اس سے پیشتر کہ اصل موضوع کے متعلق
چند ایک معروضات پیش کروں ،ایک تمہیدی پس منظر کوزیر بحث لانا گزیرہے۔
کیونکہ اس پس منظر کے بغیر نفسِ مضمون کی اہمیت و افادیت کماحقہ اجاگر نہیں
ہو سکتی ہے۔ اور کبھی کبار نفسِ مضمون سے زیادہ تمہیدی پسِ منظر طوالت اور
وضاحت کا طالب ہو اکرتا ہے۔ ۔ چند ایک اہم اورجواب طلب سوالات کی روشنی میں
بحث کی ابتدا کرنا مطلوب ہے۔ اور وہ سوالات کچھ اس طرح ہیں کہ کیا غلامی
اور کنیزی اسلام کی ایجاد کردہ بدعت ہے؟اگر یہ بدعت اور ننگِ انسانیت رسم
قبل ِ اسلام وجود رکھتی ہے تو اسلام نے اس کی بیخ کنی کے لئے کون سے
اقدامات کئے ہیں؟وہ کون سے عوامل ہیں کہ جن کی بنیاد پر اسلام نے غلامی اور
کنیزی کو یک لخت ممنوع قرار نہیں دیا ہے؟پیغمبرِاسلامؐ نے غلاموں اور
کنیزوں کی آزادی کے سلسلے میں کون سے قابلِ قدر اقدامات کئے ہیں اور ان کے
معاشرتی ،معنوی ، اخلاقی اور تاریخی اثرات کس قدر ہمہ جہت اور ہمہ گیر ثابت
ہوئے؟کیا اسلام کے پاس کوئی نمونہ بھی ہے یا پھر تعلیمات ہی تعلیمات
ہیں؟پیغمبرِ اسلام کی کوئی خاص حکمت ِعملی کہ جس کی نظیر دیگر مصلحین کے
یہاں ملنا مشکل ہی نہیں بلکہ نا ممکن ہے؟
غلامی اور کنیزی کا معاشرتی اور تاریخی پس منظر:۔
دشمنانِ اسلام نے دینِ اسلام پر بہت سی ایسی تہمتیں لگائی ہیں کہ جو سراسر
بے سروپا ہیں۔ ان تہمتوں میں سے ایک تہمت یہ بھی ہے کہ ایک عورت کو بطورِ
کنیز تسلیم کرکے دینِ اسلام بحیثیت مجموعی توہینِ نسوانیت کا مرتکب ہوا ہے۔
نیز غلامی کے سلسلہ کو آگے لے جانے میں پیش پیش رہا ہے یہ ہرزہ سرائی اصل
میں یا تو صدرِ اسلام کی دنیا کے حالات اور علی الخصوص معاشرتی پسِ منظر سے
ناواقفیت کا نتیجہ ہے یا پھر تمام معاملات کو سمجھ بوجھ کر بھی دین مبین کے
خلاف پروپگنڈہ مہم کا ایک حصہ ہے۔ دراصل جس دور میں اسلام کا ظہور ہوا اس
دور میں پوری دنیا گوناگوں انسانی بحرانوں سے گزر رہی تھی۔ علی الخصوص
جزیرہ نمائے عرب میں یہ بحران عروج پر تھے۔ تمام مسائل کا تذکرہ کیا جائے
تو ایک طویل داستان ِدردہے کہ جس کو لکھنے کے لئے دامن مضمون میں گنجائش
نہیں ہے۔ لہذا اس زمانے کے دو ایک معاشرتی نقائص کو زیرِ بحث لاتے ہیں کہ
جس کا موضوع کے ساتھ راست تعلق بھی ہے۔ ان میں سے ایک عیب سماجی ناہمواری
تھا اور دوسرا عیب مردو زن کے مابین صنفی امتیاز۔ معاشرتی اور معاشی
ناہمواری نے بردہ فروشی جیسی لعنت کو جنم دے کر انسانیت کو شرمساری سے
دوچار کیا ۔ اور صنفی امتیاز نے مرد کو ایک غیر منصفانہ تفوق بخشا کہ جس نے
عورت کی عزت و حرمت کو بری طرح کچلا ۔ غریب اور کمزور طبقے سے وابسطہ
افرادکو بلا امتیازمردو زن حیوانوں اور بے جان اشیاء کی طرح اشیائے خرید و
فروخت میں شمار کیا گیا۔اور مدت مدید سے برد ہ فروشی کے بازار وں میں
انسانیت کی تذلیل ہو رہی تھی۔ چنانچہ جب کوئی قبیح عمل انسانی معاشروں میں
ایک طویل مدت تک رائج رہے تو پھر یہ قبیح عمل قبائے قباحت کچھ یوں غیر
محسوس انداز میں اتار پھینکتا ہے جیسے رینگتے ہوئے سانپ کے بدن سے پرانی
خال اترجائے پھر اسی قبیح فعل کو معاشرے میں بہ نظرِ استحسان دیکھا جاتا ہے۔
بردہ فروشی کی طویل المدت غیراخلاقی رسم اسلام کے ظہور سے سالہاسال پہلے
قانونی حیثیت اختیار کر چکی تھی۔ رسولِ اسلام نے جب اسلام کی بنیاد ڈالی تو
غلاموں اور کنیزوں کی لین دین میں نہ معاشرتی سطح پر کوئی قباحت تھی اور نہ
رائج الوقت اخلاق و اصول کی رو سے اس میں کسی قسم کی کوئی کراہت تھی۔
انسانی تاریخ سے ایسی بے شمار مثالیں پیش کی جاسکتی ہیں جسے طبقاتی اونچ
نیچ کی مادرانہ آغوش میں بردہ فروشی پلتی دکھائی دیتی ہے۔ ایک انسان کی
