۱۸۳۷ء میں چارلس فوریئر نامی فرانسیسی
دانشور نے ایک اصطلاح فیمینزم متعارف کروائی جس کا مطلب عورتوں کو مردوں کے
برابر حقوق دلانا تھا خواہ یہ حق ووٹ کی صورت میں ہو،تعلیم کی صورت میں
ہو،نوکری کی صورت میں ہو ،اظہار رائے کی آزادی ہو یا معاملہ جائیداد کا
ہو،شروع میں تو یہ تحریک محض کتابوں اور تحریروں تک محدود رہی مگر وقت کے
ساتھ ساتھ اس میں تیزی آ تی گئی اور یہ تحریک یورپ میں بہت مقبول ہوئی جس
کے نتیجے میں اہم ترین پیشرفت عورتوں کو بیسویں صدی میں ووٹ کا حق حاصل ہو
نا تھا۔عورتوں کے حقوق کی اس لہر نے برصغیر کو بھی متاثرکیا اورپاکستان میں
بھی دانشوروں بالخصوص لبرل طبقے نے عورتوں کے حقوق کیلیئے آواز اٹھائی جبکہ
میڈیا کی موجودگی نے سونے پر سہاگے کا کام سر انجام دیا اور راتوں رات
فرزانہ باری،عاصمہ جہانگیر،ماروی سرمد اور شرمیلا فاروقی جیسی خواتین کو
روشن خیال حلقوں میں ہر دلعزیز بنا دیا۔لیکن خواتین کی آزادی کی یہ تحریک
ایک مخصوص اور بہت ہی محدود طبقے کو متاثر کر سکی اور اکثریت پر اس کے
اثرات نہ ہونے کے برابر ہیں کیونکہ مذہبی طبقے نے اسی شدت سے اس کے خلاف رد
عمل ظاہر کیا جسکی واضح مخالفت حقوق نسواں بل پر احتجاج کی صورت میں نظر
آتی ہے ۔مذہبی طبقے نے اس معاملے پر حکومت کو اس طرح کھل کے آڑے ہاتھوں
لیاکہ یوں لگا جیسے بات پاکستانی عورتوں کے حقوق کی نہیں بلکہ دشمن ملک کی
عورتوں کے حقوق کی ہو رہی ہے۔ثبوت کے طور پر چند روز پہلے ٹی وی پر ہونے
والا پروگرام حوالے کے طور پر کافی ہے جس میں مولانا صاحب نے صاحب گفتار
ہونے کی گواہی انسانی حقوق کی علمبردار خاتون کی شلوار اتارنے کی دھمکی کی
صورت میں دے ڈالی اور اگر ان کو بروقت انٹری ما ر کر روکا نہ جاتا تو ہو
سکتا ہے کہ وہ اس دعوے کو عملی جامہ پہنانے کی بھی کوشش کرتے۔جوابا مولانا
صاحب کو تند و تیز جملوں کا وار سہنا پڑا جس کے نتیجے میں اختلاف رائے کو
برداشت نہ کرنے کی ہمت رکھتے ہوئے مولانا صاحب واک آوٹ کر گئے کیونکہ
اختلاف رائے جسے مہذب معاشرے میں گفتگو کا حسن سمجھا جاتا ہے ہمارے ہاں
شرکائے گفتگو کی چھیڑ بن کے رہ گئی ہے۔
پاکستانی معاشرے میں بڑھتی ہوئی عدم برداشت نے ہمارے رویوں کوتلخ بنا دیا
ہے اورحیرت کی بات یہ ہے کہ مرووں کو مورد الزام ٹھہرانے والی خواتین بیک
وقت مظلوم بھی ہیں اور ظالم بھی کیونکہ لاہور میں پسند کی شادی کرنے والی
زینت کو زندہ جلانے والا کوئی مرد نہیں بلکہ اسکی اپنی ماں ہی تھی جسکی نظر
میں پسند کی شادی اتنا بڑا جرم تھاکہ اس کا کفارہ بیٹی کو جان دے کے ادا
کرنا پڑا۔اسی سے ملتا جلتا واقعہ ایبٹ آباد میں پیش آیا جہاں ماں نے اپنی
بیٹی کی سہیلی کو صرف اس وجہ سے جرگے کے حوالے کر دیا کیونکہ اس نے متعلقہ
خاتون کی بیٹی کی گھر سے فرار ہونے اور پسند کی شادی کرنے میں مدد کی
تھی۔پاکستانی معاشرہ اس طرح کے ان گنت واقعات سے بھرا پڑا ہے جس میں بہت
سارے واقعات تو منظر عام پر نہ آنے کی وجہ سے وقت کی دھول میں دب جاتے
ہیں۔یہاں ہر ذی شعور یہ سوچ کے حیرت میں مبتلا ہو جائے گا کہ دنیا توکائنات
کے سر بستہ رازوں کو کھوج رہی ہے جبکہ ہم انسانی وجود کے بقاء کی جنگ لڑرہے
ہیں،پاکستانی معاشرے میں پائے جانے والے اس تنوع کو سمجھنے کی سخت ضرورت ہے
کہ یہاں مذہبی،لبرلز اور آزاد خیال لوگ کثیر یا قلیل تعداد میں بہرحال
موجود ہیں اور کسی بھی طبقے کے دوسروں پر اپنے نظریات مسلط کرنے کا نتیجہ
تو تکار ،مار پیٹ،دنگے فساد اور کشت و خون کی صورت میں نکلے گا۔مزید برآں
محض دکھاوے کے طور پر خواتین کے حقوق کا ڈھول پیٹنے،ذاتی شہرت کے لیے فوٹو
سیشن کروانے اور ٹاک شوز میں بلند و بانگ دعوے کرنے سے خواتین کی کوئی خدمت
نہیں ہونے والی بلکہ عملی طور پر ان کے مسائل کو اپنا سمجھنے اور گھر گھر
جا کرعورتوں کو اظہار رائے کی آزادی اور قوت برداشت کی تعلیم دینا ہو گی تا
کہ خواتین حقوق نسواں کے حقیقی معانی سے آشنا ہو سکیں۔
|