اخلاقی جرأت کا فقدان۔۔۔

انسان فطری طور پر خطا کا پتلا ہے لیکن اس کے ساتھ ساتھ اﷲ تعالیٰ نے انسان کو شعور بھی بخشا ہے کہ کوئی بھی کام کرنے سے پہلے اسکا انجام جان کر قدم اٹھائے ۔اگر پھر بھی کہیں انسان سے کوئی خطا سر زد ہو جائے یا کچھ ایسا ہو کہ اس انسان سے لوگ اچھی امید رکھتے ہوں لیکن وہ ذاتی طور پر ان امیدوں پر کھرا اترنے سے قاصر ہو تو انسان کی انسانیت اسی میں ہے کہ وہ اخلاقی جرأت کا مظاہرہ کرتے ہوئے اپنی غلطی یا اپنی حیثیت تسلیم کر لے کہ وہ اس کے قابل نہیں ہے ۔لیکن اس وقت انسانیت کے دائرہ کی حدود کو تار تار ہو جاتی ہیں کہ جب لوگ بدزبانی اور غلط بیانی سے ان سے امید رکھنے والوں کو دھوکہ دیتے ہیں۔ایسا ہی سلسلہ ہمیں اپنے ملک کی سیاست میں نظر آتا ہے کہ عوام جن لوگوں پر اعتبار کرکے اپنا مینڈیٹ دیتی ہے وہی لوگ الیکشنو ں سے پہلے بڑے بڑے ہبے باندھ کر وعدے کرتے نظر آتے ہیں لیکن جب عوام انہیں چن لیتی ہے تو وہی لوگ آنکھیں پھیر لیتے ہیں ۔پہلے دن سے ہی بہت بڑی بد اخلاقیاں کی گئیں ہیں جس سے عوام اب بدظن نظر آتی ہے اور ذہنی طور پر مفلوج بھی کہ کس پر اعتبار کیا جائے او ر کس پر نہیں کیونکہ جب موجودہ حکومت کے ضمنی انتخابات ہونے لگے تو اس سے پہلے پاکستان مسلم لیگ ن کی جانب سے بڑے بڑے دعوے کئے گئے جن میں سے ایک دعویٰ لوڈ شیڈنگ کے خاتمے کا تھا جب میاں محمد شہباز شریف صاحب چیخ چیخ کر مائیک اور ڈیسک بھی گرا نے کی کوشش کر رہے تھے جوش میں آ کر کہ اگر دو سال میں لوڈ شیڈنگ ختم نہ ہوئی تو میرا نام بدل دینا لیکن الحمد اﷲ پاکستان میں جمہوری حکومت کا تیسرا سال بھی کامیابی سے گزر گیا ہے اور چوتھا سال شروع ہو گیا ہے لیکن بجلی کا معاملہ جوں کا توں نظر آتا ہے عوام کا پیسہ اور آئی ایم ایف سے لیا گیا قرض نندی پور اور میٹرو جیسے ناکام پروجیکٹوں میں جھونک دیا گیا ہے اور اب بھی غلط بیانی سے بعض نہیں آ تے ۔ عمران خان نے انتخابات کے بعد اسلام آباد میں پاکستان کی عزت کی دھجیاں بکھیریں کہ جب ن لیگ پر دھاندلی کا الزام لگا یا اور وہاں دن رات کھڑے ہو کر اپنی تقاریرسے لوگوں کو روزانہ ایک ہی بات سے محظوظ کیا کہ ن لیگ کرپٹ ہے دھاندلی ہوئی ہے اگلا وزیر اعظم میں بنوں گا اور انہوں نے اس طرح تاریخ ساز یو ٹرن لیئے اور اپنی باتوں سے پھرتے رہے کچھ ثابت نہیں کر پائے سوائے باتوں کے اور ساتھ عوام کو بھی حد درجہ ذلیل و خوار کیا جن کی دعائیں ہمیشہ خان صاحب کے ساتھ ہیں ۔