حمیت کا قتل

ہرملک کاقانون اس کے معاشرتی اقداراور مزاج کاآئینہ دارہوتا ہے ۔ پاکستان میں مادرپدرآزادی کے فروغ کی منظم کاوش کے باوجود اسے اجتماعی سطح پر قبول نہیں کیا گیا۔ہمارے ہاں نتیجہ دیکھا جاتا ہے مگراس کے اسباب اورمحرکات پرغورنہیں کیا جاتا ۔غیرت کے نام پرقتل کی وجوہات کوسمجھنا اورانہیں ختم کرنا کوئی بڑا چیلنج نہیں ہے ۔غیرت کے نام پرقتل وغارت گری صرف پاکستان میں نہیں ہوتی بلکہ مغرب میں بھی کشت وخون ہوتا ہے ،وہاں بھی تیزاب گردی کے واقعات ہوتے ہیں تاہم اس قسم کاالمیہ جہاں بھی رونما ہو اس کی اجازت نہیں دی جاسکتی ۔جس نے انسان کو خلق اورپیداکیا صرف وہی اس کی جان لے سکتا ہے۔ پچھلے کروڑوں برس سے انسان غیرت کے نام پرقتل ہورہے ہیں اوراگروجوہات کاسدباب نہ کیا گیا توقیامت تک ہوتے رہیں گے ۔غیرت کے نام پرصرف عورتیں نہیں ماری جاتیں بلکہ خواتین سے زیادہ مرد قتل کئے جاتے ہیں۔مختلف بیماریوں بارے تحقیق اوران کی تشخیص کرنیوالے ماہرین ان سے بچاؤکیلئے موثر اختیاطی تدابیربھی بتاتے ہیں یعنی اختیاطی تدابیر اختیارکرکے مہلک امراض سے بچاجاسکتا ہے،اگرانسان طویل عمر اوراچھی صحت کیلئے حلال نعمتوں کوچھوڑسکتا ہے توجوکام حرام ہیں ان سے بازکیوں نہیں آسکتا ۔حکومت کی طرف سے قیمتی انسانی زندگیاں بچانے کیلئے نہروں اوردریاؤں میں نہانے اورپتنگ بازی سے روک دیاجاتا ہے توپھر گھر سے بھاگ کرشادیوں پرپابندی کیوں عائد نہیں کی جاسکتی جس کے نتیجہ میں ہربرس ہزاروں انسان مارے جاتے ہیں اورہمارے ملک کانام بدنام ہوتا ہے۔اجتماعی سطح پر سنجیدہ کاوش سے اس مصیبت سے مستقل نجات کاراستہ تلاش کیا جاسکتا ہے ۔

گھر سے بھاگ کرشادی کے نتیجہ میں دوافراد کوعارضی راحت اورمسرت ضرورملتی ہوگی لیکن اگر دیکھا جائے تو دوافراد کاجذباتی فیصلہ ان دونوں کے خاندانوں کی بربادی کاسبب بن جاتا ہے ۔دوافرادکی خواہشات کی قیمت اداکرنے کیلئے دوخاندان ایک دوسرے کے بدترین دشمن بن جاتے ہیں۔ایسا بھی ہوتا ہے کہ جودوخاندان ایک دوسرے کے بہت نزدیک تھے وہ اپنے بچوں کی طرف سے گھر سے بھاگ کرشادی کرنے کی صورت میں دشمن کی طرح مدمقابل آجاتے ہیں اورپھراس دشمنی کی آگ میں کئی بیگناہ لوگ بھی جھلس جاتے ہیں۔اس مجرمانہ روش کوروکنے کیلئے ان شادیوں کو سنگین جرم قرارد یتے ہوئے ان پرپابندی عائدجائے ورنہ غیرت کے نام پرحواکی بیٹیاں قتل ہو تی جبکہ پاکستان پرانگلیاں اٹھتی رہیں گی ۔جونکاح خواں اس قسم کے جوڑوں کانکاح کرائے اس کوبھی سخت سزادی جائے جبکہ ایسے جوڑوں کورٹ میرج کی سہولت بھی نہیں دی جاسکتی ۔جوطبقات اوران کے پروگرام معاشرے میں بے حیائی کوفروغ دے رہے ہیں ان کیخلاف کریک ڈاؤن کیا جائے۔موبائل فون پیکیج نے نوجوان نسل کوبگاڑنے میں کوئی کسر نہیں چھوڑی۔ہمارے بچے رات بھر سمارٹ فون پراپنا وقت پاس کرتے ہیں اوران میں سے زیادہ تراپنا شوق پورا کرنے کیلئے اپنے گھر یامحلے کے کسی تاریک کونے میں بیٹھے ہوتے ہیں ان کی اس لت یا بری عادت سے ان کی بینائی اورصحت دونوں پرمنفی اثر پڑرہا ہے ۔ہمارے بچے ماں باپ کی چشم پوشی یامجرمانہ غفلت کے متحمل نہیں ہوسکتے۔

