے غرور و تکبر سے اپنی گردن میں اکڑ
رکھی تو رب کریم اس کی گردن کو توڑ دے گا۔ آج ہمارے ماضی میں ہمارے لیے
کتنی ہی ایسی مثالیں ہیں جن سے ہم کو سبق حاصل کرنا چاہیے ، انہی میں سے
کچھ افراد وہ ہیں جو کہ اپنے ناک پر مکھی تک نہیں بیٹھنے دیتے تھے ، جس طرف
جاتے آگ و تباہی کو ساتھ لے کر جاتے مگر آج کیا ہوا کوئی نام لینے والا بھی
نہ رہا ان کا ۔۔۔اور ۔۔۔دوسری طرف وہ لوگ جنہوں نے اپنے آپ کو اپنے رب کی
رضا کے لیے فنا کر دیا ان کا نام آ ج صدیاں گزر جانے کے بعد بھی امر ہے اور
امر رئیگا۔۔۔ اپنے اندر کی" میں" کو ختم کرنے سے ہی انسان امر ہو سکتا ہے
نہیں تو لاکھوں حسین وخوبصورت نوجوان دفن ہیں ان قبرستانوں میں ۔۔۔کبھی جا
کرتو دیکھو۔۔۔ سارا غرور مٹی کے ڈھیر میں تبدیل کیسے ہو کر رہ گیا۔۔۔۔ |
|