بسم اﷲ الرحمن الرحیم
رمضان المبارک کے مقدس اور مبارک مہینہ کے ابتدائی ایام تھے کہ جب گیارہ
سال قبل 2005ء میں پاکستان کی تاریخ کا ہولناک زلزلہ آیا جس نے پورے ملک کے
درودیوار ہلاکر رکھ دیے۔ مظفرا ٓباد ، باغ، بالاکوٹ ، آزاد کشمیر و خیبر
پختونخواہ کے دیگر علاقوں میں ایک لاکھ سے زائد افراد لقمہ اجل بن گئے اور
لاکھوں افراد زخمی اور معذور ہو گئے۔یہ ایک عظیم سانحہ تھا جس سے ناقابل
تصور نقصانات ہوئے۔زلزلہ سے چند لمحے قبل تک کسی کو معلوم نہیں تھا کہ کچھ
دیر بعد کیا قیامت برپا ہونے والی ہے۔ اچانک زمین نے ہلنا شرو ع کیا تو
زمین میں گاڑے گئے پہاڑ وں کے حصے ریزہ ریزہ ہو کر بکھرنا شروع ہو گئے۔ جگہ
جگہ سے زمین پھٹ گئی، بلڈنگیں گر گئیں اور سکول، کالجز،قیمتی گھر، دوکانیں
اور مارکیٹیں زندہ انسانوں کی قبروں میں تبدیل ہو گئے۔ہر طرف چیخ و پکار
تھی۔ زلزلہ سے ماؤں کی گودیں، بہنوں کے بھائی، باپوں کے سہارے اور عورتوں
کے شوہر کھو چکے تھے مگر کوئی ان کی داستان غم سننے والا، ان کے دکھ بانٹنے
والا اور زخموں پر مرہم رکھنے والا نہیں تھا۔ سکولوں کے ملبے تلے دبے بچوں
کی دلدوز چیخیں بلند ہو رہی تھیں لیکن کوئی انہیں ملبے سے نکالنے والا نہیں
تھا۔ ہر طرف لاشوں کے ڈھیر اور زخموں سے چور نڈھال لوگ تھے جو بے بسی کے
عالم میں کسی غیبی مدد کے منتظر تھے۔ ان حالات میں سب سے پہلے اگر کسی نے
مشکل کی اس گھڑی میں اپنے ان مصیبت زدہ بھائیوں کی مدد کا فریضہ سرانجام
دیا تو وہ جماعۃ الدعوۃ کے رضاکار تھے۔ اگرچہ ان میں سے کئی رضاکار ایسے
بھی تھے جن کے اپنے خاندان اورعزیزو اقارب کے لوگ منوں مٹی کے نیچے دفن ہو
گئے لیکن انہوں نے حوصلہ نہیں ہارا اور چند منٹ بعد ہی جو کوئی جہاں کہیں
بھی تھا ‘ دوکانوں اور مکانات کے ملبے تلے دبے لوگوں کو نکالنے میں اپنی
پوری قوت صرف کرنے لگا۔
زلزلہ کے دوران جہاں ملک بھر کی رفاہی و فلاحی تنظیموں نے متاثرین کی مدد
میں بڑھ چڑھ کر حصہ لیا وہیں جماعۃ الدعوۃ کا خدمت انسانیت کیلئے بیش بہا
قربانیاں پیش کرنے والا ایک نیا رخ سامنے آیا اورساری دنیا نے دیکھا کہ
جماعۃالدعوۃ اسلام کے کسی ایک حکم پر نہیں بلکہ پورے دین پر عمل کرنے اور
بلا تفریق رنگ و نسل اور مذہب کے انسانیت کی خدمت کرنے والی جماعت ہے۔آٹھ
اکتوبر کے زلزلہ کے بعد متاثرہ علاقوں میں سب سے بڑا مسئلہ ملبے تلے دبے
زندہ بچ جانے والے افراد کو نکالنااور جاں بحق ہونے والے افراد کی لاشوں کی
تدفین تھا۔سخت بے بسی کا عالم تھا۔ زخمی مدد کیلئے پکار رہے تھے لیکن انہیں
ملبے سے نکالنے کیلئے بھاری مشنری موجود نہیں تھی۔ ان حالات میں
جماعۃالدعوۃ اور اس کے رفاہی ادارے فلاح انسانیت فاؤنڈیشن کے رضاکاروں نے
بغیر کسی بھاری مشنری اور جدید آلات کے سینکڑوں افراد کو ملبے سے نکالا
