بٰی بی عائشہ اور طالبان کمانڈر

اس بات سے انکا ر نہیں کیا جاسکتا کہ معاشرے کی حسن و قاراور استحکام کا راز عورت کی پر خلوص قربانیوں اور لازوال جدوجہد پر پوشیدہ ہے۔اس حقیقت کو اسلام سے بڑھ کر کون جان سکتا ہے،اسلام سے بڑھ کر کون اس پر عمل کرنے والا اور کروانے والا ہوسکتا ہے۔جس کے آنے سے پہلے عورت کے ساتھ ناجانے کتنی زیادتیاں کی جاتی تھی۔جب سے اسلام کا جھنڈا دنیا میں نمودار ہوا ہے تب سے عورت کو ایک اعلیٰ درجہ ملا ہے اور اصلی مقام ملا ہے اسلام نے بہت خاص اور مخصوص طریقے سے عورت کے لئے احکام اور حقوق بتائے ہیں جس پر چل کر عورت کو اسکا رتبہ حاصل ہوا کہ عورت کیوں اس دنیا میں آئی ہے۔لیکن حوا کی بیٹی شروع سے کسی نہ کسی مسئلے کا شکار رہی ہے ہمارے ہاں خواتین کا احترام کیا جاتا ہے لیکن پختون قوم اپنی عزتکی خاطر اپنی خواتین کے ساتھ جو بدسلوکیاں کرتے ہے اسکا اسلام میں کوئی ذکر نہیں ہمارے ہاں عزت کمانے والے پختون کبھی یہ بھی پوچھ لے اپنی خواتین کہ آپکے روز مرہ ضروریات کیا ہے ۔وہ خواتین جن کو گھر سے نکلنے پرمختلف طرح کی ازیتیں دی جاتی تھی مارا پیٹا جاتا تھا آج وہی خواتین عدالتوں میں نظر آرہی ہے ۔ہم بات کر رہے تھے عزت و ناموس کی اس کا مثال اگر میں قبائل پختوں کا دوں تو یہ کچھ زیادہ ہی بہتر ہوگا کیونکہ قبائلی علاقوں میں اب بھی وہی رسم و رواج قائم ہے۔میں کسی قوم یا شخص پر تنقید نہیں کرنا چاہتا ہر علاقے کا اپنا ایک دستور ہوتا ہے لیکن کبھی کبھار ظلم اتنا بڑھ جاتا ہے کہ انسان کچھ نہ کچھ کرنے پر مجبور ہوجاتا ہے۔جی ہاں ایسے ہی ایک دکھ بھری داستان بی بی عائشہ کی ہے جس پر ظلم کے پہاڑ توڑے گئے ہر قسم کے ظلم و زیادتیوں کاشکار رہی ہے۔بی بی عائشہ بہت چھوٹی تھی جب اسکی ماں اس دنیا سے رخصت ہوگئی اس کے بعد اسکے باپ نے پرورش کا زمہ لیا اور یوں وہ کم عمری میں زیادتیوں کا شکار بنی اب بی بی عائشہ کی عمر 12سال تھی کہ اسکے باپ نے ایک طالبان کمانڈر سے وعدہ کیا کہ میری بیٹی آپکی بیوی بنے گی۔ بی بی کم عمر بھی تھی اور علاقہ بھی ایسے لوگوں کا تھا جہاں خواتین کی آوازوں کو ہمیشہ کے لئے دفن کیا گیا تھا اب عائشہ نے بہت منتیں کی لیکن اسکی ایک نہ سنی گئی۔یوں بی بی عائشہ پر دن رات قیامت خیز گزر رہی تھی چھ سال چھ راتوں کی طرح گزر گئی اوراٹھارہ سال کی عمر میں عائشہ کی شادی ہوگئی ۔اب شادی کے بعدشوہر کا رویہ بلکل نا رواں تھا روز کا مارپیٹ کھانابی بی کا معمول بن گیا تھا جن کی وہ کافی عادی ہوچکی تھی ۔آخر عائشہ بی بی نے بھی ظلم سے آزاد ہونے کے لئے ایک ترکیب سوچی کہ کیونہ گھر سے بھاگ جاؤں اسی طرح اس نے موقع سے فائدہ اٹھا کر گھر سے نکلی کئی میلوں بعد پولیس نے عائشہ کو پکڑا اور کئی ماہ تک جیل میں رہی آخر پولیس نے بی بی کے باپ سے رابطہ کیا اور واپس اس کے حوالے کردیا ۔عائشہ پھر سے اس دوزخ میں چلی گئی وہی تکالیف ان کے زہن پر نقش تھی ظاہر ی بات ہے کئی سالوں کے زخم کئی ماہ میں بھر تو نہیں جاتے ۔عائشہ واپس اپنے گھر پہنچ گئی اور پھر سے وہی روٹین شروع ہوگیا باپ نے آخر اس کے اس اقدام پر واپس سسرال بیجھا وہاں سب نے مل کر عائشہ کو پہاڑ پر لے گئے اور وہاں اس کے ناک اور کان کاٹ دئیے اور وہی چھوڑ دیا ۔وہاں موجود امریکی ملٹری کے ورکرز نے اس کو زخمی حالت میں پایا اور فوراًہسپتال لے گئے کئی ہفتوں بعد بی بی نے اپنی داستان سنا دی اور یوں امریکی ورکرز نے مزید علاج کا عدہ کیا اور بی بی کو امریکہ لے گئے جہاں مصنوعی ناک اور کان لگوائے گئے ۔۔

اگست 2010میں عائشہ کی تصویر "Time Magazine"کے کور پر لگا اور ایک مشہور آرٹیکل بھی لکھا گیا "Afghan Women and the Return of the Taliban"
اس تصویر کو ساؤتھ افریقہ کے ایک فوٹوگرافر جوڈی بائیبر نے لیا تھا۔عائشہ نے کافی ظلم سہے لیکن اسے اسکا پھل بھی مل گیا اورآج بی بی عائشہ نیو یار ک شہر میں ایک ا چھی زندگی گزاررہی ہے۔۔١٧١١
islam mohmand
About the Author: islam mohmand Read More Articles by islam mohmand: 14 Articles with 24873 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.