ماں باپ کوغیرت کے نام پربیٹیاں قتل کرنے کاحق پہنچتا ہے اورنہ بیٹیاں ماں باپ کی ناموس روندنے یعنی خاندان کی غیرت کوموت کے گھاٹ اتارنے کاحق رکھتی ہیں۔ہمارے معاشرے میں خدانخواستہ جس خاندان کی بیٹی ایک بار گھر سے بھاگ جائے ا نہیں لوگ طعنے مار مار کے جیتے جی ماردیتے ہیں،مگرایسے قتل کاچرچاہوتا ہے اورنہ مقدمات درج ہوتے ہیں۔میں نے طعنوں سے پریشان ماں باپ کواپنے ہاتھوں سے اپنی زندگیاں ختم کرتے ہوئے دیکھا ہے ۔لہٰذاء کوئی مہذب معاشرہ گھروں سے بھاگ کرشادیوں کامتحمل نہیں ہوسکتا۔ بچوں کی شادیوں کے سلسلہ میں ماں باپ کے فیصلے غلط ہوسکتے ہیں مگران کی نیت پرشک نہیں کیا جاسکتا۔ماں باپ کی مرضی منشاء کے ساتھ پسنداورمحبت کی شادی جائز ہے ،اسلامی تعلیمات کی روسے ماں باپ کو بیٹیوں اوربیٹوں کی پسندناپسندکااحترام یقینی بناناہوگا۔ اپنے ماں باپ کی حمیت اور خاندان کی آن ملیامیٹ کرکے گھروں سے بھاگ کرشادیوں کے نتیجہ میں بے حیائی کوفروغ ملتا ہے اورجس گھر سے ایک بیٹی بھاگ جائے وہاں دوسری بہنوں کے ساتھ ساتھ بھائیوں کیلئے بھی کو ئی رشتہ نہیں آتا۔گھر سے بھاگ کر ہونیوالی شادیوں سے معاشرے میں بدترین بگاڑپیداہوتا ہے جبکہ ان میں مارپیٹ اور طلاق کی شرح بھی بہت زیادہ ہے اوران بدنصیب لڑکیوں کوسسرال سمیت معاشرے میں کوئی بھی عزت کی نگاہ سے نہیں دیکھتا اوران کے ہاں پیداہونیوالے بچے بھی زندگی بھر نفرت اورطعنوں کی زدمیں آتے ہیں۔ جونام نہادمحبت ماں باپ اوربہن بھائیوں کی حقیقی اورسچی محبت پرغالب آجائے وہ محض ہوس اورگمراہی ہے۔ جو بیٹیاں گھروں سے بھاگ کرشادی کرنے کے نتیجہ میں اپنے ماں باپ یابھائیوں کے ہاتھوں ماری گئی ہیں درحقیقت ان کے شوہر ان کے قاتل اورسخت سزا کے مستحق ہیں انہیں بھی گرفتارکیا جائے ۔جومرددوسروں کی بیٹیوں کے ساتھ شادیاں کرنے کیلئے انہیں گھروں سے بھاگنے پراکساتے اورورغلاتے ہیں وہ مستقبل میں خودبھی اپنی بیٹیوں کاگھروں سے بھاگ کرشادیاں کر ہرگزناپسندکر تے اورنہ ان سے بیٹیوں کی بغاوت برداشت ہو تی ہے ۔
چھوڑدے ساری دنیا کسی کیلئے
یہ مناسب نہیں آدمی کیلئے
پیار سے بھی ضروری کئی کام ہیں
پیارسب کچھ نہیں زندگی کیلئے

لوگ محبت ضرور کریں مگرمحبوب کوپانے کیلئے خاندان اوراسلامی اقدارسے بغاوت نہ کریں ،کیونکہ جہاں خاندان کی حمیت اور غیرت قتل ہوگی وہاں غیرت کے نام پرکشت وخون ہوتا رہے گا۔انسان جذباتی فیصلے کرکے اپنی زندگی کے ساتھ ساتھ اپنے پیاروں کی زندگیاں بھی جہنم بنادیتا ہے ۔معاشرے میں برائی اوربدکاری کاراستہ روکنے کیلئے نکاح کوآسان بنایاجائے،جس طرح ون ڈش کی پابندی کاقانون بنایاگیا اس طرح جہیز کی بھی کوئی مناسب حدمقررکردی جائے کیونکہ جہیز کی حیثیت نہ ہونے کے سبب ہزاروں بیٹیاں اپنے بابل کی دہلیز پربیٹھی رہ جاتی ہیں ۔بچوں کوڈاکٹر ،انجینئر اورپائلٹ بنانے کے ساتھ ساتھانہیں اچھاانسان بنانے کی ضرورت ہے۔ماں باپ کواپنے بچوں کی تعلیم کے ساتھ ساتھ ان کی اسلامی اقدار کے مطابق اعلیٰ تربیت پربھی فوکس کرناہوگا ۔ گھر سے بھاگ کرہونیوالی شادیوں کوپروموٹ کرنے کی بجائے ان کے نقصانات بارے شعور بیدارکیا جائے ۔اس ضمن میں ہمارامیڈیاتعمیری اور اصلاحی پروگرام نشر کرے ۔گھر سے بھاگ کرشادیاں کرنیوالی عورتوں کوزندگی بھرگالیاں بھی پڑتی ہیں اورگولیاں بھی ان کامقدر بنتی ہیں کیونکہ جوکوئی بھی اپنی مرضی سے تاریک راہوں کاانتخاب کرے گااس کامستقبل روشن نہیں ہوسکتا۔دین فطرت اوردین کامل اسلام نے بچوں کواپنے ماں باپ کی فرمانبردار ی کادرس دیا ہے ۔

