بچے ہمارے عہد کے مزدور بن گئے
(عابد محمود عزام, Karachi)
بچے کسی بھی معاشرے کی امیدوں، آرزوؤ ں اور
تمناؤں کا مرکز اور قوموں کا روشن مستقبل اور اثاثہ ہوتے ہیں۔ قوموں کی
ترقی کا انحصار ان ہی پر ہوتا ہے۔ بچے اس روئے زمین کا حسن ہیں۔ جب یہی بچے
خاندان کی معاشی کفالت کے لیے مزدوری پرمجبو ر ہوتے ہیں تو اپنا بچپن کھو
دیتے ہیں۔ ایسے بچے بچپن کی خوشیوں اور تعلیم کے بنیادی حق سمیت تمام حقوق
سے محروم ہوجاتے ہیں۔ بچوں سے مشقت و مزدوری کروانے کا رحجان ایک سنگین
مسئلہ ہے۔ معاشی بدحالی، سہولیات سے محرومی، استحصال، بے روزگاری، غربت اور
وسائل کی غیرمنصفانہ تقسیم جیسے مسائل کے باعث بچوں کو زیور تعلیم سے دور
رکھ کر ان سے جبری مشقت لی جاتی اور بچوں کی جبری مشقت کو معیوب بھی نہیں
سمجھا جاتا اور اس طرح یہ بچے ہوٹلوں، چائے خانوں، ورکشاپوں، مارکیٹوں،
چھوٹی فیکٹریوں، موٹر گاڑیوں کی کنڈیکٹری، خشت بھٹوں، سی این جی اور پٹرول
پمپوں پر گاڑیوں کے شیشے صاف کرنے سمیت دیگر بہت سی جگہوں پر مشقت کرتے نظر
آتے ہیں۔ ایک اندازے کے مطابق دنیا بھر میں 24 کروڑ 60 لاکھ بچے اپنے بچپن
سے محروم رہتے ہیں، جبکہ پاکستان میں 1 کروڑ 20 لاکھ بچے جبری مشقت اور
محنت مزدوری کرنے پر مجبور ہیں، جن میں سے ساٹھ لاکھ بہت ہی کم عمر بچے ہیں۔
یہ وہ بچے ہیں جو ہوش سنبھالتے ہی گھر سنبھالنے پر لگا دیے جاتے ہیں، جو
کھلونوں سے کھیلنے کی عمر میں کھلونے بیچنے لگتے ہیں، جو قلم تھامنے کی
بجائے اوزار پکڑے نظر آتے ہیں اور جو اخبار پڑھنے کی بجائے سڑک کنارے،
ٹریفک اشاروں پر اخبار بیچ رہے ہوتے ہیں۔ پاکستان میں 66 فیصد کمسن محنت کش
ہفتے میں 35 گھنٹوں سے زیادہ کام کرتے ہیں۔ ان میں سے اکثر بچے غریب
گھرانوں سے تعلق رکھتے ہیں ۔ محنت کش بچوں کے والدین کا کہنا ہے کہ غربت کا
مقابلہ کرنے کے لیے مجبورا بچوں کو محنت مزدوری پر لگادیا جاتا ہے، ورنہ
اپنے بچوں کو تعلیم سے آراستہ کر نے اور ان کو بہتر مستقبل فراہم کرنا
ہمارا بھی خواب ہوتا ہے، لیکن غربت کی وجہ سے اپنا خواب پورا نہیں کرپاتے۔
دنیا بھر میں 12 جون کو محنت کش بچوں کے عالمی دن کے طور پر منایا جاتا ہے۔
اس دن سرکاری و سماجی تنظیموں کی طرف سے مختلف تقریبات کااہتمام کیاجاتا ہے،
جن میں بچوں کو مشقت سے چھٹکارہ دلانے اور ان کو تعلیم سمیت دیگر حقوق
فراہم کرنے کے بلند وبانگ دعوے کیے جاتے ہیں، لیکن یہ دعوے محض دعوے ہی
ہوتے ہیں۔ اس سال بھی چائلڈ لیبر ڈے کے خاتمے کے عالمی دن پر وزیر اعلیٰ
پنجاب شہباز شریف کا کہنا تھا کہ قوم کے نونہالوں کو چائلڈ لیبر کی لعنت سے
چھٹکارا دلا کر دم لیں گے۔ بہت جلد ہوٹلوں، ورکشاپوں اور پٹرول پمپوں سے
بھی چائلڈ لیبرکا خاتمہ کیا جائے گا۔ بچوں کی تعلیم وتربیت پر توجہ دینا
معاشرے کے ہرد فرد کی ذمہ داری ہے، کیونکہ بچوں کی تعلیم و تربیت پر جتنی
