کچھ شرم ہوتی ہے کچھ حیا ہوتی ہے

رمضان کا مقدس مہینہ جس میں بقول ہم مسلمانوں کے شیطان کو بند کر دیا جاتا ہے لیکن لگتا ہے کہ پاکستان میں شیطان کو کھلی چھوٹ دے دی جاتی ہے اگر شیطان کو بند بھی کیا جاتا ہے یا پھر وہ صرف ایک مہینہ کے لیے بیڈ ریسٹ پر چلا جاتا ہے تو صرف اس مقصد کے لیے کہ دیکھا جائے کہ اُس کے چیلے اُس کے بعد بھی اُس کے آحکامات پر عملدرآمد بھی کرتے ہیں یا نہیں تو گرو جی آپ کامیاب ٹھہرئے آپ کے تما م چیلے چپاٹے اس مہینے میں میڈیا پر قابض ہو کر آپ کی کمی محسوس نہیں ہونے دیتے سحری کا ٹائم ہو یا افطاری کاعورتوں کی طرح رنگ برنگے اور بھڑکیلے لباس پہن کر، بن ٹھن کرلوگوں کے دلوں میں ایمان کو تازہ کرنے کے لیے جلوہ آفروز ہو جاتے ہیں پھر بغیر دوپٹے کے نسوانی حسن سے مالا مال اور تھڑکتے جسموں کو کبھی مُوٹر سائیکل کی چابیاں پکڑ اتے ہیں تو کبھی آپ کی خوشنودی حاصل کرنے کے لیے لوگوں کی ماوُں اور بیٹیوں کی طرف ہوا میں انعام و اکرام کی بارش کرتے ہیں تا کہ وہ بھی اچھل اچھل کر ان انعام واکرام کو پکڑ سکیں اور کچھ تو آپ کی خوشنودی حا صل کرنے کے لیے اپنی زبان کو منہ سے باہر نکال کر ، آنکھوں کو گھما کر، ہاتھوں کو ہلا کر اس طرح کی ایکٹنگ کرتے ہیں کہ لگتا ہے کہ گرو جی خود ہی حاضر ہو گئے ہیں باقی جو کمی رہ جاتی ہے وہ ہم اس طرح پوری کر دیتے ہیں کہ جن کو نہ اسلام کا پتہ اور نہ اپنے آباوُ اجداد کی تاریخ کا اُن کا ہم عالم فاضل بنا کر لوگوں کے دلوں میں ایمان کی تازگی پروان چڑھانے کے لیے بٹھا دیتے ہیں ہم کو سمجھنا پڑئے گا کہ ڈراموں میں ایکٹنگ اور دینی پروگراموں میں فرق ہے گانے بجانے اور تبلغ میں فرق ہے جس کا جو کام ہے اُس کو وہ ہی کام کرنا چاہیے نہیں تو پھر یہ ہی ہو گا ریٹنگ کے چکر میں پڑ کے کبھی ہم حضرت عائشہ صدیقہ ؓ کی شان میں گستاخی کر بیٹھے گے اور کبھی قادنیوں کو داہرہ اسلام سے خارج کرنے کی بحث میں پڑ کر آئین پاکستان کو بے توقیر کر بیٹھے گے ملک کا تو ہم آگے ہی بھیڑہ غرق کر بیٹھے ہیں کم از کم اپنے مذہب کو تو بخش دیں لیکن یہاں تو ہر چیز میں ہی بگاڑ ہے رمضان کے شروع ہوتے ہی جرمنی میں فاسٹ فوڈ ز کی قیمتیں کم کر دی گئی انگلینڈ کے سب سے بڑئے سٹو ر ٹیسکومیں مسلمانوں کے لیے کم قیمتوں پر کاونٹر قائم ہو گئے اور یہاں ہم نے ہاتھ میں تسبیح پکڑ لی، سر پر ٹوپی پہن لی اور شلوار کو ٹخنوں سے اُوپر کر لیا لیکن جو آلو بخارہ اور خرمانی رمضان سے پہلے ایک سو بیس روپے کلووہ اب دو سو روپے کلو کیلا جو ستر روپے درجن وہ اب ایک سو پچاس روپے درجن آ لو جو پہلے پندرہ روپے کلو اب پچاس روپے کلو رمضان تو درس دیتا ہے امن کا، محبت کا، اخوت کا، بھائی چارے کا،دوستی کا، عزت کا، احترام کا ، مساوات کا،صلح جوئی کا، قربانی کا اور ہم ،بس اتنا ہی کہا جا سکتا ہے کچھ شرم ہوتی ہے کچھ حیا ہوتی ہے -