معاشرتی قدرو قیمت کا معیار رنگ و نسل، صنف اور معاشی بنیادوں پر استوار
تھا۔ ایک انسان کو خدا سمجھ کر پوجا جاتا تھا اور اسی نوع کے دوسرے انسان
کو زمین پر رینگنے والے کیڑے مکوڑے کی طرح پاؤں تلے روندا جاتا تھا۔ دلچسپ
بات یہ ہے کہ اس طبقاتی نابرابری کے سیاہ بادل پوری دنیاکی فضائے بسیط پر
یکساں طور چھائے منڈلا رہے تھے۔ جسے پورا عالم ضلالت کی تاریکیوں میں ڈوبا
ہوا تھا اور اس سلسلے میں عرب و عجم کے مابین کوئی تفریق تھی نہ ہی عرب و
غرب کے درمیان کوئی تفاوت۔ بطورکلی اولادِ آدم کی اکثریت حیوانوں سے بھی
بدتر زندگی گزار رہی تھی۔ اسلام کے ظہور سے قبل تاریخی حقائق کے پیش نظر
دور دور تک انقلاب و تغیر کے آثار دکھائی نہیں دیتے ہیں۔
مصلح نما مفسد:
جن چند ایک افراد کو اس حوالے سے انقلاب آفرین کردار کا حامل قرار دیا جاتا
ہے وہ بھی کسی نہ کسی اعتبار سے یا تو خود بھی اس طبقاتی تقسیم کا شکار تھے
یا پھر اس سے فروغ دینے میں پیش پیش نظر آتے ہیں۔ بالفاظ دیگر جن لوگوں سے
زوال یافتہ معاشرتی اور مذہبی اقدار کے احیا ء متوقع تھی ۔ وہ خود بھی مردہ
خوری میں مشغول تھے۔مفاد پرست مذہبی رہنماووں اور محل نشین حکمرانوں اور ان
کے حاشیہ نشینوں پر مشتمل ایک قلیل تعداد نے کشیر تعداد عام انسانوں کا
جینا دوبھر کیا تھا۔ اس طبقاتی نزع کے نتیجے میں جن سربرآوردہ تاریخی
شخصیتوں نے انسانی مساوات کی خاطر فکری یا عملی جدوجہد کا آغاز کیا ان میں
مزدک کا نام نامی کافی مشہور ہے اس شخض کو بعض مفکرین سوشلزم کا باوا آدم
گردانتے ہیں۔پیغمبر اسلام کی ولادت سے قریباً ایک صدی قبل یعنی چھٹی صدی
عیسوی کے آغاز میں اس شخص نے ناتراشیدہ اشتراکیت کا نظریہ پیش کیا۔ ایک
جانب اس نے طبقاتی اونچ نیچ کو ختم کرنے کیلئے ان تمام تر عوامل کے خاتمہ
پر زور دیا کہ جو اس کی اپنی نظر میں معاشرتی ناہمواری کے ذریعے بردہ فروشی
جیسی لعنت کو معرضِ وجود میں لانے کے ذمہ دار ہیں تو دوسری جانب صنفی
اعتبار سے وہ خواتین کے حق میں مساوات کے قائل نہیں تھا۔ عورت کے متعلق
مزدک کے پست خیالات کا اندازہ اس کے اس قول سے بخوبی ہوسکتا ہے کہ مرد
حضرات آگ، پانی اور گھاس کی طر ح دولت اور عورتوں کو اپنی مشترکہ ملکیت
سمجھیں۔ اس طر ح گویا اس نے اپنے ہی پیش کردہ نظریہ مساوات کے پاوں پر اپنی
کج فکری کا کلہاڑا دے مارا۔ (دبستان مذاہب، از محسن فانی بحوالہ روحِ اسلام
سید امیر علی صفحہ نمبر۔۲۷)
یہ حال تھا انسانی مساوات کے دعوے داروں کا، اندازہ لگالیجئے ان لوگوں کے
سوچنے کا اندازکس رنگ ڈھنگ کا ہوگا کہ جن کے تزک و احتشام کا دارو مدار
طبقاتی تقسیم پر ہی تھا۔ الغرض بحیثیت مجموعی انسانیت کی مٹی ہر سطح پر
پلید ہورہی تھی۔ بظاہر آزاد کہلانے والے افراد بھی غلامانہ زندگی جینے پر
مجبور تھے غلاموں کی درگت کیا رہی ہوگی؟ کشیر تعداد اولادِ آدم کی جسمانی ،
ذہنی اور فنی صلاحیتں اور تمام تر توانیاں مٹھی بھر امرا، طبقہ اشراف اور
مذہبی کارندوں کی عیش و عشرت اور آسائش و راحت پر صرف ہوا کرتی تھیں۔ صورت
حال کا خوبصورت مرقع قرآن کریم کی آیت نے کھینچا ہے گوکہ یہ آیت کسی اور
سیاق و سباق میں نازل ہوئی ہے۔ لیکن ماقبل اسلام انسانیت کا سوادِ اعظم جس
کرب سے گزر رہا تھا اور دل ہی دل میں جس تمنا کا اظہار کررہا تھا اس کا عکس
آبِ ذلال کی مانند شستہ و صاف آیت میں دیکھنے کو ملتا ہے۔
’’تمہیں کیا ہوگیا ہے کہ تم خدا کی راہ میں جہاد نہیں کرتے ہو اور خصوصاً
ان بے بس مردوں، عورتوں اور بچوں کو ظلم سے بچانے کیلئے جنگ کرنے نہیں اٹھ
رہے ہو جن کا حال یہ ہے کہ وہ دعائیں کرتے ہیں کہ اے ہمارے رب! ہمیں اس