پیپلز پارٹی ہمیشہ جمہوریت کا نعرہ لگا کر مفاہمت کی پالیسی اپناتی آئی ہے مطلب اصل میں جمہوری استحکام نہیں ہوتا بلکہ مل کر کھانا ہوتا ہے اپنے دور حکومت میں بے نظیر کے قاتلوں کے سراغ نہیں لگا سکی پچھلے آٹھ سال سے سندھ میں حکومت انکی ہے آج تک ان سے سندھ ٹھیک نہیں ہوا اور نہ ہی امن قائم کر سکے ہمیشہ سندھ حکومت کے سائیں جی سوئے ہوئے نظر آئے جہاز سے اترتے بھی اور اسمبلی میں بیٹھے بھی باتوں باتوں میں تو چالیس ہزار سکول کھڑے کر دئے اور تعلیم کی شرح میں اضافہ بھی ہو گیا لیکن وہ سکول اور تعلیم یافتہ بچے سب کے سب گھوسٹ نکلے ۔اتنی ناکام سیاست اور پالیسیاں کبھی نہیں دیکھیں کہ جب آپ کی سربراہی ہو اور عوام کے ساتھ اس قدر نا انصافی ہو !کبھی کوئی ٹارگٹ کلنگ کا نشانہ بنا تو کبھی کوئی بھتہ مافیا کا اورکبھی کوئی اغوا ہو گیا اگر تھوڑا سا بھی عوام کے بارے میں سوچ کر تمام سیاسی پارٹیاں ایک بنچ پر بیٹھ کر یہ اتفاق کر لیتیں کہ ہم نے جو عوام سے وعدہ کیا ہے کہ کراچی میں امن لائیں گے کیونکہ یہ منشور تو سندھ میں تمام پارٹیوں کا تھا تو کم سے کم اس اتفاق سے کراچی میں کوئی بھی مارا نہ جاتا کیونکہ آج سب کے سامنے ہے کہ کون کس کو قتل کرواتا ہے اور کون کس کے حکم پر بھتہ وصول کرتاہے ؟رواں سال پانامہ لیکس کا نیا مضمون سامنے آیا جس میں ملک کے بڑے بڑے سیاسی شخصیات کے نام سامنے آئے پوری دنیا کے ممالک کے سیاسیوں کے نام سامنے آئے ان میں سے دو ممالک کے وزراء اعظم نے تو اخلاقی جرأت کا مظاہرہ کیا اور مستعفی ہو گئے لیکن ہمارے ملک کے قوانین کے تحت یہ ایک غیر اخلاقی حرکت تھی جس پر پریس کانفرنسوں اور عوام کے ساتھ خطاب میں اپنی کہانیاں سنائیں گئیں اور یہ بھی کہ دیا گیا کہ ہم کسی کے طے دار نہیں کہ جواب دیتے پھریں ہم تو جواب کمیشن میں دیں گے ۔اب یہاں ذرا بات غور طلب یہ ہے کہ اگر یہ لوگ عوام کے سامنے جواب دہ نہیں ہیں تو پھر عوام کو ملک سے نکال کیوں نہیں دیتے ؟اسی ہنگامے میں پاکستان تحریک انصاف کو پھر سے سیاست چمکانے کا موقع مل گیا اور وزارت عظمیٰ کی چاہت جاگ گئی ! پھر سے بیانات شروع کر دئے گئے ایک دوسرے پر خوب کیچڑ اچھالا گیا جس سے عوام دماغی طور پر دباؤ کا شکار ہو گئی ہے کہ ملک کا اور ہمارا مستقبل کیا ہے ؟کہ جب عمران خان صاحب خود ایک آف شور کمپنی کے مالک نکلے اور اب انکا نیازی کے نام سے ایک اور سکینڈل سامنے آ گیا ہے ؟جب بات شوکت خانم کے آڈٹ پر ہوتی ہے تو عمران خان صاحب برہم ہو جاتے ہیں حالانکہ یہاں تو چاہئے تھا کہ خان صاحب اخلاقی جرأت کا مظاہرہ کرتے اور خود کو پیش کرتے کہ جس قسم کا مرضی احتساب لے لو میں تیار ہوں دینے کیلئے کم سے کم شروعات یہ کر دیتے تو عوا م سے پژ مردگی کے بادل چھٹ جاتے اور امید کی ایک نئی کرن جاگ اٹھتی کہ واقعی ملک کے بارے میں کچھ کیا جا رہا ہے لیکن افسوس کہ ایسا کچھ نہیں ہوا اور میاں صاحب تو بڑے منجھے ہوئے سیاست دان ہیں انکی پوری عمر گزر گئی ہے سیاست کرتے لیکن انہوں نے بھی کوئی عظمت کا ثبوت نہیں دیا ہے اور خود کو احتساب کیلئے عوام کی عدالت میں پیش کرنے کی بجائے مغل اعظم کا کردار نبھایا ہے ۔