توجہ دی جائے قوموں کی ترقی کے امکانات اتنے روشن ہوتے ہیں، لیکن ان دعوﺅں
کا حال بھی سابقہ دعوﺅں کی طرح ہوگا۔
پاکستان میں ایمپلائمنٹ آف چلڈرن ایکٹ کے تحت بچے سے مراد وہ فرد ہے جس کی
عمر 14 سال سے کم ہو جبکہ نوبالغ وہ ہے جس کی عمر 14 سال سے زیادہ لیکن 18
سال سے کم ہو۔ اگرچہ آئین میں بھی کم از کم عمر کی حد 14 سال ہے، لیکن
اٹھارویں ترمیم میں کم از کم عمر کی حد 14 سال سے بڑھا کر 16 سال کردی گئی
اوراب آئین کی پچیسویں شق کے مطابق ریاست کے لیے ضروری ہے کہ وہ 5 سے 16
سال کی عمر کے بچوں کے لیے لازمی اور مفت تعلیم کا انتظام کرے۔ آئی ایل او
کے مطابق چائلڈ لیبر وہ کام ہے جس سے بچے اپنے بچپن کی امنگوں، باعزت و
پروقار طرزِ زندگی سے محروم ہوجائیں اور جو ان کی جسمانی، ذہنی اور اخلاقی
نشوونما کے لیے نقصان دہ ہو اور جس سے ان کی تعلیم میں حرج ہو۔ پاکستان کے
دیہی علاقوں میں آج بھی کام کرنے والے بچوں کی تعداد 60 سے 70 فیصد ہے،
جبکہ شہری علاقوں میں یہ تعداد 35 سے 40 فیصد ہے۔ پاکستان میں چائلڈ لیبر
کے خلاف قانون موجود ہیں، جو غیر موثر ہیں، پاکستان کے وجود میں آنے کے بعد
سے لے کر اب تک شاید کسی ایک بھی شخص کو بچوں کو ملازمت پر رکھنے کی وجہ سے
گرفتار نہیں کیا گیا۔ سزا دی گئی تو صرف جرمانے کی جس کی رقم نہ ہونے کے
برابر ہے۔ اس کے علاوہ عملدرآمد نہ ہونے کی ایک وجہ یہ بھی ہے کہ جتنے بھی
قوانین بنائے گئے ہیں، وہ رسمی یا فارمل سیکٹر کا احاطہ کرتے ہیں۔ جو ہمارا
غیررسمی سیکٹر ہے، اس سے متعلق بہت ہی کم قوانین ہیں۔ مثلا گھریلو ملازم
بچوں سے متعلق کوئی قانون موجود نہیں ہے۔پاکستان میں آئین کے آرٹیکل 11 کے
مطابق: ”14 سال سے کم عمر بچے کو کسی کارخانے یا کان یا دیگر پرخطر ملازمت
میں نہیں رکھا جائے گا“۔ آئین کے آرٹیکل 25 کے تحت: ”ریاست تمام 5 سال کی
عمر سے لے کر 16 سال کی عمر کے بچوں کے لیے لازمی اور مفت تعلیم دینے کا
انتظام کرے گی، جس کا تعین قانون کر ے گا“۔ آئین کے آرٹیکل 37 کے مطابق:
”ریاست منصفانہ اور نرم شرائط کار، اس امر کی ضمانت دیتے ہوئے کہ بچوں اور
عورتوں سے ایسے پیشوں میں کام نہ لیا جائے گا جو ان کی عمر یا جنس کے لیے
نا مناسب ہوں۔“
”قانون کے مطابق بچوں کو کسی بھی ایسے پیشے، کاروباری ادارے اور پیداواری
عمل میں کام کے لیے نہیں رکھا جا سکتا جس کا تعین خطرناک کام کے طور پر کیا
گیا ہو، تاہم اگر کوئی بچہ، خاندانی یا نجی کاروبار/فیملی بزنس میں مصروف
عمل ہے یا کسی ٹریننگ/تربیتی اسکول (حکومت کا قائم کردہ یا منظور شدہ) میں
ان پیشوں یا پیداواری عملوں سے متعلق ٹریننگ لے رہا ہو تو ان پر بچوں کی
ملازمت سے متعلق ممانعت کا اطلاق نہ ہوگا۔“ ایمپلائمنٹ آف چلڈرن ایکٹ کے
حصہ سوم اور سیکشن 7 کے مطابق: کسی بھی بچے یا نوبالغ سے ایک دن میں 7
گھنٹے سے زیادہ کام نہیں کروایا جا سکتا اور کام کی ترتیب یوں رکھی جانا