بستی سے نکال جہاں کے لوگ ظالم ہیں۔ اور ہمارے لئے اپنی جانب سے کسی کو
حمایتی بناکے بھیج، اور اپنی جناب سے کسی کو ہمارا مددگار بناکے اٹھا (سورہ
نسا ء آیت ۵۷ ترجمہ از محسن انسانیت ۔۔نعیم صدیقی)
محسنِ انسانیت ؐکا ایک اہم ہدف:
قرآن کریم نے یہ جو انسانی معاشروں کی ابتر صورت حال کا نقشہ کھینچا اور اس
کی قلب ماہیت کی موہوم سی تمنا انسانی قلوب میں اندر ہی اندر انگڑائیاں لے
رہی تھی اس کا تعلق کسی مخصوص خطہ زمین سے ہوتا تو اصلا ح قدرے آسان تھی
لیکن دنیا کا قریہ قریہ درد سے کراہ رہا تھا۔ عالمگیر پیمانے پر زخم خوردہ
انسانیت دہائی دے رہی تھی۔ ایسے میں خدائے کریم کا بحرِ رحم و کرم جوش میں
آگیا ان کی یہ فریاد ’’کہ ہمارے لئے اپنی جانب سے کسی کو حمایتی بناکے بھیج
‘‘پروردگار نے سن ہی لی اور اپنی جانب سے جنابِ رسالت مآبؐ کو بھیج ہی دیا۔
رحمتاً للعلمین ؐکے سامنے سب سے بڑا چلینج انسان کو شجرو حجر اور آفتاب و
ماہتاب، خاک و آب، جیسے مادی اشیا کی پرستش کے پہلو بہ پہلو انسان کو بذاتِ
خود انسان کی غلامی و بندگی سے آزاد کرانا تھا۔ اور چلینج بھی مقامی سطح پر
ہی نہیں عالمگیر سطح کا تھا۔ انسان کو انسان کی بندگی و غلامی سے نجات
دلانا پرستشِ اشیائے مادی کی لت کو ترک کرنے سے قدرے پیچیدہ اور سخت تھا۔
کیونکہ بہرحال اشیائے مادی اپنی جانب سے کوئی مزاحمت نہیں دکھاتی ہیں۔ ان
کو تو انسانوں کی پرستش قبول ہی کب تھی۔ جو اسے دوام بخشنے کی کوشش کرتیں۔
یہ گوناں گوں اشیا تو اس وقت بھی خدائے واحد کی تسبیح و تحلیل میں محو ہوتی
ہیں کہ جب انہیں انسان جیسا اشرف المخلوقات پوجنے میں مشغول ہوتا ہے۔ گویا
ان اشیا نے انسان کی جانب سے عائد کردہ تہمتِ ربوبیت کبھی بھی اپنے سر نہیں
لی۔ لیکن دوسری جانب سرپھرے فردِ بشر کو اپنے ہی جیسے بشر کے مقابلے میں
تھوڑی سی پزیرائی اور برتری کیا ملی کہ اس نے ’’انا ربکم الاعلیٰ‘‘ کا نعرہ
لگادیا۔ اور جب اسے اس مصنوعی ربوبیت کے تئیں کسی بھی قسم کا خطرہ لاحق نظر
آیا تو اس نے مزاحت دکھائی اور اپنی جھوٹی آن بان اور شان کو محفوظ رکھنے
کی خاطر کشت و خون پر اتر آیا۔ بعض دفع اپنے سے پس تر چیزوں کی پرستش کو
بھی انسان اپنی معاشرتی برتری کے لئے استعمال کرتا ہے۔
غلامی ایک مرضِ دائمی:
یہ بات ذہن نشین ہونی چاہیئے کہ بردہ فروشی اور غلامی جیسے سنگین مسئلہ کو
سرسری نگاہ سے دیکھنا سطحی فکر پر منتج ہوگا۔ غلامی کی بیماری نہ صرف
معاشرتی سطح پر انسانی سماج کے رگ و ریشہ میں سرائیت کرگئی تھی بلکہ ہر
دوجانب (یعنی مالک اور غلام یا مالک اور کنیز)کی نفسیات میں بھی رچ بس گئی
تھی۔ گویا ہر دو جانب یہ فطرت ثانیہ بن گئی تھی۔اس پر مستزاد یہ کہ مذکورہ
مرض کی یہ کارگزاری صدیوں پر محیط تھی۔ چنانچہ اس سلسلے میںAncient Law کے
مصنف سر ہینری سمر رقم طراز ہے کہ’’ غلامی اور بردہ فروشی کی بنیاد ایک
ایسی نفسیاتی خواہش فراہم کرتی ہے کہ جس کے تحت ایک انسان اپنے جیسے دوسرے
انسان کی جسمانی قوت و حرارت کو اپنے آرام و آسائش اور راحت و مسرت کیلئے
استعمال کرے۔ اور مذکورہ خواہش اتنی ہی قدیم ہے کہ جتنی انسان کی فطرت
۔(بحوالہ ٔروحِ اسلام۔ از سید امیر علی صفحہ نمبر۲۷)اس بات سے اندازہ لگایا
جاسکتا ہے کہ اس عظیم انسانی طبیب کو کس ماہرانہ طبابت سے کام لینا تھا کہ
جس کے بارے میں اس کے غلامِ خاص یعنی شاہِ ولایت نے بجاطور پر فرمایا’’
طَبِیب دَوَار بِطِبِہ‘ یعنی وہ طبیب جو اپنا متحرک مطب (Clinic) سمیت گھر
گھر اور شہر بہ شہر پھرتا رہاتاکہ انسان کے قدیم و جدید تمام بیماریوں کا
علاج کرے۔
علاج کی حکمت عملی:
