اس نے ایک زور دار قہقہہ لگایا اور کہنے
لگا، اسے کیا پتہ، یہ تو یہی کہے گا کہ بس آپ کا کام ہو گیا۔ مگر ہوگا تو
اسی وقت جب آپ کے سامنے آئے گا۔ کسی کی باتوں پر نہ جاؤ۔ کتنا عرصہ ہو ا ہے
تمہیں کیس لڑتے ہوئے؟ میں حیران تھا کہ اس آدمی سے کچھ جان پہچان نہیں، مگر
خوامخواہ بے تکلف ہو رہا ہے۔ یہ ایک سرکاری دفتر تھا اورمیں اس دفتر میں
ایک اسسٹنٹ کے پاس آیا تھا کہ اپنے کیس کے بارے میں کچھ جان جاؤں۔ بہرحال
اس نے سوال پوچھا تو مجھے جواب بھی دینا تھا۔ میں نے کہا، سات سال۔ عدالت
سے پہلی دفعہ فیصلہ آیا ہے ؟ میں نے جواب دیا ہاں۔ تو ابھی کیا جلدی ہے
بھائی۔ میرے ساتھ لائن میں کھڑے ہو جاؤ۔ یہ اسسٹنٹ تو بھلا آدمی ہے، یہ
ہمیشہ اچھا کہے گا اور اچھا ہی لکھے گا، مگراس کے بس میں کچھ بھی نہیں۔
ابھی فائل اوپر جائے گی اور پھر راستے میں کہیں گم ہو جائے گی۔ تم اسے
مہینوں تلاش کرو گے، جب فائل ملے گی تو پتہ چلے گا ایک اور کیس آپ کا منتظر
ہے۔ پھر کچھ انجانے لوگ آپ کے پاس آئیں گے کہ ہمارا حصہ۔ مگر آپ کون؟ اس
دفتر اور اس کے اہلکاروں سے عجیب رشتے بتائیں گے۔ آپ میں حوصلہ ہے کہ ان
انجانے لوگوں کے ہتھے چڑھ جائیں اور نتیجہ کیا ہو اس سے بھی بے خبر رہیں تو
ٹھیک، وگرنہ اگلا کیس تو آپ کو بُھگتنا ہی ہے۔ یہ ایک لمبا سلسلہ ہے،
پریشان ہونے کی ضرورت نہیں۔
میں پریشان نہیں ہوتا، مگر آپ کا تعارف۔ اس نے ایک کرسی میری طرف بڑھائی
اور کہا بیٹھ جاؤ بھائی، اور سنو! میں تمہارا ہم عمر ہی ہوں، ساٹھ (۶۰)
پینسٹھ (۶۵) سال کی عمر کے ہم دونوں ہوں گے۔ میرا تعلق ملتان سے ہے۔ میرے
والد نے۱۹۵۶ء میں ملتان میں ایک فیکٹری لگائی تھی۔ فیکٹری کی زمین حکومت نے
الاٹ کی، کچھ قرضہ بھی حکومت نے دیا۔ دو سال فیکٹری بہت اچھی طرح چلی۔ پھر
ایک صاحب زمین کی الاٹمنٹ کے کاغذ لے آئے اور ہمیں بے دخل کرنے اور فیکٹری
پر قبضہ کرنے کی کوشش کی۔ ہم نے عدلیہ کا سہارا لیا اور وقتی آفت سے بچ گئے۔
کیس کئی سال تک ہائی کورٹ میں چلا۔ پہلے فیصلے کے بعد ہم خوش تھے، مگر
سپریم کورٹ میں اپیل ہو گئی۔ سپریم کورٹ میں ثابت ہو گیا کہ دوسری پارٹی کے
تمام کاغذات جعلی ہیں، مگر جعلسازوں کے خلاف کوئی کاروائی نہ ہوئی۔ اسی
دوران ایک نئی پارٹی الاٹمنٹ آرڈر لے کر آگئی۔ ہمارے الاٹمنٹ آرڈر کے خلاف
کسی چھوٹی عدالت سے فیصلہ لے لیا گیا۔ پھر کیس ہائی کورٹ اور سپریم کورٹ
میں چلا۔ اب تک کئی فیصلے آچکے۔ کئی جعلساز سامنے آئے، جعلسازی ثابت ہوتی
رہی، مگر سرکاری دفتروں میں کوئی فیصلہ نہیں ہوتا۔ سرکاری اداروں اور ان کے
اہلکاروں کے خلاف کئی دفعہ توہین عدالت کے فیصلے ہوئے۔ عدالت کے سامنے فوری
طور پر غیر مشروط معافی مانگ لیتے ہیں اور عدالت بھی بڑی فراخدلی سے فوراً
معاف کر دیتی ہے۔ معافی حاصل کرنے کے بعد سرکاری افسران کوئی نئی شق سامنے
لے آتے ہیں اور کیس پھر چل سو چل۔
اس کیس کی ابتدا جب ہوئی، میں چند سال کا تھا۔ میرا باپ یہ کیس ۲۵ سال لڑتے