اسلامی معاشرے میں خواتین کو ان کاجائزمقام اوراحترام برابری نہیں بردباری سے ملے گا۔ خواتین کے حقوق او رکردار بارے قرآن مجیدفرقان حمید نے جو روشن احکامات دیے ہیں ان سے ہرگزانحراف یاتجا وزنہ کیا جائے ورنہ بگاڑپیداہوگا ۔خواتین کوسیاست کاایندھن یاشوپیس بنانااوربرابری کے نام پراسلامی روایات کامذاق اڑانادرست نہیں ۔سیاسی پارٹیاں حقوق نسواں کے نام پر خواتین کوانتخابات میں کامیابی کیلئے استعمال اورپھران کااستحصال کرتی ہیں۔اسلامی معاشرے میں خواتین کی آبروریزی کے محرکات اوراسباب کاجائزہ لے کرفوری طورپران شرمناک واقعات کاسدباب کیا جائے ۔ خواتین اوربچوں پرہونیوالے جنسی حملوں میں ریاستی نظام کے ساتھ ساتھ معاشرہ بھی کسی حدتک قصوروار ہے ۔ آزادی اظہار کے نام پراسلامی اقدار کی دھجیاں بکھیرنے والے حمزہ عباسی اورجنیدجمشید سمیت دوسرے کردار قابل گرفت ہیں مگران عناصرکوہیروبناکرپیش کیا جارہا ہے۔ دین حق کاکوئی بھی طالبعلم اسلام کے حساس موضوعات پربے سروپاگفتگو یابحث کرنے اوراظہاررائے کااستحقاق نہیں رکھتا۔جنیدجمشیداورحمزہ عباسی سمیت جولوگ دوسروں کی دل آزاری اور معاشرے میں اضطراب پیداکرتے ہیں ان پرپابندی عائدکی جائے۔ماہ رمضان کی مناسبت سے جوپروگرام اورجس اندازسے نشر کئے جارہے ہیں وہ مناسب اورقابل قبول نہیں ۔ اسلامی ملک میں ہرعمرکی خواتین پرجنسی حملوں کے اعدادوشمار تشویشناک ہیں مگر ان کے سدباب کیلئے تاحال ریاستی سطح پرکوئی ٹھوس منصوبہ بندی نہیں کی گئی ۔قانون کی کمزوری کے نتیجہ میں مجرمانہ سرگرمیوں کوتقویت ملی ،سخت قانون سازی اورفوری انصاف کی فراہمی کے بغیر یہ سلسلہ نہیں تھم سکتا ۔

مہنگائی سے زیادہ بے حیائی انسانیت کیلئے زہرقاتل ہے۔مہنگائی سے صرف چولہے بجھتے ہیں جبکہ بے حیائی سے قومی حمیت کاجنازہ اٹھ جاتا ہے۔شرم وحیاسے عاری قوموں کے شرمناک انجام سے تاریخ کے اوراق بھرے پڑے ہیں۔ مہنگائی کے ساتھ ساتھ بے حیائی اوربے راہ روی کاسدباب اسلامی ریاست سمیت ہرمسلمان کافرض ہے۔خواتین کے تعلیمی اداروں میں کلچراورتفریح کے نام پر ناچ گانااسلامی تعلیمات کے منافی ہے،ماں باپ ہرگزاپنی بیٹیوں کواس کی اجازت نہ دیں۔ اسلامی معاشرے میں ویلنٹائن ڈے سمیت مختلف منفی روایات کافروغ مادرطن کے اسلامی تشخص پرایک بڑاسوالیہ نشان ہے،ان خرافات کے سدباب کیلئے ریاست اپنا کرداراداکرے۔روشن خیالی ہمیں تاریک اوربندگلی میں لے جائے گی ۔ پاکستان میں ان دنوں لکھے جانیوالے ادب کوپڑھ کر ہمارے زیادہ تر نوجوان بے ادب بن رہے ہیں ،روشن خیالی کاانجام درحقیقت بدحالی کی صورت میں نکلتا ہے۔ بے حیائی روکنے کیلئے میڈیا کی اہمیت سے بھی انکارنہیں کیاجاسکتا ۔ اگراسلامی اقدارکی پاسداری اوربے شرمی وبے حیائی سے اجتناب بنیادپرستی ہے توہاں ہم بنیادپرست ہیں۔
Muhammad Nasir Iqbal Khan
About the Author: Muhammad Nasir Iqbal Khan Read More Articles by Muhammad Nasir Iqbal Khan: 173 Articles with 139609 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.