چنانچہ اکثر و بیشتر طویل المدتی بیماری (Chronic Disease) کا علاج بھی
طویل المدتی ہوا کرتا ہے۔ غلامی کی بیماری کو جڑ سے اکھاڑ پھینکنے کے لئے
آنحضورؐ نے بھی اسی طویل المدتی علاج کا انتخاب کیا۔ اور اس سلسلے میں اپنے
صحابہ کرام خصوصاً اہل بیت ِ عظام کے گھروں کو شفاخانوں میں تبدیل کیا۔ کج
فکر نکتہ دانوں کا یہ طفلانہ استفسار کس قدر اوچھا ہے کہ رسولِ اسلامؐ نے
کیوں کسی مرد کو غلام بنانے اور کسی عورت کو کنیز بنانے کو کلی طور اور
یکسر حرام قرار کیوں نہیں دیا؟ یہ سوال ایسا ہی ہے کہ جیسے کوئی ٹیومر کا
شکار مریض مرض کی اصلیت سے لاعلمی کی بنیاد پر کسی ماہر سرجن سے یہ مطالبہ
کہ وہ بغیر آؤ تاؤ دیکھے چھرا اٹھائے اور اس ٹیومر کا آپریشن کردے۔ حالانکہ
یہ عجلت پسندی اس کی بیماری کو اور زیادہ خطرناک رخ دے سکتی ہے۔ اس مخصوص
قسم کی بیماری کے لئے ایک مخصوص لائحہ عمل اپنانے کی ضرورت ہوتی ہے۔ جسے آج
کل کی جدید طب کی اصطلاح میں (medical treatment plan)کہا جاتا ہے جس کے
مطابق کم از کم مرض کی تشخیص ،اس کا اصل ماخذ(Source) اور بنیادی سبب، مقام
،یعنی کون سی جگہ اس کی زد میں ہے اور بیماری کی موجودہ نوعیت کیاہے ؟جیسے
اہم پہلووں کو ہرگز نظر انداز نہیں کیا جاسکتا ہے۔ بعض دفع اصل علاج سے قبل
مقدماتی علاج کی بھی ضرورت پڑتی ہے۔ اور یہ مقدماتی علاج اصل علاج سے کبھی
کبار بہت زیادہ وقت طلب ہوا کرتا ہے۔
دائمی مرض کے لئے طویل المدتی علاج:
پیغمبرِ اکرمؐ کے سامنے مندرجہ ذیل دو ایسے طریقے تھے کہ جن سے اس بدعت کا
خاتمہ ممکن تھا ۔
۱۔ ہنگامی اور جنگی بنیادوں پر انقلابی اقدامات اٹھا کرآناً فاناً اس لعنت
سے انسانیت کو نجات دلائی جاتی ، اور اس کے ممکنہ نتائج کواصلاً خاطرمیں ہی
نہ لایا جاتا۔
۲۔ایک دیرپا اور دور رس حکمت عملی کے تحت ارتقائی اور تدریجی راہ و روش
اختیار کی جاتی۔تاکہ اس کی جڑیں ایک غیر محسوس طریقے پر اکھاڑ پھینک دی
جاتیں۔
ٓآپ ؐ نے ثانی ٔالذکر طریقۂ کار اختیار کر کے اس طویل الحیات بدعت کے خلاف
ایک طویل المدتی جدو جہد شروع کی جس کے دیر پا اور خاطر خواہ نتائج بر آمد
ہوئے۔ بالفرض رسولِ رحمت بیک جنبش قلم یہ فرمان جاری کرتے کہ تمام غلاموں
اور کنیزوں کو آناً فاناً آزاد کیا جائے۔ اور وہ جدھر جانا چاہیں چلے
جائیں۔ اور آئندہ کیلئے کسی کو بھی یہ حق حاصل نہیں ہوگا کہ وہ مردوں میں
سے کسی کو غلام اور عورتوں میں سے کسی کو کنیز نہ بنائے تو اس کے ممکنہ
منفی نتائج جو سامنے آجاتے ان کا تذکرہ درج ذیل نکات میں کیا پیش کیا
جاتاہے۔
٭ اس بات کا قوی امکان تھا کہ بردہ فروشوں اور غلاموں کی جسمانی قوت پر
منحصر افراد کی مالکانہ نفسیات مزاحمت پر اتر آتی اس طر ح مسئلہ ایک اور
نئے نزع کا روپ دھارن کرلیتا۔ ․
٭ اسلام ان غلاموں کو نہ صرف گھر کی چاردیواری یا کھیت کھلیان کے حدود
اربعہ سے آزادی دلانا چاہتا ہے بلکہ ان کو پھر سے اس انسانی کرامت و بزرگی
سے آشنا کرنا چاہتا ہے کہ جس کو انہوں نے نہ صرف اپنے شعور (Concious)اور
تحت الشعور (Subconscious)بلکہ لاشعورسے بھی محو کر دیا تھا۔اگر وہ فوری
طور آزاد ہو کر واپس اپنے اپنے معاشروں میں زعم ہوتے توغلاموں کے تئیں
حقیقی آزادی کا اسلامی تصور تشنہ ہی رہ جاتا۔ پس اگر وہ عجلت پسندی کے تحت
آزاد ہوجاتے ان کے ماتھے سے داغِ غلامی ہرگز ہرگز نہ مٹتا۔ وہ بحیثیتِ غلام
ہی آزاد ہوجاتے اور پھر جہاں بھی چلے جاتے انہیں کوئی یہ بتانے والا نہ
ملتا کہ وہ آزاد پیدا ہوئے ہیں اور آزادی کے ساتھ جینا ان کا پیدائشی حق
ہے۔
٭اپنے غلام کو بہ جبرو اکراہ آزاد کرانے سے ایک مالک کو ہرگز اس بات کا
احساس نہ ہوتاکہ اس کا غلام بھی انسان ہونے کے ناطے اس کے مساوی حقوق رکھتا