لڑتے مر چکا ہے۔ میرے دو چھوٹے بھائی اس قدر پریشانی برداشت نہ کرنے کی وجہ
سے ملک چھوڑ کر کینیڈا منتقل ہوچکے۔ زمین اب ملتان شہر سے ملحق ہے، چھوڑنے
کو دل نہیں چاہتا۔ ۳۰ سال مجھے بھی کیس لڑتے ہو چکے۔ پچپن (۵۵) سال میں
ابھی فیصلہ نہیں ہوا۔ شاید میں بھی کیس لڑتے لڑتے مر جاؤں۔ میرا بڑا بیٹا
کبھی کبھی میرے ساتھ آتا ہے۔ ہر دفعہ نہیں آسکتا۔ وکیل کو فیس تو دینی ہوتی
ہے۔ لاہور میں جس دن تاریخ ہوتی ہے بس کا کرایہ، وکیل کا ناشتہ اور دوپہر
کے کھانے پر مجموعی طور پر دس ہزار روپے خرچ ہو جاتے ہیں۔ سپریم کورٹ جہاز
پر جانا پڑتا ہے، جب وہاں تاریخ ہوتی ہے۔ خرچہ پینتیس (۳۵) سے چالیس (۴۰)
ہزار تک ہوتا ہے۔ سفر کی مشقت اور ذہنی دباؤ اس کے علاوہ ہے۔ شاہد کچھ عرصے
تک میں بھی مر جاؤں، پھر ہماری تیسری نسل یعنی میرا بیٹا اس کیس کا سامنا
کرے گا۔ پتہ نہیں اس کے ساتھ کیا ہو۔ مجھے لوگ کہتے ہیں تم کیس لڑتے لڑتے
پاگل ہو گئے ہو، صحیح کہتے ہیں۔ میں کیا، ان حالات میں ہر کوئی پاگل ہو
جاتا ہے۔ میرا بیٹا کبھی کبھی مجھے کہتا ہے کہ میں کیس نہیں لڑوں گا۔ میں
بھی یہی کہتا تھا، مگر انسانی فطرت ہے کہ جب مصیبت کا مجبوراً سامنا کرنا
پڑتا ہے تو انسان نہ چاہتے ہوئے بھی اس کا سامنا کرتا ہے۔ میں نہ ہوں گا،
تو میرا بیٹا بھی اپنی عمر اسی طرح ضائع کرے گا۔
بھائی تمہارا پہلا فیصلہ آیا ہے، تم خوش ہو۔ یہ فائل جو اس سادہ لوح اسسٹنٹ
کے پاس تمہیں نظر آرہی ہے، چند دنوں بعداس دفتر کی بھول بھلیوں میں گم ہو
جائے گی۔ اسے ڈھونڈ کر دینے کے لئے کچھ خدائی خدمتگار تمہیں ملیں گے۔ ان کی
خدمت کرتے جاؤ، فائل ملتی جائے گی، مگر نتیجہ کچھ نہیں ہوگا، لیکن مایوس
نہیں ہونا۔ اپنی جدوجہد جاری رکھنا، اس یقین کے ساتھ کہ اﷲ کے ہاں دیر تو
ہے اندھیر نہیں۔ میں جب ملتان سے بس پر سوار ہوتا ہوں تو بس میں میرے جیسے
بہت سے لوگ اپنے وکلاء کے ہمراہ بیٹھے ہوتے ہیں۔ اب میری اور ان کی دوستی
کو تیس (۳۰)، پینتیس (۳۵) برس ہو رہے ہیں۔ وہ میرے بس کے دوست ہیں۔ لیکن
بہرحال کوئی نہ کوئی اپنے مقصد میں کامیاب ہو جاتا ہے اور ہمارا بس میں
سوار ہونے والا وہ ساتھی ہم سے جدا ہو جاتا ہے۔اور وہ اسی لئے ساتھ چھوڑتا
ہے کہ کچھ پا لیتا ہے۔ اس لئے بھائی تم بھی مایوس نہ ہونا۔
میں سوچ رہا ہوں پچپن (۵۵) سال سے زیادہ عرصہ تک ایک کیس لڑنا بڑی ہمت کی
بات ہے۔ ایسے کیسوں میں سپریم کورٹ کو خصوصی توجہ دے کر اس لاچار اور مجبور
آدمی کی ایسے مدد کرنا چاہئے کہ وہ توہین عدالت اور دوسرے چکروں سے مکمل
نجات پا لے اور جعلسازوں کو بھی سزا ملنی چاہئے ان کی جعلسازی ثابت ہونے کے
بعد سزا نہ ملنے کے سبب وہ مزید دلیر ہو جاتے ہیں۔جبکہ سزا کے نتیجے میں
جعلسازی کی روک تھام ممکن ہو سکے گی۔ سپریم کورٹ کے محترم جج صاحبان عدلیہ
کی ایسی کمزوریوں کی نشاندہی تو بے شمار دفعہ کر چکے ہیں، مگر اس کا سامان
بھی انہی کو کرنا ہے۔ |