آج ہمارا معاشرہ کس نہج پر جا رہا ہے اس کا
اندازہ ہمارا میڈیا، ہماری پریس اور وہ تمام مواصلات کے ذرائع ابلاغ ہیں جن
کا سب سے اہم پہلو’’تنقید‘‘ ہے۔
جہاں پرانی روایات کو ختم کر دیا گیا ہے۔ اساتذہ معاشرے کی ترقی کا اہم سنگ
میل ہوا کرتا تھا۔ وہاں اب میڈیا نے جگہ لے لی ہے اور تنقید برائے تنقیدہی
کو زیر بحث لایا جا رہا ہے۔ جتنا وقت میڈیا پر بیٹھے یہ طوطے اپنی بولیاں
بولنے میں ضائع کرتے ہیں اس کی بجائے اگر چند اچھے الفاظ اور جملے اس
معاشرے کی ان نوخیز کلیوں کے لیے بولیں تو بچوں کی تربیت بھی ہو جائے جو اس
وقت نہیں ہو رہی۔
بے انتہا پرائیویٹ چینل اپنی ریٹنگ بڑھانے کے لیے بڑھ چڑھ کر منفی رول ادا
کر رہے ہیں جہاں اب مارننگ شو کے نام پر ناچ گانے نے لے لی ہے۔ کوئی ایک
اسلامی تعلیمات کا پروگرام بتا دو جس میں سیاست کے چند جملے نہ بولے جاتے
ہوں۔
سرکار رسالت اور انبیاء کی تعلیمات کی پیروی کی بجائے بچوں کو سیاسی تنقید
کے نام پر کیا درس دیا جا رہا ہے۔ غور کیجیے ہمارے بچوں کے ذہن جس انتشار
کا شکار ہیں اس کا شاید کسی مفکر کو اندازہ نہیں۔ آج ہم معاشرے میں تعصب
اور تنگ نظری کو ہوا دینے کی بجائے کچھ بھی تو نہیں کر رہے۔
دور حاضر میں ایمانداری بہترین حکمت عملی کی بجائے خیانت سچ کی بجائے جھوٹ
حسن و سلوک کی بجائے مکرو فریب۔ شرافت کی بجائے بدمعاشی، سخاوت کی بجائے
عداوت جیسی صفات معاشرے میں ہوں وہ کیسے ترقی کرے گا۔
مندرجہ بالا حقائق نے انسانی شخصیت کو مسخ ہی نہیں ختم کر کے رکھ دیا ہے
انسان کی سوچنے سمجھنے کی صلاحیتیں مفقود ہو کر رہ گئی ہیں ہر انسان کی
زندگی مشینی زندگی اور یموٹ کنٹرول بن کے رہ گئی ہے۔ جہاں انسانی قدروں کی
جگہ خوشامدلالچ، بناوٹ، فریب اورجھوٹ نے لے لی ہے۔
انسانیت کے نام پر انسانیت روز زندہ ہوتی اور دم توڑتی ہے۔ آخر میں عرض حال
ہے۔
غربت کی اک تصویر دیکھی
اک معصوم بچی
ضعیف ماں کے شانے پر سر رکھے
سڑک کے کنارے
کھلے آسماں تلے
بن چادر تکیے کے
اپنے معصوم سے چہرے پر
معصوم سوالوں کا انبار لیے
میرا قصور غربت کیوں؟
رب زوالجلال نے
غریب اس کو نہیں
اس بشر کو بنایا ہے
جس نے دیکھا
اور سوچا نہیں |