مختصر کہانی: انعم ریاض
آپی آگر ہماری ماں ہمیں یوں چھوڑ کرنہ جاتی تو آج ہمیں بھی اپنی پھپھویوں
اور چچاؤں کی باتیں نہ سننا پڑتیں۔ ہماری ماں کو ہم پر ترس بھی نہیں آیا۔
مائیں تو اپنے بچوں کے بنا اک پل بھی نہیں رہ سکتی اور ہماری ماں ہمارے
ساتھ ہی ۔۔ایسا کیوں ہوا کیوں ہمیں دوسروں کے رحم و کرم پرچھوڑ کرچلی گئیں۔
بابا کو اﷲ نے اپنے پاس بلالیا ماں نے ہماری دنیا ہی ہم سے چھین لی۔ میری
نظریں اس کے چہرے پر ٹھہر سی گئیں۔ کیا کچھ نہیں تھا اس کی آنکھوں میں آنسو،
درد، ماں سے جدائی کا غم، کس نے جدا کیا اس کو اس کی ماں سے مجھے آج بھی وہ
دن یاد ہے جب باجی نازیہ ہمارے گھر آئی تھی ۔ اپنا موبائل مجھے پکڑاتے ہوئے
بولیں اس کو سائلنٹ کردو۔ میں نے سوالیہ نظروں سے ان کی جانب دیکھتے ہوئے
موبائل لے لیا۔ میرا دل بہت چاہا کہ میں پوچھا کہ کیوں ضرورت پیش آئی؟ مگر
میں پوچھ نہ سکی۔ باجی نازیہ کا موبائل ان بکس مسیجز سے بھرا پڑا تھا ۔ میں
نے موبائل سے نظروں سے ہٹاتے ہوئے ان سے پوچھا کہ’’ یہ کن کے مسیج ہیں؟ آپ
کو تو مسیج وغیرہ پڑھنے ہی نہیں آتے۔ وہ ایک دم ٹھٹک کر رہے گئیں۔ ان کی
نظروں میں کچھ چھپانے جیسے تاثرات نمایاں تھے۔ میں نے موبائل سائلنٹ کیا ہی
تھا کہ اک دم موبائل کی اسکرین پر اک نمبر جگمگانے لگا ۔ میں نے موبائیل
باجی نازیہ کی طرف بڑھادیا۔ وہ موبائل لے کرچلی گئیں پر میرے لیے بہت سے
سوال چھوڑ گئیں۔ میں اب تک انہیں سوالوں میں الجھی ہوئی تھی کہ آخر ہم
عورتیں اپنے ہی ہاتھوں سے اپنے گھر کیوں برباد کررہی ہیں اور چند دن بعد
پتا چلا کہ وہ اپنے بچوں کو چھوڑ کرچلی گئیں ہے۔ کہاں گئیں، کیا ہوا یہ سب
باتیں اپنی جگہ تھیں مگر میرے ذہن میں اب بھی اسی دن موبائل کی اسکرین پر
جگمگاتا نمبر تھا۔ آخر یہ کیسی مائیں ہیں جو اپنے بچوں کو چھوڑ جاتی ہیں۔
اس میں کس کا قصور ہے ہمارا ؟ موبائل کا یا کسی اور کا ایسی خبروں سے اخبار
بھرے پڑے ہیں ہم پڑھ کر آگلی خبر کی طرف بڑھ جاتے ہیں پر سوچتا کوئی نہیں
کہ ہمیں کچھ تو کرنا چاہیے۔
|