ضروری ہے کہ مسلسل کام کے ہر 3 گھنٹے بعد کم ازکم 1 گھنٹہ آرام کا وقفہ
دینا ضروری ہے۔ شاپس اینڈ اسٹیبلش منٹس آرڈیننس کے تحت بچوں سے کسی بھی
تجارتی/کاروباری ادارے میں کام نہیں کروایا جا سکتا (سیکشن بیس) جبکہ کم
عمروں (یہ اصطلاح کمسنوں/بچوں اور نوبالغوں دونوں کے لیے اکٹھی استعمال
ہوتی ہے، یعنی جن کی عمر 14 سے 18 سال کے درمیان ہو) سے صبح 9 بجے سے لے کر
شام 7 بجے تک ہی کام کروایا جا سکتا ہے۔ بچوں کی مشقت سے متعلق قانون یعنی
چلڈرن (پلیجنگ آف لیبر) ایکٹ کے تحت ہر وہ معاہدہ کالعدم ہے جس میں کسی بچے
کی مزدوری/کام کو کسی معاوضے یا فائدے کے عوض گروی رکھا گیا ہو۔ تاہم اس
ایکٹ میں ایک استثنائی صورت یہ ہے کہ اگر یہ معاہدہ اس طرح کیا گیا ہو کہ
اس کے مضر اثرات بچے پر نہ پڑیں یا بچے کی مزدوری مناسب اجرت کے عوض طے کی
گئی ہو اور یہ معاہدہ ایک ہفتے کے نوٹس پر ختم کیا جا سکتا ہو توایسا
معاہدہ کالعدم نہ ہوگا۔ ایمپلائمنٹ آف چلڈرن ایکٹ کے سیکشن 14 کے مطابق ”جو
شخص بھی بچوں کو کسی ممنوع کام پر ملازم رکھتا ہے یا اس کی اجازت دیتا ہے
تو اسے مبلغ 20 ہزار روپے تک جرمانہ، یا قید کی سزا جس کی مدت ایک سال تک
ہو سکتی ہے، یا دونوں سزائیں اکٹھی دی جا سکتی ہیں۔ اگر وہ شخص دوبارہ اسی
طرح کے جرم کا ارتکاب کرے تو اس کی کم از کم سزا 6 ماہ ہے جس کی مدت دوسال
تک بڑھائی جاسکتی ہے۔
ہمارے ہاں المیہ یہ ہے کہ چائلڈ لیبر قوانین تو بنے ہیں لیکن آج تک کسی کو
بھی ان قوانین کی خلاف ورزی کے حوالے سے سزا نہیں سنائی گئی ۔ امیر لوگوں
کے گھروں میں کام کرنے والے بچوں کے حالات کار سب سے برے ہیں جن پر شدید
تشدد کے واقعات آئے روز منظر عام پر آتے رہتے ہیں،اس کے علاوہ بیشتر
کاروباری مقامات اور ورکشاپس میں محنت کش بچوں پر معمولی معمولی بات پر پر
تشدد واقعات معمول بن چکا ہے۔ ہماری حکومتوں کا حال یہ ہے کہ عشروں سے محنت
مزدوری کرنے والے ان بچوں کی درست تعداد معلوم کرنے کے لیے کوئی سروے ہی
نہیں کروایا گیا۔ ملک میں بچوں کو بڑوں کی طرح رہنے اور مشقت کرنے پر
مجبورکیاجانا ایک المیہ ہے۔ اس کی وجہ سے بچے ذہنی و جسمانی افزائش کے فطری
عمل سے محروم ہوجاتے ہیں۔ اس مسئلے کا حل صرف حکومت کی ذمہ داری نہیں ہے،
بلکہ یہ ذمہ داری پورے معاشرے خصوصاً سماجی تنظیموں پر بھی عاید ہوتی ہے۔
معاشرے کا فرض بنتا ہے کہ بچوں سے محنت و مشقت لینے کی بجائے ان کی تعلیم،
صحت اور خوراک کے لیے ان کے والدین کو مناسب سپورٹ کیا جائے۔ غربت کے
ہاتھوں مجبور ہو کر مزدوری کرنے والے بچوں کو مفت تعلیم، علاج معالجہ اور
کفالت فراہم کی جائے اور ان کے والدین کو ترغیب دی جائے اور پابند کیا جائے
کہ وہ بچوں سے مشقت نہ لیں گے اور بچوں سے جبری مشقت کے خاتمے کے لیے
معاشرے کے ہر فرد کو اپنی ذمہ داریوں کا احساس کر تے ہوئے موثر ترین کردار
ادا کرنا چاہیے تاکہ متاثرہ بچوں کو زیور تعلیم سے آراستہ کیا جاسکے۔ |
|