اورزخمیوں کو فی الفور طبی امداد دینا شروع کر دی۔ ڈاکٹرز عامر عزیز جیسے
انسانیت کے مسیحاؤں نے ایف آئی ایف کے میڈیکل کیمپوں پر پہنچ کر گاڑیوں کی
ہیڈ لائٹس کی روشنیوں میں مریضوں کے آپریشن کئے اوردرختوں کی ٹہنیاں باندھ
کرلوگوں کی ٹوٹی ہوئی ہڈیاں جوڑنے کی کوشش کی۔ اس دوران زندہ بچ جانے والے
افراد کیلئے تیار کھانے کا اہتمام شروع کر دیا گیا۔مظفر آباد، باغ اور
بالاکوٹ کے زلزلہ متاثرین اس بات کے گواہ ہیں کہ ان تک جو سب سے پہلی خوراک
پہنچی وہ جماعۃالدعوۃ کے رضاکاروں نے ہی پہنچائی تھی۔ زلزلے کے
بعدلینڈسلائیڈنگ کی وجہ سے مظفرآباد میں پینے کے پانی کی شدید قلت
پیداہوگئی۔ صرف چندمقامات پر چشمے اورنالے صاف تھے۔باقی انسانی وحیوانی
لاشوں کی وجہ سے پانی پینے کے قابل نہیں تھا۔اس ضرورت کو مدنظر رکھتے ہوئے
مظفر آباد میں فوری طور پر صاف پانی کابندوبست کیا گیا۔ زلزلے کے دوسرے دن
ہی جماعۃالدعوۃکے رضاکاروں نے پہلے سے قائم ہسپتال کے ملبے سے ٹوٹا پھوٹا
سامان نکال کر عارضی ہسپتال بناکر مریضوں کو علاج معالجہ کی باقاعدہ
سہولیات فراہم کرنا شروع کر دیں۔ اسی طرح باغ‘ بالاکوٹ اورمانسہرہ میں قائم
کئے گئے فیلڈ ہسپتال شب وروز متاثرین زلزلہ کی خدمت میں مصروف عمل رہے۔ ان
فیلڈ ہسپتالوں کے علاوہ بڑے پیمانے پر میڈیکل کیمپوں اور موبائل ٹیموں کے
ذریعہ 5لاکھ50ہزار سے زائد مریضوں کاعلاج معالجہ کیا گیا، جن میں 16ہزار
چھوٹے بڑے آپریشنز بھی شامل ہیں۔ یہ اعزاز بھی جماعۃالدعوۃ کو جاتا ہے کہ
اس نے سب سے پہلے متاثرین کے لئے20 خیمہ بستیاں قائم کیں۔ جہاں ہرخاندان
الگ طورپر اطمینان کے ساتھ رہ سکتا تھا۔ان خیمہ بستیوں کی انفرادیت یہ تھی
کہ یہاں بچوں کے لئے سکولوں‘ دینی تعلیم‘ مساجد وغیرہ کابھی اہتمام تھا
جبکہ خواتین کو سلائی کڑھائی اور دیگر گھریلوکام بھی سکھائے جاتے
تھے۔جماعۃالدعوۃکے رضاکاروں نے دریائے نیلم کے سرکش اور برفیلے پانی کو
کراس کرنے کیلئے ربڑ بوٹ اور بلندوبالا مقامات پر پہنچنے کیلئے خچر سروس کا
آغاز کیا جسے پوری دنیا میں شہرت ملی اور بین الاقوامی میڈیاکی طرف سے
رپورٹیں شائع کی گئیں کہ جماعۃالدعوۃ ان علاقوں میں پہنچ کر ریلیف و ریسکیو
آپریشن کر رہی ہے جہاں تک کوئی نہیں پہنچ سکا‘ یہی وہ امدادی سرگرمیاں تھیں
جنہیں دیکھ کر اقوام متحدہ، یونیسف ، ڈبلو ایچ او اور دیگر عالمی ادارے بھی
امدادی سامان کی تقسیم کیلئے جماعۃالدعوۃ سے مددوتعاون حاصل کرنے پرمجبور
نظر آئے۔عید الاضحی کا موقع آیا تو زلزلہ زدہ علاقوں میں ہزاروں جانور
قربان کر کے 1لاکھ 89 ہزار 910گھروں تک تازہ قربانی کاگوشت پہنچایاگیا۔
فلاح انسانیت فاؤنڈیشن نے بلند پہاڑی دیہاتوں اور قصبوں میں متاثرین کو
عارضی نوعیت کے گھربھی تعمیر کر دیے گئے۔گھروں کی تعمیر کے لئے ملک بھر سے