حال ہی میں شعبہ زراعت کی کرپشن بے نقاب ہوئی کہ جس میں آب پاشی کے نظام سے لے کر ہر پہلو میں مختلف انداز میں استحصال کرنے کی حدیں پار کی گئیں کہ اب زراعت کا پیشہ اپنی آخری سانسیں لے رہا ہے جس پر ن لیگ کے نمائندے میاں عبدالمنان پھر سے زراعت کے ایشو پر بات کرنے کی بجائے بات گول کر گئے اور اپنے دیگر کارناموں پر روشنی ڈالنے لگے بدعنوانیاں تو جیسے پارٹی کے منشور میں ہوں ۔کراچی میں اگر عزیر بلوچ پکڑا گیا ہے تو وہ اپنے کاموں کی وجہ سے پکڑا گیا ہے! ایان علی پیپلز پارٹی کی کارندہ بن کر سامنے آئی لیکن اس کا نام ای سی ایل میں نہ ڈالنے کیلئے سفارش اسحاق ڈار صاحب نے کی تھی اس میں اسحاق ڈار صاحب کاکیا کردار ہے یہ وقت ہی بتائے گا!اور عزیر بلوچ سے تفتیش میں جن سیاسیوں کے نام سامنے آئے وہ اب تک عوام میں کیوں نہیں لائے گئے اس کے پیچھے کوئی نہ کوئی وجہ ضرور ہے کیوں کہ یہ لوگ دو یا دو سے زائد ممالک کے ساتھ عہد وفا کر بیٹھے ہیں اگر پاکستان میں جگہ نہ ملی تو کہیں اور سہی!جب کراچی میں فاروقی صاحب اور فاروق ستار صاحب کو گرفتار کرنے کیلئے رینجر نے چھاپے مارے تو پانی کے معاملے پر ایم کیو ایم نے ہڑتال کا اعلان کر دیا مطلب اس ڈر سے کہ کہیں فاروق ستارسے عوام اس بات کا جواب طلب نہ کر لے کہ کیا آپ اقعی ان معاملات میں ملوث ہیں جس پر آپ کے خلاف کاروائی عمل میں لائی گئی ہے؟عوام کو پھر لڑنے مرنے کیلئے میدان میں اتار دیا !!اور یہ ان سیاسیوں کا شیوہ رہا ہے کہ خود کو بچانے کیلئے عوام کو بھوک میں رکھو نہ پیٹ سے فہرست ملے نہ کوئی ان کے خلاف آوازبلند کرے۔ملک میں چلتے اس سیاسی اور آئینی بحران کو اگر کسی طریقے سے قابو پایا جا سکتا ہے تو وہ صرف اخلاقی جرأت کی وجہ سے ہے کم سے کم عوامی نمائندے ہی آواز اٹھا کر اپنے رہنماؤں کہ جن سیاسی پارٹیوں کے ساتھ وہ منسلک ہیں سے مطالبہ کر دیں کہ یا تو وہ خود کو ثابت کریں کہ وہ بے گنا ہ ہیں یا پھر سیاست چھوڑ کر عوام کی عدالت میں خود کو پیش کر دیں !!۔
Malik Shafqat ullah
About the Author: Malik Shafqat ullah Read More Articles by Malik Shafqat ullah : 235 Articles with 190280 views Pharmacist, Columnist, National, International And Political Affairs Analyst, Socialist... View More