ہے۔ بلکہ وہ عمر بھر دل ہی دل میں کڑھتاکہ ااسے اپنے غلاموں یا کنیزوں کے
تئیں زبردستی دست بردار کیا گیا۔
٭ یقینا غلاموں کے حق میں اسلام کی تحریک ِ آزادی کا بھی اصل مطمع ِ نظر
اور آخری ہدف مطلق آزادی تھا لیکن مطلق آزادی کی حصولیابی سے پیشتربھ غلامی
سے وابسطہ چند ایک مسائل جیسے کے تیسے رہتے۔لہٰذا مطلق آزادی سے قبل ان
مسائل کا حل پیش کرنا لازمی تھا ۔ ان مسائل میں سے غلاموں کے عزت و وقار کی
بازیافت، ان کی بے خانمائی و بے سروسامانی اوران کی غربت و عسرت کا مداوا
قابلِ ذکر ہے۔
ایک طویل المدتی حکمت عملی کے تحت اسلامی معاشرے کے ہر فرد کو یہ باور
کرایا گیا کہ غلامی ایک ایسی بدعت ہے جس کی پزیرائی اسلامی معاشروں میں
قطعا ًنہیں ہونی چاہیئے ۔آپ ؐنے نہ صرف نظری اعتبار سے غلاموں اور کنیزوں
کی حقیقی آزادی کو ملحوظِ خاطر رکھا بلکہ عملی اعتبار سے بھی قابلِ قدر اور
انقلاب آفریں اقدامات اٹھائے۔ متعدد احادیث میں غلاموں اور کنیزوں کو آزاد
کرانے کے عوض اجرِ عظیم کی تشویق دلائی گئی۔ یہاں تک کہ بعض شرعی فرائض میں
کوتاہی کی بھر پائی کے لئے غلاموں او ر لونڈیوں کو آزاد کرانے کا کفارہ
مقرر کیا گیا مثال کے طور پر قضا روزوں کا کفارہ مسکینوں اور غریبوں کو
کھانا کھلانے کے ساتھ ساتھ غلاموں کو آزاد کرانا قرار پایا۔ نیزارادی قسموں
کو جان بوجھ کر توڑ دینے کا جو کفارہ قرآن میں مذکور ہے اس کے مطابق دس
مسکینوں کو معیاری غذا فراہم کرنے اور ڈھنگ کا لباس پہناننے کے ساتھ ساتھ
ایک بندے کو آزاد کرانے کی شرط بھی شامل ہے۔(سورہ مائدہ آیت نمبر ۸۹تفسیر
قرآن از علامہ نقن نقی )۔بالفاظِ دیگر ’’رحمتِ حق بہانہ می جوید‘‘۔علاوہ
ازیں غلاموں کی مجبوری کے پیش ِ نظر شریعت اسلامی نے ان کوبعض شرعی احکام
سے بری الذمہ قرار دیا ہے ۔ مثال کے طورپر غلام پر جمعہ اور حج اور بعض
دیگر احکام واجب نہیں ہیں۔
بندہ و آزاد کے مابین مساوات:
متذکرہ بعض وجوہات کی کی بنا پرجو غلام اور کنزیں آزاد ہونے سے رہ گئے ان
کے متعلق اسلام میں حسن سلوک کی انتہائی تاکید ملتی ہے۔ اسی تاکید کا ثمرہ
ہے کہ انہیں مالک کے گھر میں ہی آزادی کا ماحول فراہم ہوا۔ اسلام سے قبل
غلاموں کے ساتھ جو غیر انسانی بلکہ حیوانوں سے بھی بدتر سلوک روا تھا وہ
یکسر تبدیل ہوگیا چنانچہ کنیز و غلام کا معاشرہ میں وہی عزت و وقار لوٹ آیا
جو کہ آزاد انسان کا ہونا چاہئے۔ وہ تمام جسمانی اور روحانی آزار جو ایک
غلام و کنیز کا مقدر بن چکے تھے۔ یکایک فرو ہوگئے۔ غلام و کنیز کو مطلق
آزاد دلانے سے یہ امر حد درجہ قابلِ تحسین و ستائش ہے۔ کہ انہیں اب ان کے
مالک کے افرادِ خانہ میں شامل کیا گیا۔ ان کے تئیں تمام انسانی، معاشرتی،
مذہبی حقوق بحال ہوئے۔ وہ خانہ مالک میں بھی آزادی کے ساتھ رہنے لگے۔ مطلق
آزادی کی بنسبت غلاموں کو ایک فردِ آزاد کی طرح خانہ ٔ آقامیں عزت و وقار
کے ساتھ بسانا کافی دشوار تھا ۔اور انہیں انہی کے مالک کے دل میں بسانا اسے
بھی دشوار تر تھا اور اس سلسلے میں لازمی تھا کہ بے جا عربی حمیت ،مالکانہ
غرور و نخوت کی دھول میں اٹی ہوانسانی نفسیات کو اسلامی مساوات کے آب ِ
زلال سے دھویا جاتا۔اور رسولِ اسلام نے یہ ناقابلِ فراموش کارنامہ انجام دے
ہی دیا۔اس کارنامے کا مثبت اثر نہ صرف خانگی سطح پر بلکہ معاشرتی سطح پر
بھی سامنے آگئے اور اس کے طفیل غلام ،مالک کے گھر میں بلکہ معاشرے میں بھی
آزادانہ طور اپنا کردار نکھارنے اور سنوارنے میں مصروفِ عمل ہوئے۔ ان کے
ہنر کو جلا ملی۔ ان کے ماتھے سے داغِ غلامی محو ہوگئے۔ انہیں کھوئی ہوئی
