کیا ہم روزے دار ہیں؟

رحمتوں اور برکتوں والا مہمان مہینہ جلدی جلدی رواں دواں ہے ۔ اس مہینے میں اﷲ پاک کی رحمتوں اور برکتوں کا نزول ہوتا ہے ۔ تمام عبادات کا اجر ستر گناہ بڑھا دیا جاتا ہے۔ یہ مہینہ مومنوں کے لیے نیکیوں کا موسم بہار ہے ۔مساجد میں رونقیں ہی رونقیں ہو جاتی ہیں، تمام مسلمان دن کو روزہ رکھتے ہیں اور رات کو اﷲ کے سامنے قیام کرتے ہیں یعنی نماز تراویح ادا کرتے ہیں۔روزہ رکھنے اور نماز تراویح کے علاوہ دعوت افطار پارٹیاں رکھی جاتی ہیں اور تلاوت قرآن کی جاتی ہے جس کا بہت زیادہ اجرو ثواب ہے۔مسلمانوں کے دل نیکیوں کی طرف راغب ہوتے ہیں ۔ یہ سب اس ماہ مقدس کی برکتوں کا نتیجہ ہے کہ وہ لوگ بھی مساجد میں نماز اور ذکر و اذکار کے لیے چلے آتے ہیں جو رمضان سے پہلے بالکل نماز نہیں پڑھتے تھے یا بہت کم پڑھتے تھے۔ ماہ رمضان کو بہت زیادہ شان و مرتبہ ملا ہے جس کا قرآن و حدیث سے ثبوت ملتا ہے ۔ قرآن پاک میں ارشاد ربانی ہے : اے ایمان والو ! روزے تم پر فرض کیے گئے ہیں جیسا کہ تم سے پہلے لوگوں پر فرض کیے گئے تھے ۔ فرمان نبوی ﷺ کے مطابق روزے رکھنے سے پچھلے گناہ معاف ہو جاتے ہیں۔ روزے داروں کے لیے بڑے انعام و اکرام ہیں، روزہ واحد عبادت ہے جس کا کسی انسان کو معلوم نہیں ہوتا۔ روزہ کی اہمیت اس بات سے بھی واضح ہوتی ہے کہ اﷲ تعالیٰ کا فرمان عالیشان ہے کہ روزہ میرے لیے ہے اور روزے دار کو اجر بھی میں خود ہی دوں گا۔اس کے علاوہ جنت کا ایک دروازہ جس کا نام باب الریان ہے جو خاص روزہ داروں کے لیے ہے ، روزے دار اس د روازے کے ذریعے جنت میں داخل ہوں گے۔ اس کے علاوہ روزے دار کے لیے دو خوشیاں ہیں ایک افطاری کے وقت اور دوسری جنت میں اﷲ سے ملاقات کے وقت ۔ ماہ رمضان اور روزے داروں کو اﷲ تعالیٰ نے بہت مقام عطا کیا ہے ، ماہ رمضان میں ایک رات لیلۃ القدر رکھی گئی ہے جس میں عبادت کا اجر ہزار مہینوں سے زیادہ افضل رکھا گیا ہے اور اس رات میں ایک وقت ایسا بھی ہوتا ہے کہ جو بھی دعا کی جائے قبول ہوتی ہے۔ الغرض ماہ رمضان اور روزے دار کو اﷲ پاک نے بہت اعلیٰ مقام دیا ہے لیکن یہ تمام انعام و اکرام ، فضائل ، مقام و مرتبہ صرف روزہ دار کے لیے ہے نہ کہ صرف کھانا پینا چھوڑنے والے کے لیے۔

