بِاَىِّ ذَنۡبٍ قُتِلَتۡ!!!
(Naeem Ur Rehmaan Shaaiq, Karachi)
وطن ِ عزیز میں پے در پے ایسے واقعات پیش
آرہے ہیں ، جن کا ہماری تہذیب و تمدن سے نہ کوئی واسطہ ہے ، نہ ہمارے دین
سے ان کا کوئی تعلق ہے ۔لگتا ہے ، عورت کی مظلومیت کا سلسلہ زمانہ ِ جاہلیت
کی طرح آج بھی جاری و ساری ہے ۔یہ سلسلہ ابھی تک نہیں ٹوٹا ۔ نہ جانے یہ کب
ٹوٹے گا ۔پے در پے وطن ِ عزیز میں تین ایسے واقعات پیش آچکے ہیں ، جن کے
تصور سے بھی روح کانپ اٹھتی ہے ۔ یعنی لڑکیوں کو زندہ جلا دینے کے واقعات
۔ہم نے سنا ہے ، ماؤں کے سینوں میں اولاد کی محبت سے لبریز دل دھڑکتے ہیں ۔
مگر یہ کیا ہو رہا ہے کہ ایک ماں اپنی سترہ سالہ بیٹی کو زندہ جلادیتی ہے ۔
سنا ہے ، باپ سارا دن محنت ہی اس لیے کرتا ہے ، تاکہ اس کی اولاد پروان
چڑھے ، ان کی اچھی تربیت ہوسکے اور ان کی تعلیم کا بندوبست ہوسکے ۔ مگر
یہاں تو الٹی گنگا بہہ رہی ہے ۔ ایک والد اپنی سگی بیٹی کو قتل کرکے خود کو
پولیس کے حوالے کر رہا ہے ۔یہ سنگ دلی غیرت کے نام پر بپا ہے ۔مگر اس غیرت
کا مظاہرہ کرنے سے پہلے سو بار سوچنا چاہیے کہ ہم جس دین ِ متین کے پیروکا
ر ہیں ، کیا وہ دین اس کی اجازت دیتا ہے ۔ممکن ہے ، ایک عام شخص کو عورت کے
ضمن میں اسلامی تعلیمات کے بارے میں مکمل معلومات نہ ہوں ۔ لیکن اس کو یہ
تو معلوم ہوگا کہ ہمارے پیارے نبی حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم رحمۃ
اللعالمین تھے ۔آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی رحمت ہر خاص و عام پر تھی ۔ اسے
یہ بھی معلوم ہوگا کہ ہمارے پیارے نبی حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی
بعثت سے قبل عرب کے چند قبائل میں بیٹیوں کو زندہ درگور کرنے کی رسم ِ قبیح
اپنی پوری آن بان کے ساتھ جاری وہ ساری تھی ۔ رحمۃ اللعالمین پیغمبر آئے تو
آپ نے دوسر ے طبقوں کے ساتھ ساتھ بیٹیوں کو بھی اپنے سایہ ِ رحمت میں لے
لیا ۔آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے بچیوں کوزندہ درگور کرنے کی رسم قبیح کا
خاتمہ فرمایا ۔
مناسب معلوم ہوتا ہے کہ قرآن و سنت کی روشنی میں عورت کی عظمت کا اجمالا
احاطہ کیا جائے ۔ کیوں کہ اس چھوٹی سی تحریر میں تفصیل سے اسلامی تعلیمات
کی روشنی میں عورت کی عظمت کا احاطہ نہیں کیا جا سکتا ۔ جب ہم قرآن و سنت
کی روشنی میں عورت کی عظمت پر نظر ڈالیں گے تو ہم پر یہ راز افشا ہو جائے
گا کہ بے شک آج کل کے اس پر فتن اور ہوس زدہ دور میں اسلام ہی صرف وہ پناہ
گاہ ِ امن ہے ، جہاں عورت کوحقیقی امن و سکون میسر آ سکتا ہے ۔
اسلام جہاں 'مومنین' کا ذکر کرتا ہے ، وہاں 'مومنات' کا بھی ذکر کرتا ہے ۔
قرآن ِ حکیم کی تعلیمات بتاتی ہیں کہ آخرت میں جتنا اجر ایک مومن کو ملے گا
، اتنا ہی اجر ایک مومنہ کو ملے گا ۔سورۃ المومن کی آیت نمبر 40 میں ارشاد
