ان کہا دکھ ۔۔۔

کیا آپ کو اندازہ ہے کہ میں کتنی دکھی ہو چکی ہوں۔۔۔۔
نہیں نا۔۔۔۔
میں آپ کو ایک واقعہ سْناتی ہوں شاید یہ واقعہ سننے کے بعد اندازہ ہو جائے۔۔۔
حضرت سیدنا فاروق رضی اﷲ عنہ ،آپ کا مقام اور آپ کی فہم و فراست یہ سب آپ ہی کے حصے میں آنا تھا کہ اتنی باریکی ، رحمدلی اور دوراندیشی سے محسوس کرتے تھے۔

ایک مرتبہ حضرت عمر فاروق رضی اﷲ عنہ رات کے وقت پہرہ دے رہے تھے کہ ایک عورت کی آواز آئی جو نہایت دکھی انداز میں اشعار پڑھ رہی تھی اور اپنی تنہائی کا اظہار کر رہی تھی۔ اگلے ہی دن آپ نے پتہ لگایا کہ یہ فلاں عورت ہے اور اسکا شوہر اﷲ کے راہ میں جہاد کرنے گیا ہوا ہے۔ آپ نے اسکی دلجوئی کرنے کے لیے فوری طور پر ایک عورت کو اسکے پاس بھجوا دیا اور اسکے شوہر کی فوری واپسی کا خط لکھوا دیا اور اپنی بیٹی حضرت حفصہ رضی اﷲ عنہا سے پوچھا کہ اے بیٹی بتاؤ کوئی عورت کتنا عرصہ تک اپنے شوہر کے بغیر رہ سکتی ہے؟

وہ حیرت زدہ ہو کر پوچھنے لگی اے والد محترم خلیفہ رسول آپ جیسی شخصیت یہ مجھ سے پوچھ رہی ہے؟

آپ رضی اﷲ عنہ نے فرمایا کہ تمہارے ذریعے میں اپنی رعایا کو بہتر طور پر سمجھ سکتا ہوں اور ان کو مراعات دینے کے لیے ایسے فیصلے کرنا چاہتا ہوں جن سے سب کو فائدہ پہنچے۔ حضرت حفصہ نے فرمایا 4 ماہ یا 5 ماہ یا حد سے حد 6 ماہ۔ (سنن اب منصور 2663 روایات کیا گیا زین بن اسلم رضی اﷲ عنہ سے)اسکے بعد آپ رضی اﷲ عنہ نے جہاد پر جانے والی افواج پر پابندی لگا دی کہ کوئی شخص بھی 6 ماہ سے زیادہ اپنے گھر سے دور نہیں رہے گا۔ آپ رضی اﷲ عنہ نے حد مقرر فرما دی۔ دو ماہ کا سفری راستہ اور چار ماہ کی جہادی سرگرمی۔ کل ملا کر 6 ماہ میں ہر سپاہی کو واپس اپنی بیوی کے پاس آجانا ہو گا۔

مختلف روایات میں کم و بیش یہ ہی مضمون آیا ہے۔ کچھ میں 2 ماہ اور 4 ماہ کی مدت میں مرکوز ہے۔۔۔ وﷲ اعلم
( تلخیص الحبر 474/3 یہ روایات عبداﷲ ابن دیناز)

سیدنا حضرت عمر فاروق رضی اﷲ تعالیٰ عنہ نے تو حد مقرر کر دی مگر کیا آج کے حکمرانوں نے ، آج کے علماء نے، آج کے سپہ سالاروں نے بھی کی۔۔۔؟ انسانی فطرت اور برداشت کا تقاضا ہے کہ 6 ماہ سے زیادہ بیوی کو شوہر سے علیحدہ نہیں کیا جا سکتا۔۔مگر پاکستان میں یہ حال ہے کہ بیویوں کوشوہر کی جدائی برسوں تک برداشت کرنی پڑتی ہے۔ انھیں نہ جانے کتنے عرصے تک مجبور کیا جاتا ہے کہ زندہ رہو۔۔۔! صبر کرو۔۔۔ ! انتظار کرو۔۔۔!

حالانکہ حضرت فاروق اعظم رضی اﷲ تعالیٰ عنہ نے 1400 سال پہلے حد مقرر کر دی تھی۔۔۔ ام المومنین نے خواتین کے دلوں کی ترجمانی کی تھی اور نہایت و ضاحت سے بتا دیا تھا۔۔۔ کہ 6 ماہ سے زیادہ اسکو کسی حال اور کسی قیمت پر شوہر سے جدا نہ کیا جائے ۔

یہ واقعہ ایک سند اور فتویٰ کا درجہ رکھتا ہے۔۔۔

پھر علماء نے کیوں نہ اسکو مشعل راہ بنا کر حکمرانوں کو تنبیہہ کیا۔۔۔؟ کیوں نا اسکی روشنی مین آج کے حالات و واقعات کے بارے میں فتوے دئے۔۔۔۔ ؟ کیوں نہ آج کی مسلمان عورت کے دکھ کو سمجھا۔۔۔؟
کیوں نہ ؛اْسکے دل کی ترجمانی کی۔۔۔ ؟

میرے آنسوؤں کی نہ ختم ہونے والی لڑیوں اور بے چین راتوں کی آہوں، بے قرار دل کا کیا کوئی ایک شخص تو ذمہ دار نہیں۔۔۔۔

کون کون ہے ، کہاں کہاں ہے کب سے ہے سب کو پتہ ہے۔ جب جتنا اور جیسے میں نے اور مجھ جیسی خواتین نے اپنے پیاروں کے لیے تڑپ کر اپنے رب کو پکارا تو وہ رب تو اپنی بندی کے حال سے نا واقف نہیں۔

وہ رب تو اپنی بندیوں کے دل پر گزرنے والی قیامت کو بھولنے والا نہیں۔ وہ تو گھڑی کے ہزاروے حصے میں ہماری فریاد کو سْن کر ظالم کو ایک سیکنڈ میں تہس نہس کر دینے کی طاقت رکھنے والا ہے۔۔۔

مگر اپنے رب سے میں بھی وہی کہوں گی جو میرے پیارے بنی آخرزماں صلی اﷲ علیہ وسلم نے انتہائی دکھ اور اضطراب کے وقت فرمایا۔ آپ نے بھی تو ایذا پہنچانے والے بد ترین دشمنوں کو معاف فرما دیا تھا۔۔۔ طائف کے واقعہ میں ۔۔۔۔ اورفرمایا تھا ،اے اﷲ اگر تو مجھ سے راضی ہے تو مجھے کسی کی بھی پرواہ نہیں۔۔۔

میں بھی اپنے پیارے نبی صلی اﷲ علیہ وسلم کی اقتداء میں یہی کہوں گی۔۔۔ اے اﷲ ،یہ حکمران کم فہم ہیں یہ نادان ہیں سمجھتے نہیں انکو معاف کر دے ، شاید انکی آئندہ نسلوں میں سے ایسے لوگ پیدا ہونگے جو احساس رکھنے والے ہوں گے اور ظلم سے توبہ کر لیں گے۔ اے اﷲ اگر تو اور تیرا رسول صلی اﷲ علیہ وسلم مجھ سے راضی ہیں تو مجھے کسی کی بھی پرواہ نہیں۔۔۔

میری دکھی ماوؤں ، بہنوں اور بیویوں کے لیے یہ خوشخبری بہت بڑی ہے جب وہ رب فرماتا ہے ،
لا تحزن ان اﷲ معنا۔
غم مت کرو۔ اﷲ تمارے ساتھ ہے۔
Amna Masood Janjua
About the Author: Amna Masood Janjua Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.