ہزاروں کارکنوں کوجمع کیاگیا۔دس دس افرادپرمشتمل ٹیمیں بنائی گئیں اور اس
طرح مظفر آباد میں 9دیہاتوں سمیت6,000 سے زائد گھر تعمیر کر کے متاثرہ
بھائیوں کے حوالے کئے گئے۔گھروں کی تعمیر کے لئے 45ہزار جستی چادریں فراہم
کی گئیں۔ متاثرہ علاقوں میں جن مساجدکی تعمیر میں تعاون یا مکمل تعمیر کی
گئیں ان کی تعداد 350ہے۔زلزلہ میں 5ہزار سکول مکمل طورپر ختم ہوگئے اور
تعلیمی نظام درہم برہم ہوکر رہ گیا۔ ان حالات کے پیش نظرفلاح انسانیت
فاؤنڈیشن نے 121 سکول مکمل کرنے کامنصوبہ بنایاجبکہ 215 سکولوں کی مالی
امداد کی گئی۔ایف آئی ایف کی جانب سے تعمیر کردہ ہرسکول میں کمپیوٹر لیب‘
پلے گارڈن اور ہاسٹل بھی بنائے گئے ہیں۔اسی طرح متاثرہ بچوں میں 32لاکھ
روپے کی کتابیں بھی تقسیم کی گئیں۔ 2005ء کے زلزلہ کو گیارہ برس گزر چکے
لیکن اس کی تباہ کاریوں کو پاکستانی قوم ابھی تک نہیں بھول سکی ہے۔2006ء
میں انڈونیشیا کے زلزلہ، 2008ء میں (زیارت)بلوچستان میں آنے والے
زلزلہ،2010ء کے بعد سے آنے والے مسلسل سیلابوں اور آواران کے ہولناک زلزلہ
میں بھی فلاح انسانیت فاؤنڈیشن کے رضاکاروں نے زبردست امدادی سرگرمیاں
سرانجام دی ہیں۔ موٹر بوٹس کے ذریعہ جماعۃالدعوۃ کے رضاکار‘ ان دوردراز کے
علاقوں سے لوگوں نکال کر لائے اور انہیں خوراک پہنچائی جہاں پہنچنے کا تصور
کرنا بھی محال تھا۔ ایف آئی ایف اس وقت بھی تھرپارکرسندھ، بلوچستان، خیبر
پی کے اور آزاد کشمیر سمیت پورے ملک میں کروڑوں روپے مالیت کے منصوبہ جات
پر کام کر رہی ہے۔ رمضان المبارک میں غرباء و مساکین میں کروڑوں روپے کا
راشن تقسیم کیا گیا اور افطار الصائم پروگرام کے تحت ایک لاکھ سے زائد
افراد کے روزانہ سحروافطار کا بندوبست کیاجارہا ہے۔ ان حالات میں ضرورت اس
امر کی ہے کہ پاکستانی عوام فلاح انسانیت فاؤنڈیشن کی ملک بھر میں جاری
امدادی سرگرمیوں میں بڑھ چڑھ کر حصہ لے۔ مجھے اس موقع پر مسلم لیگ (ن) کے
چیئرمین راجہ ظفر الحق کی مسلم میڈیکل مشن کے اسلام آباد میں منعقدہ ایک
سیمینار میں کیا گیا وہ خطاب یاد آرہاہے جس میں ان کا کہنا تھا کہ
جماعۃالدعوۃ کی ریلیف سرگرمیوں سے بلوچستان اور سندھ میں علیحدگی کی
تحریکیں دم توڑ رہی ہیں۔ میں سمجھتاہوں کہ ان کی یہ بات بالکل درست ہے۔
فلاح انسانیت فاؤنڈیشن کے رضاکاروں کی یہ قربانیاں ہیں کہ آج آواران اور
مشکے جیسے علاقے جو علیحدگی پسندوں کا گڑھ سمجھے جاتے تھے وہاں پاکستان کے
حق میں نعرے لکھے دکھائی دیتے ہیں۔ جماعۃالدعوۃ کا یہی وہ کردار ہے جس کی
وجہ سے بین الاقوامی قوتوں کو اس کی رفاہی و فلاحی سرگرمیاں بھی برداشت
نہیں ہیں۔ اﷲ تعالیٰ سے دعا ہے کہ وہ وطن عزیز پاکستان کو زلزلوں اور دیگر
قدرتی آفات سے محفوظ رکھے اورمصائب و مشکلات میں مبتلا بھائیوں کی ہر ممکن
مدد کی توفیق عطا فرمائے(آمین)۔ |