ِ باری تعالیٰ ہے :
"جس نے گناہ کیا ، اسے تو برابر کا بدلہ ہی ہے اور جس نے نیکی کی ہے ، خواہ
وہ مرد ہو یا عورت اور وہ ایمان دار ہو تو یہ لوگ جنت میں جائیں گے اور
وہاں بے شمار روزی پائیں گے ۔"
سورۃ النساء کی آیت نمبر 124 میں ارشاد ِ باری تعالیٰ ہے :
"جو ایمان والا مرد ہو یا عورت اور وہ نیک اعمال کرے ، یقینا ایسے لوگ جنت
میں جائیں گے اور کھجور کی گھٹلی کے شگاف برابر بھی ان کا حق نہ مارا جائے
گا ۔
سورۃ النحل کی آیت نمبر 97 میں اس سے ملتا جلتا مضمون کچھ یوں ہے :
"جو شخص نیک عمل کرے، مرد ہو یا عورت لیکن با ایمان ہو تو ہم اسے یقیناََ
نہایت بہتر زندگی عطا فرمائیں گےاور ان کے نیک اعمال کا بہتر بدلہ بھی
انھیں ضرور دیں گے۔"
قرآن ِ حکیم میں مسلمان مرد اور عورت کے اجر کی برابری کی متعدد آیات آئی
ہیں ۔ یہاں قابل ِ ذکر بات یہ ہے کہ جہاں مومن مرد کاذکر آرہا ہے ، وہاں
مومن عورت کا ذکر بھی آرہا ہے ۔ جس سے معلوم ہوتا ہے کہ اسلام میں مرد کے
ساتھ ساتھ عورت کی بھی اہمیت ہے ۔ سورۃ التوبہ کی آیت نمبر 71 ، سورۃ آل ِ
عمران کی آیت نمبر 195 اور سورۃ الاحزاب کی آیت نمبر 35 میں بھی مومن مرد
اور مومن عورت کے نام لے کر اجر کی برابری کا ذکر فرمایا گیا ہے ۔
زوجین کا رشتہ ایک اہم رشتہ سمجھا جاتا ہے ۔ اسلامی تعلیمات کا مطالعہ
بتاتا ہے کہ اسلام زوجین کے درمیان اچھے تعلقات کاخواہاں ہے ۔ کتنے پیارے
انداز میں سورۃ النساء کی آیت نمبر 19 میں اس رشتےکو برقرار رکھنے کی کوشش
کی گئی ہے :
"ان(عورتوں) کے ساتھ اچھے طریقے سے بود و باش رکھو ، گو تم انھیں نا پسند
کرو ۔ لیکن بہت ممکن ہے کہ تم ایک چیز کو برا جانو اور اللہ اس میں بہت ہی
بھلائی کر دے ۔"
اسلام عورت کو وراثت میں حصہ دیتا ہے ۔ سورۃ النساء کی آیت نمبر 7 میں
ارشاد ِ باری تعالیٰ ہے:
"ماں باپ اور قریب رشتے دار جو مال چھوڑ جائیں ، اس سے مردوں کے لیے حصہ
ہے(اسی طرح ) عورتوں کے لیے بھی اس مال سے حصہ ہے ، جو ماں باپ اور قریبی
رشتہ دار چھوڑ جائیں ۔خواہ مال کم ہو یا زیادہ (اس میں ہر ایک کا ) حصہ
اللہ کی طرف سے مقرر کیا ہوا ہے ۔"
پاک دامن عورتوں پر جھوٹی تہمتیں باندھنا، اسلام میں قابل ِ تعزیر جرم
سمجھا جاتا ہے ۔ سورۃ النور کی آیت نمبر 4 میں ارشاد ِ باری تعالیٰ ہے :
"جو لوگ پاک دامن عورتوں پر زنا کی لگائیں ، پھر چار گواہ نہ پیش کر سکیں
تو انھیں اسی (80) کوڑے لگاؤاور کبھی بھی ان کی گواہی قبول نہ کرو ۔ اور یہ
لوگ فاسق ہے ۔"
سبحان اللہ ! کتنی بڑی بات ہے کہ پاک دامن عورتوں پر تہمتیں لگانے والے کو
تین سزائیں دی گئیں ۔ یہ تینوں سزائیں بہت سخت ہیں ۔ خصو صا ََ دوسری سزا ۔
سب سے بڑھ کر یہ کہ اسلام عورت کو زندہ رہنے کا ایسا حق دیتا ہے، جو شاید
کوئی نہیں دیتا ۔ سورۃ التکویر کی آیت نمبر 8 اور 9 میں بڑے جذباتی انداز
