نائٹ کلب پر حملہ

اس گھرکوآگ لگ گئی گھرکے چراغ سے
چندروزقبل عالمی میڈیاپرنشرہونے اس خبرنے ساری دنیاکودہلا دیاکہ امریکاجیسی سپرپاورکے انٹیلی جنس کے ادارے جوزیرِ زمین،زیر سمندراورہواؤں کوبھی تسخیرکرنے کادعویٰ کرتے نہیں تھکتے،وہ اس لرزہ خیزواقعہ کی بھنک بھی سن پائے کہ ان کے ناک کے نیچے ریاست فلوریڈاکے شہراورلینڈو کے نائٹ کلب میں افغان نژادامریکی عمرمتین ہم جنس پرست نائٹ کلب میں اپنی لائسنس یافتہ خطرناک گن سے اندھادھندفائرنگ کرکے پچاس سے زائدافرادکوموقع پرہی ہلاک اور٥٥سے زائدکوشدید زخمی کرکے ان کی کارکردگی کااس طرح بیچ چوک میں بھانڈہ پھوڑدے گا۔ بلاشبہ امریکا جیسے ملک میں جہاں سیکیورٹی اورانٹیلی جنس اداروں نے ماضی کے مقابلے میں عام آدمی کی آزادیوں پرکافی سمجھوتے کئے ہیں،کی صلاحیتوں کے بارے میں بہت سے سوالات کھڑے کردیئے ہیں لیکن نائٹ کلب میں میں جس طرح کاروائی کی گئی ہے ،یہ اب دوسرے یورپی ملکوں میں ایسے کلبوں کیلئے بھی ایک خطرناک کی گھنٹی ہو سکتی ہے۔

بلاشبہ اس نوعیت کے کلبوں کے بارے میں خودامریکامیںسب اچھاکی رپورٹ ہوسکتی ہے اورنہ ہی امریکااورمغربی دنیامیں ایسے لوگوں کی تعدادمیں بظاہر اضافہ ہورہاہے جوان کلبوں کو آباد کرنا اور رکھنا چاہتے ہیں لیکن اس کاقطعاً یہ مطلب نہیں ہے کہ پوری مغربی دنیا اورامریکاکاہرشہری اسی قماش سے تعلق رکھتاہے۔اگردیکھاجائے توعمرمتین نامی امریکی نوجوان نیویارک امریکامیں ہی پیداہوااوراس نے اپنی زندگی کے ٢٩سال اسی امریکاکے گلی کوچے میں گزارے تھے۔امریکی تعلیمی اداروں میں امریکی اساتذہ کے ہاتھوں تربیت ہوئی تھی۔وہ پکتیااورجلال آبادیاقندھارکے اسلام سے جڑے ہوئے تودرکنار مخصوص پشتون ماحول میں بھی نہ پیداہوا،نہ وہاں کے تعلیمی اداروں اورمدارس کی ہوالگی لیکن اس کے باوجوداس نے اپنی نظرمیں اخلاق باختہ اور بدقماش امریکیوں سے امریکاکوپاک کرنے کیلئے اپنی جان بھی دے دی۔

