سندھ کی گرمی اور گاڑی میں آگ
(Muhammad Abdullah, Lahore)
|
کل کافی سخت موسم تھا. قاضی احمد ضلع نواب
شاہ سے دو مرتبہ ٹیوب ویل اور موٹر پر کپڑوں سمیت نہانے کے بعد بھریا روڈ
ضلع نوشہرو فیروز کے لیے نکلے تو گرمی بہت زیادہ تھی. بھریا بائپاس پر اترا
تو آگے موٹر سائکل سوار نے کہا کہ بھائی میں آپ کو چھوڑ آتا ہوں بھریا روڈ
سو روپے میں اس کے ساتھ معاملہ طے ہوگیا. ہم آپس میں باتیں کرتے ہوئے جا
رہے تھے کہ جونہی ہم نے چھوٹی نہر کا پل کراس کیا سامنےکا منظر دیکھ کر
رونگھٹے کھڑے ہوگئے سامنے ایک بالکل نئی گاڑی دھڑا دھڑ جل رہی تھی. سارے
لوگ دونوں طرف کھڑے اس گاڑی کو جلتا دیکھ رہے تھے. گاڑی کا ڈرائیور بھی جلے
بالوں کے ساتھ قریب ہی کھڑا حسرت و یاس بھری نگاہوں سے جلتی گاڑی کو دیکھ
رہا تھا. اس سے معاملہ دریافت کیا تو بولا کہ قاری صاحب مجھے بالکل سمجھ
نہیں آئی. آرام سے لے کر آرہا تھا یہاں آکر اچانک گاڑی میں آگ بھڑک اٹھی
اور میں نے بڑی مشکل سے باہر کود کر جان بچائی ہے. وہاں پر کافی لوگ جمع
تھے میں نے ان سے کہا کہ بھائیو نہر پاس ہے تو آئیں پانی سے آگ بجانے کی
کوشش کرتے ہیں تو سبھی لوگ کہنے لگے کہ نہ نہ بھائی آگ بہت شدید ہے قریب نہ
جانا دوسرا گاڑی میں سلنڈر ہے وہ پھٹ جائے گا. خوف کا یہ عالم تھا کہ سارے
لوگ دور دور کھڑے تھے کوئی پاس سے گزر بھی نہیں رہا تھا. اچانک سے میرے ذہن
میں سوچوں کا ایک در وا ہوا کہ یہ دنیا کی گرمی ہے کہ سورج اربوں، کھربوں
کلومیٹر دور ہے اور کیفیت یہ کہ دو دو بار نہا کر پھر بھی گرمی کی شدت اور
حدت سے حلق خشک ہو رہا ہے اس گرمی کی شدت سے گاڑی میں آگ لگ گئی ہے جبکہ
ایک گرمی قیامت کے دن کی گرمی ہو گی کہ جس دن سورج ایک میل کے فاصلے پر
ہوگا. آج دنیا میں تو ہم پنکھے اور اے سی کے نیچے بیٹھ کر گزارا کر لیتے
ہیں پانی مل جاتا ہے جس میں نہا لیتے ہیں مگر قیامت والے دن کچھ بھی نہیں
ہوگا یہاں تک کہ سایہ تک نہیں ملے گا، لوگ اپنے پسینے کے اندر ڈبکیاں کھا
رہے ہوں گے اور صرف اللہ کے عرش کا سایہ ہوگا جو صرف ساتھ خوش نصیب بندوں
کو ملے گا. ان خوش نصیبوں میں سے وہ نوجوان بھی جس کی جوانی اللہ کی عبادت
کے اندر گزری ہوگی، اسی طرح ایک نوجوان وہ بھی ہوگا جس کو کوئی عورت برائی
کی دعوت دیتی ہے اور وہ بھرپور موقع ہونے کے باوجود بھی کہتا ہے کہ انی
اخاف اللہ کہ میں اللہ سے ڈرتا ہوں. اسی طرح ایک نوجوان وہ ہوگا جس کا دل
اللہ کے گھر مسجد میں اٹکا ہوتا ہے. دنیا کی اس معمولی سی گرمی اور اس کے
نتیجے میں گاڑی میں بھڑک اٹھنے والی آگ جو چند منٹ سے جل رہی ہے اور کوئی
قریب تک نہیں جا رہا سبھی اس سے بچنے کی فکر میں ہیں، کو دیکھتے ہوئے میرا
ذہن آگے بڑھتے ہوئے جہنم کی آگ کے بارے میں سوچنے لگا کہ کہ وہ آگ جس کی
شدت کی کیفیت یہ کہ اللہ نے اس کو تین ہزار سال تک بھڑکایا ہے اور وہ اتنی
شدت والی آگ ہے کہ حدیث ہے کہ جس شخص کو جہنم میں جس کو سب سے ہلکا عذاب
دیا جائے گا وہ یہ ہوگا کہ اس کو آگ کے دو جوتے پہنائے جائیں گے اور ان دو
جوتوں کی وجہ سے اس کا دماغ ایسے کھولے گا جیسے ہنڈیا چولہے کے اوپر پڑھی
کھولتی ہے. اور جو جہنم کی آگ کا عذاب ہمیشہ ہمیشہ کے لیے ہے. اوہ مسلمان
نوجوانو ہم دنیا کی گرمی اورآگ سے بچنے کی تو بہت کوشش کرتے ہیں مگر اس
قیامت کی گرمی اور جہنم کی آگ سے بچنے کی کوشش نہیں کرتے بلکہ اپنے اعمال
کے ساتھ مذید اس آگ کے قریب ہوتے جارہے ہیں. رمضان کے مقدس مہینے میں بھی
میری آنکھیں برائی دیکھنے سے باز نہیں آتیں، میرے کان میوزک جیسی برائیوں
کو سننے سے باز نہیں آتے، میری زبان سے اس مقدس مہینے میں بھی جھوٹ، غیبت
اور چغلی کے سوا کچھ نہیں نکلتا اور میرا دل جس میں میں اللہ کا ڈر اور اس
کے رسول کی محبت ہونی چاہیے تھی آج وہ گناہوں کی آماجگاہ ہے. اوہ میرے
مسلمان بھائیو اور بہنو ابھی وقت ہے کہ ہم پلٹ آئیں گناہوں سے نیکیوں کی
طرف، نافرمانیوں سے اطاعت اور فرمانبرداری کی طرف اور جہنم کی شعلے مارتی
آگ سے جنت کی خوشنما نعمتوں کی طرف. ابھی توبہ کا در کھلا ہے اس کے بند
ہونے سے پہلے پہلے اس رمضان کے مقدس مہینے میں اپنے دل کی دنیا کو تبدیل کر
کے اللہ سے اپنے سابقہ گناہوں کی معافی مانگ کر اس کی جہنم سے چھٹکارہ حاصل
کرلیں. یہی رمضان کا اور یہی قرآن کا پیغام ہے. اللہ ہمیں قیامت کے دن کی
سختیوں اور جہنم کی آگ سے اپنی پناہ میں رکھے. آمین..... |
|