انسانی عظمت دوبارہ نصیب ہوئی۔ وہ سفر و حضر میں اصحاب ِمحمدؓ اسے بڑھ کر
اہلبیت ِمحمد مصطفی ؓ کے ہم پیالہ و ہم نوالہ نظر آنے لگے۔ وہ جو تنزل کی
آخری حدوں کو پار کرگئے تھے اب اوجِ ثریا کے مقیم ہوئے۔ انسانی مساوات کا
اس سے بڑھ کر مثال اور کیا ہوسکتی ہے کہ جنہیں صدیوں سے مسلا کچلاجاتا رہا
اب انہیں سر آنکھوں پر بٹھایا جارہا ہے۔ جو عرصہ دراز سے بے خانمائی اور
دربدری کا شکار تھے، دلوں کے مکین ہوئے۔ نفرتوں کے ازلی حقدار سمجھے جانے
والے محبتوں کے حقدار ٹھہرے۔ ان کی ذہنی، فکری، عقیدتی اور نفسیاتی آوارگی
کو اسلامی فلسفہ حیات کی چھترچھایا ملی۔ اس سے بڑھ کر قدرت ان کی شان کو
دوبالا کیا کرتی کہ انہیں کعبہ جیسا قبلہ ملا، صدر اسلام کا مثالی معاشرہ
ملا، قرآن جیسالائحہ عمل اور محمدؓ جیسا رہبر ملا۔ اور حقیقتا وہی فرد آزاد
ہے کہ جو غلامِ محمدؓ ہے اور ہر وہ شخص ہزارہا قسم کی دیکھی اور ان دیکھی
زنجیرہائے غلامی سے بندھا ہوا ہے کہ جو اس دائرہ غلامی سے پرے ہے۔
محمدؓ کی غلامی ہے سند آزاد ہونے کی
یہ کوئی شاعرانہ تعلی ہے نہ مجذوبانہ بڑھ، کسی ساون کے اندھے عقیدتمند کو
بند آنکھ سے دکھائے دینے والی ہر یالی ہے نہ والہانہ جذبات سے مغلوب کسی
شخص کی جذباتیت، بلکہ تاریخی حقائق کی روشنی میں لکھی گئی وہ حقیقت ہے جس
کے اپنے تو اپنے غیر بھی معترف ہیں۔ اور آج بھی جہاں کہیں انسانیت کے ماتھے
پر یہ بدنما داغ کسی بھی روپ میں دکھائی دیتا ہے۔ اس کو مٹانے کے لئے صرف
اور صرف اسلام کا آبِ زلال ہی کارگرسمجھتے ہیں۔ اس کا برملا اظہار مسٹر
تھامپسن اپنی ایک تحریر میں کرتے ہیں۔ جو انہوں نے ۱۴ نومبر ۱۸۸۷ ء کو لندن
ٹائمز میں میں چھپوائی تھی۔غالباً لندن ٹائمز کے ایڈیٹر سے مخاطب ہو کر
لکھتے ہیں ’’کہ میں کسی پس و پیش کے بغیر کہتا ہوں اور آ پ کے نامہ نگاروں
کے مقابلے میں مشرقی مرکزی افریقہ کے زیادہ تجربہ کی بنا پر کہتا ہوں کہ
اگر ان علاقوں میں غلاموں کی تجارت جاری ہے تو اس کی وجہ یہ ہے کہ یہاں
اسلام کی اشاعت نہیں ہوئی ہے‘‘(بحوالہ ٔ روحِ اسلام از سید امیر علی صفحہ
نمبر ۴۱۶)
پیغمبرِ اکرمؐ کی مساعیٔ جمیلہ:
دورِ پیغمبر میں ایسے معتددافرادکا پتہ ملتا ہے کہ جو پیغمرِ اکرمؐ کی نظر
ِ عنایت سے آزادی کی چاشنی سے لطف اندوز ہوئے لیکن اسے پیشتر ان کا کام
ودہن اسلامی تعلیمات کی مٹھاس سے آشنا ہو گیا تھا ۔یہی وجہ ہے کہ آزادی کے
باوجود انہوں نے اسلامی سر زمین کو ترک کرنا گوارا نہ کیا ۔حضرت زید بن
حارثہ کے متعلق مشہور ہے کہ انہیں آنحضورؐ نے خرید کر کچھ عرصہ بعد آزاد
کیا لیکن انہوں نے اپنے والد کے ساتھ جانے سے بنی ؐ کے گھر میں ہی رہنے کو
ترجیح دی۔یہاں پر یہ نکتہ خود بخود ابھر کر سامنے آ جاتا ہے کہ اگر زید بن
حارثہ کے ساتھ معمولی سا بھی ناروا سلوک روا رکھا گیا ہوتا تو کیا وہ آزادی
کے باوجود اس گھر میں ایک لمحے کے لئے بھی نہیں ٹھہرتا؟ زید ؓ کا خانۂ
رسالت کا ترک نہ کرنا اس بات کا عملی ثبوت ہے کہ غلاموں کے ساتھ
پیغمرِاکرمؐ کا سلوک مشفقانہ تھا۔ غلاموں کے تئیں آپ کا مشفقانہ رویہ بتاتا
ہے کہ آپ ایک غلام کے آقا نہیں بلکہ ایک بے یارو مددگارانسان کے کفیل
تھے۔اور اس کفالت میں ذرہ برابرکوتاہی نہیں کی۔ آپ ؐ غلام و آقا کے جداگانہ
اور امتیازی معیار کے قائل نہ تھے۔علامہ اقبال نے اس بات کی عکاسی اپنے ایک
شعر میں یوں کی ہے
در نگاہِ او یکے بالا و پست
با غلام خویش بر یک خواں نشست
’’حضور ؐاکرم کی نگاہ مبارک میں بلند وپست یکساں تھے۔
حضورؐاپنے غلام کے ساتھ ایک ہی دستر خوان پر کھانا کھاتے تھے۔‘‘
آنحضرت ؐغلاموں کے حقوق کی بازیابی کے لئیہمہ وقت کوشاں رہے۔ اپنے آخری