کچھ عرصے سے پاکستان میں تواتر سے عورتوں کو زندہ جلانے، گلا دبا کر مارنے جیسے واقعات رہ نما ہو رہے ہیں جن کو بعد میں غیرت کے نام پر قتل کے کھاتے میں ڈال دیا جاتا ہے ان تمام واقعات کے پیچے بہت سی وجوہات ہیں لیکن دو وجوہات بنیادی اہمیت کی حامل ہیں ایک ملک سے مشترکہ خاندانی نظام (جواہنٹ فیملی سسٹم) کا خاتمہ کیونکہ جب تک معاشرہ میں مشترکہ خاندانی نظام رائج تھا تو بچوں کی غلطی کو تائی اگر ماں کی نظر سے پوشیدہ ہو جاتی تو دادی کی نظر میں آ جاتی اگر والد کی آنکھ سے اوجھل ہو جاتی تو دادایا چچا کی نظر میں آ جاتی دوسراآج کے دور میں مغربی طرز زندگی کو ہم اسٹیٹس کو کا سمبل سمجھنے لگ گئے ہیں اگر بچوں پر جائز پابندی بھی عائد کریں تو لوگوں کی نظروں میں وقیانوسی، پرانے خیالات کے مالک،تنگ ذہئن اور لبرل بننے کے چکر میں ہم اپنے بچوں کو خود اپنے ہاتھوں سے تنگ گلی میں دھکیل رہے ہیں اور پھر جب بچے لبرل بن جاتے ہیں تو ہم اپنی گھر کی زینت کو آگ لگانے اور اپنی مقدس کو سولی پر لٹکانے پر مجبور ہو جاتے ہیں ہم تو جس مذہب کے پیرو کار ہے وہ تو ہم کو اپنی بیٹیوں سے محبت اور اُن کی اچھی تربیت کادرس دیتا ہے لیکن یہاں تو اسمبلی کے فلور پر عورت کی تذلیل کرنے کے لیے اُس کی آواز کو مردانہ اور اُس کے جُسے کی وجہ سے ٹریکٹر ٹرالی کے نام سے پکار جاتا ہے رہی سہی کسر مولانا حمد الﷲ جیسے لوگ پوری کر دیتے ہیں جو میڈیا پر عورت کے ساتھ نازیبا زبان استعمال کر کے ملک کی بدنامی کا سبب بنتے ہیں ہم تو صر ف اتنا ہی کہہ سکتیں ہیں کچھ شرم ہوتی ہے کچھ حیا ہوتی ہے

میاں صاحب الﷲ پاک آپ کو صحت دیں جس دن آپ کا آپریشن تھا آپ کی بیٹی سُوشل میڈیا کے ذریعے لوگوں سے بار بار آپ کی صحت یابی کیلیے دُعا کی اپیل کر رہی تھی اُس دن جس طرح مریم نواز آپ کے لیے تڑپ رہی تھی اُس طرح ہی آپ کے دور حکومت میں پچھلے دو سال سے ماڈل ٹاوٗن سانحہ میں چودہ جاں بحق ہونے وا لوں کے بچے بھی ابھی تک تڑپ رہے ہیں جو آپ سے انصاف کے منتطر ہیں کیونکہ انصاف دلانے والے تو اپنے مفادات کے تحت اُن کے عزیزو اقارب کو استعمال کرتے جا رہے اُن کو تو ایک تماشہ چاہیے کبھی ڈی چوک میں تو کبھی مال روڈ پر آج کل ویسے بھی ملک میں عجیب تماشہ چل رہا ہے کبھی صولت مرزا کی ویڈیو منظر عام پر آجاتی ہے تو کبھی ڈاکٹر عاصم اور منہاج قاضی کی الزامات سے لبریز ویڈیو اور پانامہ لیکس کی کشتی بھی آپ کی دور اندیشی کی وجہ سے ابھی تک بھنور میں پھنسی ہوئی ہے ہر طرف سے گندگی اچھالی جا رہی ہے اور اس گند میں لت پت ہونے والا صرف ایک ہی طبقہ ہے اور یہ تمام گند کچھ قوتوں کے لیے ناقابل برداشت ہوتا جا رہا ہے یہ نہ ہو دو یا تین مہینوں بعد ہم سب جمہور یت کی لکیر پیٹ رہے ہوں اس لیے سب ابھی بھی سنبھل جائیں کیوں کہ اس وقت کچھ لوگوں کو انصاف چاہیے تو کچھ کو احتساب اس ملک میں عام لوگ تو ہمیشہ ہی پستے آئے ہیں لیکن اس دفعہ پسنے کی باری کچھ اور لوگوں کی ہے اس لیے ذرا احتیاط نہیں تو ہم تو صرف اتنا ہی کہہ سکتے ہیں کچھ شرم ہوتی ہے کچھ حیا ہوتی ہے -
Raja Waheed
About the Author: Raja Waheed Read More Articles by Raja Waheed: 20 Articles with 14779 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.