غرور
(Shahid Shakeel, Germany)
جیت یا کامیابی کی خوشی میں سرشار ہو کر
اپنے خیالات اور احساس میں کئی انسان دو طرح کا رویہ اختیار کرتے ہیں جن
میں ایک غرور ،تکبر اور دوسرا فخر کہلاتے ہیں ،کسی شے کو پا لینے سے کئی
انسان فخر محسوس کرتے ہیں اور اگر مشترکہ طور یعنی ٹیم ورک سے کامیابی حاصل
ہو تو فخریہ انداز میں مسرت لیکن عاجزی سے اظہار کیا جاتا ہے جبکہ کئی
افراد کا رویہ ٹیم ورک سسٹم سے کامیاب ہونے کے باوجود تمام سہرہ اپنے سر
باندھنے کی کوشش کرتے ہیں اور اپنی مانی کرتے ہوئے باور کروایا جاتا ہے کہ
جو کچھ ہوا میں نے کیا کسی دوسرے کا اس سے کوئی تعلق نہیں اور غرور یعنی
تکبر کرتے ہیں جو کہ دوسرے افراد کو شدید متفر کرتا اور کشیدگی پیدا ہوتی
ہے۔فخر اور غرور لفظی طور پر قدرے مشترک ہوتے ہوئے بھی دو مختلف الفاظ ہیں
کیونکہ دنیا کا ہر انسان زندگی میں کبھی فخر محسوس کرتا یا غرور اور تکبر
میں آکر لاشعوری طور اپنی اوقات بھول جاتا ہے کہ وہ کیا تھا اور کیا ہے
لیکن کبھی ماضی کو ٹٹولنے کی کوشش نہیں کرتا حالانکہ ماضی حال اور مستقبل
سے اکثر منسلک ہوتا ہے ،سوال یہ ہے کہ انسان کیوں تکبر میں آکر دوسروں کو
اپنے رویئے سے نیچا دکھانے کی کوشش کرتا ہے اور ایسا رویہ اختیار کرتا ہے
جس سے شاید وہ خود تو ذہنی اور وقتی طور پر خوش ہوتا ہے لیکن اس کے منفی
رویئے یعنی غرور اور تکبر سے دیگر انسان شدید کوفت محسوس کرتے اور متنفر سے
ہو جاتے ہیں ،ماہر نفسیات کا کہنا ہے ایسے افراد جسمانی طور پر صحت مند
لیکن اندرونی طور پر کھوکھلے ہوتے ہیں کیونکہ وہ کسی حد تک خوفزدہ ہونے کے
ساتھ ساتھ بااختیار نہیں ہوتے یعنی ایک طرح کی ذہنی بیماری یا احساس کمتری
میں مبتلا ہونے کی وجہ سے یہ سمجھتے ہیں کہ دنیا میں ان سے بہتر ،ذہین،باشعور،بااخلاق
اور آل راؤنڈر کوئی اور نہیں ہے اور دنیا ان کے بغیر نہیں چل سکتی ،ایسے
افراد دوسروں کی رائے ،نصیحت،مشوروں اور حقائق کو یکسر نظر انداز کرتے ہیں
حالانکہ جانتے ہیں ایسا منفی رویہ طویل عرصے تک جاری نہیں رہ سکتا اور اپنی
من مانی یا ضد بدستور جاری رکھتے ہیں اور اسی خوش فہمی میں مبتلا رہتے ہیں
کہ ہمارا معاشرے میں آعلیٰ مقام ہے ہم پر کوئی آنچ نہیں آسکتی ہم جب چاہیں
دنیا کو ٹھوکریں ماریں اور چھوٹے بڑے کی تمیز کئے بغیر اپنی جھوٹی ڈگر پر
رواں رہتے ہیں جنہیں وہ کئی بار محسوس کرتے ہوئے بھی در گزر کرتے اور ہر
انسان کو حیوان سمجھتے ہیں۔ماہرین کا کہنا ہے غرور دنیا کی سات مہلک ترین
بیماریوں میں سے ایک ہے جو آج کل بڑے پیمانے پر تقریباً ہر انسان کی
شریانوں میں سرایت کر چکی ہے ،غروراور فخر میں بہت فرق ہے کسی شے یا عمل پر
فخر کرنا یا غرور میں مبتلا ہونا دو مختلف چیزیں ہیں ،امتحان میں کامیابی ،
قومی ٹیم کی جیت،کسی نئی چیز کی دریافت یا ایجاد یا کوئی ایسا کارنامہ
انجام دینا اور فخر کرنا جس میں ملک و قوم کی بھلائی ہو مثبت اعمال میں
شمار ہوتا ہے اور اگر ان تمام عوامل کو محض اپنے مفاد کیلئے استعمال کیا
جائے اور غرور سے سر اٹھانا کہ جو کچھ ہوا اس میں کسی کا عمل دخل نہیں یا
کوئی اور نہیں کر سکتا اسے تکبر اور مغرور ی کی بیماری میں مبتلا سمجھا
جاتا ہے باالفاظ دیگر ایسے انسان نفسیاتی مریض کہلائے جاتے ہیں،اگر کسی
انسان نے کوئی کامیابی حاصل کی ہے اچھی پوزیشن یا مقام حاصل کیا ہے تو وہ
اس کا ذاتی فعل ہے کسی دوسرے کا اس سے کوئی تعلق نہیں تو پھر احسان کیسا
اور کس قسم کی طرم خانی کہ میں فلاں میں فلاں؟۔اخلاقیات کا تقاضا تو یہ ہے
کہ انسان کسی بھی قسم کی پوزیشن یا مقام اپنی محنت سے، اتفاق سے یا بے
ایمانی سے حاصل کرے غرور اور تکبر کرنے کی بجائے اگر عاجزی سے پیش آئے تو
اسے آعلیٰ مقام حاصل ہو سکتا ہے کیونکہ دنیا کی ہر مذہبی کتاب میں انسان کو
عاجزی کا ہی سبق دیا گیا ہے نہ کہ غرور میں مبتلا ہو کر دیگر انسانوں کو
ذلیل و رسوا کیا جائے ۔غرور ، تکبر، بے ایمانی اور ناروا رویہ انسان کی
شخصیت کو بری طرح متاثر کرتا ہے انسان چاہے کتنے ہی اچھے اور مثبت خیالات
کا مالک کیوں نہ ہو لیکن اگر اس کا رویہ ہی تکبر اور غرور سے بھرپور ہے تو
وہ بہت جلد اپنامقام کھو دیتا ہے ۔ انسان کو چاہیے کہ ہر چھوٹے بڑے سے پیار
محبت ، اخلاق اور عاجزی سے پیش آئے کیونکہ ایک کہاوت ہے غرور کا سر ہمیشہ
نیچا ہوتا ہے،اور سچ ،حق،اخلاق اور عاجزی سے پیش آنے والے افراد ہمیشہ دلوں
پر راج کرتے ہیں۔ |
|