خطبے میں مسلمانوں بلکہ تمام انسانوں سے مخاطب ہو کر فرمایا ۔
’’جہاں تک تمہارے غلاموں کا تعلق ہے، انہیں وہی کھانا دو جو تم خود کھاتے
ہو اور ویسے ہی کپڑے پہنا وجیسے تم خود پہنتے ہو‘‘
فقیری میں بادشاہی غلامی میں آزادی:
پیغمبر اکرمؓ کی مساعی جمیلہ سے جو غلام آزاد ہوئے وہ تو ہو ہی گئے۔ لیکن
جنہوں نے مالک کے گھر کو کسی سبب نہ چھوڑا ان کے لئے بھی اس کے مالک کے گھر
میں بھی آزادی کی فضا قائم کی گئی۔ جس کا مثبت نتیجہ یہ ہوا کہ اسلام سے
قبل غلام اور کنیز کو فکر لاحق ہوا کرتی تھی کہ مالک کے تئیں اس کی خدمت
گزاری میں ذرہ برابر کوتاہی نہ ہونے پائے بصورت دیگر اسے سخت ترین سزا
جھیلنا پڑے گی اور اسلامی تعلیمات نے یکسر اس یک طرفہ فکر مندی کو فریقین
میں مساوی طور تقسیم کیا۔ اب مالک کو بھی یہ پریشانی لگی رہتی تھی کہ کہیں
وہ غلاموں کے حقوق سلب کرنے کامرتکب نہ ہونے پائے اور یوں درد ناک اخروی
سزا کا مستوجب قرار پائے۔ جن غلاموں کو کئی کئی روز تک فاقے برداشت کرنے
پڑتے تھے وہی اب اپنے مالک کے ساتھ ایک ہی دسترخوان پر بیٹھ کر غذا تناول
کرتے نظر آتے۔ جسے تن ڈھانپنے کی اجازت نہ تھی وہی اب اپنے مالک کے جیسا
لباس پہن کر نکلتاتو ایک اجنبی فرد کو بندہ و صاحب کے مابین امتیاز کرنے
میں کافی دشواری کا سامنا کرنا پڑتا تھا۔ جن کے لئے عبادت خانوں کے اندر
داخل ہونا ممنوع تھا وہ عبادت خانوں کی زنیت بن گئے۔ جنہیں ازدواجی زندگی
سے محروم رکھا جاتا تھا۔ خصوصا غلام مرد کی شادی آزاد عورت سے اور ایک کنیز
کی شادی آزاد مرد سے قطعا ممنوع تھی اور شدید سزا کی مستوجب سمجھی جاتی
تھی۔ اور اس سزا کے تحت عورت کو قتل کردیا جاتا اور غلام مرد کو زندہ
جلادیا جاتا۔ (Latin Christianity by Mill Man ) اسلامی تحریک حریت نے اس
حوالے سے انقلاب برپا کردیا کہ اب خود مالک ایک غلام کی خواستگاری لے کر
ایک آزاد خاتون کے والدین اور نگراں افراد کے سامنے اپنا دامن پھیلاتا ہے۔
زید بن حارثہ کے متعلق ایک مشہور روایت ہے کہ وہ آزاد شدہ غلام تھے اور
حضوراکرمؓ نے بنفس نفیس اپنی پھوپھی زاد بہن حضرت زینب کے ساتھ رشتہ ازدواج
میں بندھوایا۔حالانکہ حضرت زینب ؓ کے بھائی اس وجہ سے مجوزہ رشتۂ ازدواج پر
راضی نہ تھے کہ زید ؓ کے ماتھے پر غلامی کا دھبہ ہے۔ (تفصیل کے لئے ملاحظہ
ہو محسن انسانیت ۔ از نعیم صدیقی صفحہ نمبر ۳۰۱،۳۰۲،۳۰۳)
ارتقائی حکمتِ عملی کے انقلابی اثرات:
غلاموں اور کنیزوں کے اذہان پر اب تک جو پابندی کے قفل لگائے گئے تھے وہ
یکایک کھلنے لگے جہاں سوچنے سمجھنے اور اظہار رائے کا کوئی حق نہ تھا وہاں
فکر و خیال کے بند کواڑ اسلام کی آزادی ٔ رائے کی نسیم سحری سے اپنے آپ واہ
ہوئے۔ غلاموں اور کنیزوں کو اب ہر معاملے میں غورو فکر کرنے کی نہ صرف
اجازت تھی بلکہ مملوک میں اپنے مالک کے خلاف اظہار رائے پیش کرنے کی جرأت
پیدا ہوئی۔ ان کے مابین بعض اوقات بحث و تمحیص ہوا کرتی تھی اور بعض دفع
مالک کومملوک کی رائے کے سامنے سرِ تسلیم خم کرنا پڑتا تھا۔ جہاں تک عبادت
خانوں میں داخلے کی پابندی کا تعلق ہے۔ اسلام نے یہ رسم سعید جاری کردی کہ
ایک غلام یعنی حضرت بلالؓ کے ہاتھوں ہی ہر روز درمسجد کھلا کرے اتنا ہی
نہیں بلکہ اسے پیغمبر اسلام نے موذن بنا کر یہ شرف بخشا کہ اس کی آواز پر
لبیک کہہ کر مسلمان مسجدوں کی جانب دوڑ پڑیں۔ اس غلام کو جو معاشرتی اور
معنوی منزلت نصیب ہوئی اس پر بیشتر اکابر صحابہ رشک کرنے لگے۔ اور یہ تمنا
کرنے لگے کہ کاش انہیں بھی حضرت بلال ؓجیسا مقام و مرتبہ ملتا۔
صرف قانون سازی کافی نہیں:
اس مسئلے کے متعلق قانون سازی ایک اہم قدم ہے لیکن محض قانون سازی کو ہی