اب توجہ طلب بات یہ ہے کہ کیا ہم روزے دار ہیں؟؟؟ اگر غور کیا جائے تو تقریبا ً آدھی رات کو تین بج کر بیس منٹ تک یا اس سے پہلے ہم کھا نا کھا سکتے ہیں اور پانی پی سکتے ہیں اور اس کے بعد شام سات بجکر سات منٹ تک نہ کچھ کھا سکتے ہیں اور نہ ہی پی سکتے ہیں یعنی تقریباً سولہ گھنٹے بھوک پیاس برداشت کرنا پڑتی ہے۔ کیا ہم سولہ گھنٹے حلال چیزوں کو کھانے پینے سے رک کر روزے دار بن گئے ہیں؟۔کیا اﷲ تعالیٰ کو صرف ہماری بھوک پیاس سے غرض ہے؟۔ کیا اﷲ تعالیٰ ہمیں صرف بھوکا ، پیاسا رکھنا چاہتا ہے؟نہیں نہیں بلکہ ہاتھ ، پاؤں ، آنکھ ، زبان الغرض ہر چیز کا روزہ ہی اصل روزہ ہے ۔ اﷲ پاک ہمارے دلوں کو جانتا ہے کہ ہم دن بھر کیا کرتے ہیں کیا سوچتے ہیں۔کیا ہم آنکھوں کو اﷲ کے حکم کے مطابق استعمال کر رہے ہیں؟ کیا ہم کانوں سے اﷲ کے حکم اور پسند کے مطابق سن رہے ہیں؟ کیا ہم ہاتھوں سے اﷲ کی پسند کے کام کر رہے ہیں؟ کیا ہم زبان کو احکام الٰہی کے مطابق استعمال کر رہے ہیں؟

رسول اکرم ﷺ نے فرمایا کہ ’’ وہ شخص ہم میں سے نہیں جس کی زبان اور ہاتھ سے دوسرے مسلمان محفوظ نہیں‘‘ ۔ کیا ہم نے اس فرمان پر عمل کر لیا ہے ۔ اگر ہمارے سارے کام اسی طرح ہیں جس طرح پہلے تھے یعنی ہم اپنے بھائیوں سے اگر روزہ رکھ کر بھی حسد کر رہے ہیں اور دل میں بغض موجود ہے تو پھر ہمارے بھوکے پیاسے رہنے کا کوئی فائدہ نہیں۔رسول اکرم ﷺ سے پوچھا گیا کہ کیا مومن جھوٹا ہو سکتا ہے تو آپ ﷺ نے فرمایا ۔ مومن بخیل ہوسکتا ہے مگر جھوٹا نہیں ہو سکتا۔ ایک شخص حضور اکرم ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوا ور عرض کیا کہ میرے اندر چار برائیاں ہیں، جھوٹا ہوں ، شرابی ہوں ، زانی ہوں، چور ہوں ۔ فرمائیے میں کون سی ایک برائی چھوڑ دوں تو آپ ﷺ نے فرمایا کہ جھوٹ چھوڑ دو۔اس سے معلوم ہوتا ہے کہ جھوٹ کس قدر بدترین عمل ہے کہ تمام برائیوں میں سے حضور اکرم ﷺ نے جھوٹ کو فورا ً چھوڑنے کا حکم دیا۔ اور اگر ہم روزہ رکھ کر ،سولہ گھنٹے بھوک پیاس برداشت کر کے جھوٹ کو نہیں چھوڑتے تو ہمارے بھوکے پیاسے رہنے کا ذرا بھی فائدہ نہیں ہوگا۔ کوئی بھی عمل جو ہم سنت نبوی ﷺ اور صحیح عقیدے کے مطابق نہیں کرتے وہ قابل قبول ہر گز نہیں ہو سکتا۔ رسول اکرم ﷺ سفر میں تشریف لے کر جا رہے تھے تو راستے میں اچانک بانسری کی آواز کانوں میں پڑی۔ حضور اکرم ﷺ نے اپنے کانوں میں فوراً انگلیاں دے لیں اور ساتھیوں کو فرمایا کہ جب آواز آنا ختم ہو جائے تو بتا دینا ، کافی سفر کرنے کے بعد جب آواز آنا بند ہو گئی پھر آپ ﷺ نے کانوں سے انگلیاں نکال لیں۔ اور ہم روزے کی حالت میں گانے بجانے کو سن رہے ہیں بلکہ کچھ بد نصیب لوگ تو روزے کا دورانیہ پورا کرنے اور وقت گزارنے کے لیے فلمیں ، ڈرامے اور گانے دیکھنے اور سننے میں مصروف دکھائی دیتے ہیں ۔ جس چیز سے حضور اکرم ﷺ نے منع فرمایا یا اسے ناپسند فرمایا تو وہ عمل کر کے ہمیں روزے کا اجر و ثواب کیسے مل سکتا ہے ؟ ہر گز کچھ نہیں ملے گا سوائے بھوک پیاس کے تو ایسا روزہ رکھ کر بھوکا پیاسا رہنے کا کیا فائدہ ؟

بہت سے ایسے گناہ ہیں جنہیں ہم معمولی سمجھ کر کیے جارہے ہیں ۔ جبکہ قرآن کریم میں واضح فرمان ہے کہ قیامت کے دن ہر چھوٹی سے چھوٹی نیکی کا اجرو ثواب ملے گا اور ہر چھوٹی سے چھوٹی برائی کی سزا بھی۔ اور تو اور ہمارے ہاتھ پاؤں اور جسم کے تمام اعزاء ہمارے ہی خلاف گواہی دیں گے کہ ہم نے فلاں جگہ جا کر فلاں برائی کی۔اس روز ہر چھوٹی سے چھوٹی برائی بھی سامنے ہوگی ایسی صورت میں ہمیں کوئی بچانے والا نہ ہو گا۔ جہاں روزے دار کے لیے بہت زیادہ انعام و اکرام ، درجے اور اعلیٰ مقام ومرتبہ ہے ۔ وہاں روزے کو اصل طریقے کے مطابق نہ نبھانے کی سزا بھی ضرور ملے گی۔لہذا ہمیں سوچنا چاہیے کہ ہم روزے کی حالت میں اگر ہم جھوٹ ، رشوت ، سود ، گانا بجانا ، نہیں چھوڑتے تو کیا ہم روزے دار ہیں؟ ہماری زبان اور ہاتھوں سے لوگ محفوظ نہیں، ہم لوگوں کی عزتیں پامال کرنے پر تُلے ہوئے ہیں ، حسد بغض اور کینے سے دل و دماغ بھرے ہوئے ہیں تو ایسی صورت میں کیا ہم روزے دار ہیں؟ اگر ہم نے غیبت ، چغلی نہ چھوڑی تو کیا ہم روزے دار ہیں؟کسی کو بُرے القاب سے پکارنا ، گالی گلوچ کرنا ، لڑائی جھگڑا کرنا ، طعنے دینا ، کم تر سمجھنا ، ہمسایوں کا خیال نہ رکھنا ، اپنے غریب مسلمان بھائیوں کی ضرورت پوری نہ کرنا الغرض ہر طرح کی چھوٹی چھوٹی برائیاں جن کو معمولی سمجھ کر کیے جارہے ہیں کیا ایسی صورت میں ہم روزے دار ہیں؟؟؟ نہیں ہم روزے دار نہیں بلکہ صرف بھوک ، پیاس برداشت کر رہے ہیں۔ اﷲ پاک ہمیں صحیح اصول کے مطابق روزہ رکھنے ، نبھانے اور ماہ رمضان کی قدر کرنے کی توفیق عطا فرمائے اور تمام برائیوں سے بچنے کی توفیق عطا فرمائے ۔ آمین ثم آمین
Malik Muhammad Shahbaz
About the Author: Malik Muhammad Shahbaz Read More Articles by Malik Muhammad Shahbaz: 54 Articles with 39998 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.