میں عرب کے باشندوں کو زندہ دفن کرنے کی رسم قبیح سے منع کیا گیا :
"اور جب زندہ گاڑی ہوئی لڑکی سے سوال کیا جائے گا کہ کس گناہ کی وجہ سے وہ
قتل کی گئی؟"
میرے ملک کے باشندوں نے جن بیٹیوں کے جلا یا ، اگر قیامت کے دن انھوں نے یہ
پوچھ لیا کہ کیا واقعی ہی ہمارا جرم اتنا بڑا تھا کہ ہمیں آپ نے جلادیا؟ ہم
تو آپ کا اپنا خون تھے ۔ آپ نے جس غیرت کا مظاہرہ کیا ، کیا آپ کا دین اس
کی اجازت دیتا تھا ، تو ان لوگوں کا کیا ہو گا ، جنھوں نے یہ جرائم کر کے
سب کو خون کے آنسو رلا دیا ؟؟
اب چند حدیثیں ملحوظ ہوں :
ابو داؤد کی حدیث ہے:
"جس شخص کے لڑکی ہو ، وہ نہ تو اسے زندہ درگور کرے اور نہ اس کے ساتھ حقارت
آمیز سلوک کرے اور نہ اس پر لڑکے کو ترجیح دے تو اللہ تعالیٰ اسے جنت میں
داخل فرمائے گا ۔"(اسلام میں عورت کے حقوق، سید جلال الدین عمری ، صفحہ 25)
صحیحین کی حدیث ہے:
"اللہ تعالیٰ جس شخص کو ان لڑکیوں کے ذریعہ کچھ بھی آزمائش میں ڈالےاور وہ
ان کے ساتھ اچھا سلوک کرےتو وہ اس کے لیے جہنم سے بچاؤ کا ذریعہ ہوں گی
۔"(اسلام میں عورت کے حقوق، سید جلال الدین عمری ، صفحہ 26)
صحیح مسلم کی حدیث ہے:
"جو شخص دو بچیوں کی ان کی جوانی کا پہونچنے تک پر ورش کرے گا، قیامت کے
روز میں اور وہ اس طرح ہوں گے ۔یہ کہہ کر آپ (صلی اللہ علیہ وسلم) نے
انگشتہائے مبارک کو ملادیا۔"(اسلام میں عورت کے حقوق، سید جلال الدین عمری
، صفحہ 27)
ابو داؤد کی ایک اور حدیث کچھ یوں ہے:
"جس نے تین لڑکیوں کی پر ورش کی ۔ ان کو تعلیم و تربیت دی۔ان کی شادی کی
اور ان کے ساتھ (بعد میں بھی)حسن ِ سلوک کیا تو اس کے لیے جنت ہے ۔"(اسلام
میں عورت کے حقوق، سید جلال الدین عمری ، صفحہ 28)
ہمارے معاشرے کی لڑکی ایک گھٹن زدہ ماحول میں رہتی ہے ۔ اسلام ایسی گھٹن کا
قائل نہیں ہے ۔ عورت کے نکاح سے پہلے اس کی رائے معلوم کرنا ضروری ہے ۔ مگر
ہمارے معاشرے میں ایسا نہیں ہوتا ۔ ایسا کرنے سے غیرت کا مسئلہ آڑے آتا
ہےاور غیرت بھی ایسی ، جو بچی کو جلادیتی ہے ۔ صحیحین کی حدیث ہے:
"بیوہ یا مطلقہ کا نکاح نہ کیا جائے گا ، جب تک کہ اس کی رائے نہ معلوم کر
لی جائے ۔دو شیزہ کا نکاح نہیں ہوگا ، جب تک کہ اس سے اجازت نہ لی جائے
۔"(اسلام میں عورت کے حقوق، سید جلال الدین عمری ، صفحہ 30)
ابن ِ ماجہ کی حدیث ہے:
"کیا میں تم کو نہ بتاؤں کہ افضل صدقہ کیا ہے۔ تمہاری لڑکی جو (بیوگی یا
طلاق کی وجہ سے)تمہاری طرف لوٹادی جائے۔ تمہارے سوا کوئی اس کا کمانے والا
نہ ہو ۔"(خاتون ِ اسلام، مولانا وحید الدین خاں ، صفحہ 148)
عورت کی عظمت سے متعلق اور بھی کئی قرآنی آیات و احادیث ہیں ۔ لیکن وقت کی
قلت ہے ۔ سو اسی پر اکتفا ہے ۔ آخر میں دعا ہے کہ اللہ تعالیٰ ہمیں اپنی
بیٹیوں سے اچھا سلوک کرنے کی توفیق عطا فرمائے ۔(آمین)چ |
|