آخری اور واحد حل سمجھنا بے نتیجہ اور بے فائدہ ہے۔ موجودہ دنیا میں انسانی
حقوق کے حوالے سے عالمی ،قومی اور ملکی سطح پر کوئی کمی نہیں ہے ۔لیکن نسل
پرستی کا بھوت اب بھی ان قوانین کا منہ چڑھا رہا ہے۔جس کی مثال ہندوستانی
معاشرے میں جابجا ملتی ہے۔ نچلی ذات سے وابسطہ خصوصی قوانین کی بھر مار ہے
لیکن پھر بھی اعلیٰ ذات سے وابسطہ فرد کے مزاجِ بر تری میں کسی بھی قسم کا
سدھار دیکھنے کو نہیں ملتا ہے۔کیونکہ قانون ایک فرد کے ہاتھ پاووں پر قدغن
تو لگا سکتا ہے لیکن اس کے دل میں سے رچ بس گئے اعتقادات کو اکھاڑ قانون کے
بس کی بات نہیں۔ ایک اعلیٰ ذات کے شخص کو نچلی ذات کے کسی بھی فرد پر کھلی
زیادتی کو قانون سے روکا جا سکتا ہے۔مگر دنیا کے کسی قانون میں یہ دم خم
نہیں ہے کہ وہ اس کے دل میں پل رہی نفرت کے لاوے کو ٹھنڈا کر سکے۔اس بات کی
زندہ مثال انسانی حقوق کے چیمپین امریکہ میں دیکھی جا سکتی ہے۔ جہاں سیاہ
فام انسانوں کے ساتھ ظلم و زیادتی کی اپنی ایک تاریخ ہے۔نسلی امتیاز کے
خاتمے کی خاطر منظم تحریک بھی چلی اور ماٹن لوتھر کنگ جیسے شعلہ بیاں اور
جوشِ جوانی سے سر شار لیڈر نے اس تحریک کی قادانہ ذمہ داری بحسنِ خوبی
نبھائی۔اور سیاہ فام عام افراد نے بھی کسی قسم کی قربانی سے دریغ نہ کیا
لیکن اس کے خاطر خواہ نتائج ابھی بھی سامنے نہیں آرہے ہیں۔نسلی امتیاز کی
جو چنگاری امریکی معاشرے کے خمیر میں دبی پڑی ہے اسے کبھی بھی نسلی فسادات
کی آتشِ آدم سوز شعلہ ور ہو سکتی ہے۔اسی چنگاری کی کرشمہ سازی ہے کہ گزشتہ
سال اگست ۲۰۱۴ میں سفید فام پولیس افسرڈیرن ولسن کے ہاتھوں ایک سیاہ فام
امریکی نوجوان کی ہلاکت کے بعد میسوری ریاست کے فرگوسن شہر میں احتجاج کا
سلسلہ شروع ہوا جو ایک قریباًایک سال گزرنے کے باوجود تھمنے کا نام نہیں لے
رہا ہے
بی بی سی ادو سروس کی ویب سائٹ پر چھپی ایک رپوٹ کے مطابق’’ فرگوسن میں
افریقی نسل کے امریکیوں کی آبادی 67 فی صد ہے اور واشنگٹن پوسٹ کے مطابق
سنہ 2012 سے 2014 کے درمیان گرفتار ہونے والے لوگوں میں وہ 93 فی صد ہے۔
اس رپورٹ میں یہ بھی سامنے آنے والا ہے کہ عدالتوں میں بھی نسلی امتیاز
برتا جاتا ہے جہاں 68 فی صد سیاہ فام کے مقدمے کو خارج کیے جانے کا امکان
رہتا ہے۔‘‘امریکی وزارت ِانصاف نے بھی اس بات کا اعتراف کیا ہے کہ فرگوسن
پولیس کے رویہ میں نسلی امتیاز کے شواہد موجود ہیں۔سیاہ فام امریکی
ڈرائیوروں کو بلا وجہ روک کر پریشان کیا جاتا ہے ۔
مزوری کے علاقے فرگوسن میں مارے جانے والے اٹھارہ سالہ سیاہ فام نوجوان کے
قاتل پولیس افسر کے خلاف فرد ِجرم تک عائد نہیں کیا گیا۔
امریکی شہر بالٹی مور میں سیاہ فام نوجوان کے قتل کے خلاف فلیڈیلفیا میں
احتجاج کے دوران پولیس اور مظاہرین کے درمیان شدید جھڑپیں ہوئی ہیں-
بالٹی مور میں پولیس حراست کے دوران ایک سیاہ فام نوجوان فریڈی گرے کے قتل
کے خلاف مختلف شہروں میں احتجاج کا سلسلہ وسیع پیمانے پر جاری ہے۔
اس طرح کی رپوٹوں اور خبروں سے یہ بات الم نشرح ہو رہی ہے کہ قوانین اس وقت
تک کلی طور موثر نہیں ہوتے جب تک نہ لوگوں کی تطہیر ِنفس کا بھی شد و مد سے
اہتمام نہ کیا جائے۔محولہ بالا واقعات کی روشنی میں کہا جا سکتا ہے کہ اس
ترقی یافتہ دور میں ترقی یافتہ ملک امریکہ بھی نسلی امتیاز کے ان غیر مرئی
عناصر کے سامنے بے بس و لاچار ہے کہ جو وہاں نسل در نسل وہاں کے لوگوں کی
نفسیات میں سرائیت کر گئے ہیں۔اور آج سے صد ہا برس قبل پیغمبرِ اسلام نے نہ
صرف ان عناصر کی شناخت کو طشت از بام کیا بلکہ ان کے مکمل خاتمے کے لئے ایک
نایاب نسخہ بھی عالمِ انسانیت کے ہاتھ تھما دیا۔ |