ایسے عناصرجن کی وجہ امریکااوریورپ میں اخلاق باختگی کی آماجگاہ ہیں (کلب)آبادہیںاوروقت کے ساتھ ساتھ ان میں اضافہ ہورہاہے ۔خودبھی جانتے ہیں کہ انہوں نے خود امریکی اورمغربی اقدارکوآسانی سے توڑ کریہ حقوق حاصل نہیں کیے بلکہ اس کیلئے انہیں ایک لمباسفرطے کرناپڑتاہے۔تاہم یہ طے ہے کہ سرمایہ دارانہ معیشت کے ظالمانہ چکرسے وابستہ امریکی اوریورپی شہریوں کے نظریات و خیالات اورترجیحات تبدیل ہورہی ہے۔اب اجتماعی اپروچ کی جگہ انفرادی سوچ ،افرادی آسائش اورتعیش پسندی لے رہی ہے۔مغربی جمہوریت کے کورمیں اپنی دیرینہ معاشرتی روایات کے خلاف رحجانات کے سرپٹ دوڑنے والے گھوڑے پرسوارہوجاناسنجیدہ فکردانشوراوراکابرین کیلئے باعث تشویش رہاہے۔ان اکابرین کیلئے بوڑھے والدین کاالٹی میٹم ٹھکانہ اولڈہاؤسزکابن کررہ جانابھی پریشانی کاسبب رہاہے لیکن جب انفرادیت پسندسارے اخلاقی،سماجی اورمذہبی بندھنوں کوتوڑپھینکنے پرمائل ہوتومعاشرے کے بڑے بوڑھے مجبوری کی چادراوڑھنے پرمجبورہوجاتے ہیں۔ ایسے ماحول میں پہلے انفرادی آزادی ہررکاوٹ کوتوڑتی پھلانگتی آگے بڑھتی ہے پھر انفرادی آزادی کایہ مادرپدر تصورحیوانیت اورشیطینت کاکارنگ اختیارکرلیتاہے۔
اگرکسی کوشبہ ہے تووہ ان پرانی خبروں کی کھوج کرسکتاہے جویورپ اور امریکاکے ریستورانوں،کلبوں اورحتیٰ کہ لفٹوںمیں اچانک بجلی فیل ہونے کی بنیادپرجنم لیتی رہی ہیں۔سچی بات ہے یہ معاشرے اب محض قوانین کی سخت گیری اورسیکورٹی اداروں کے خوف کی وجہ سے انسانی معاشرے کہلوانے کادعویٰ کرسکتے ہیںوگرنہ وائٹ ہاؤس تک اپنی رنگین داستانوں کی وجہ سے خبروں کاموضوع بن چکے ہیں۔اس لئے جب یہ لکھاگیاکہ ایک نوجوان نے ایک سپرطاقت کودہلادیاتویہ بات کسی ترنگ میں نہیں کہی گئی ہے۔امریکی ومغربی معاشرہ اب ایک شاخِ نازک کاآشیانہ ہے جہاں کاخاندانی نظام بکھرچکا ہے۔ اقدار کوانسانی آزادیوں کے اندھے تصورنے غتربود کردیاہے۔رشتوں کاتقدس قصہ پارینہ بن چکا ہے۔خودغرضیوں،مفادپرستی کامیابی کابہترین اصول قرارپاچکاہے ۔قانون سازی کوخالصتاًانسانی سے زیادہ نفسانی خواہشات اورمعاشی مفادات کے تابع کردیاگیاہے۔قوم میں ایساعنصرجوآج بھی اقدارکے ساتھ وابستگی کاحامی ہے ،عملاًنکوبن کررہ گیاہے۔اس لئے اس کی طرف سے جب جب ردّعمل سامنے آئے گاتوامریکاہی نہیں پورایورپ بھی دہل جائے گا۔

اس واقعے کودوسرے زاویے سے دیکھاجائے تووہ بھی کوئی ایسا غلط نہیں ہے کہ پوری دنیاکواپنی جنگوں کی آگ میں جھلساتے اورجلاتے رہنے والے امریکا تک بھی آگ پہنچ گئی ہے، یقینا یہ آگ کسی دوسرے ملک کے بی باون طیاروں سے لگ رہی ہے نہ ہی نیپام اورکلسٹر بموں کی بارش سے بلکہ خودامریکاکی اپنی خاکسترمیں موجودچنگاریوں سے لگ رہی ہے۔ یہ ایک بے سمت اورخداکے خوف سے بے نیازدنیاکی اندھی حکمرانی کاردّعمل نہیں توکم ازکم ضمنی اثر ضرورہے۔یہ اس غیرملکی لوٹی دولت کاشاخسانہ بھی ہے جوامریکانے بڑی چالاکی اورعیاری سے لوٹی یاسمیٹی ہے۔یہ آگ چونکہ خودامریکاکی اپنی چنگاری سے لگ رہی ہے،اس لئے اورلینڈوکے حالیہ اورتازہ حملے میں ابھی تک تمام ترامریکی حساس ادارے اس کا تعلق کسی روایتی دہشتگردقراردیئے جانے والی تنظیم یاملک سے پرنہیں تھوپ سکے۔اگرچہ امریکی اورمغربی ابلاغی مشینری اوران کی لے پالک تیسری دنیاکے ذرائع ابلاغ کیلئے قطعی مشکل تھاکہ وہ اس کی ذمہ داری بھی کسی کالعدم تنظیم کے نام کردیتے لیکن ایسا ابھی تک ممکن نہیں ہوسکاہے البتہ اس امرکوردنہیں کیاجا سکتاکہ امریکا اور اس کے حواری جس طرح کی سازشی مہمات کاگہراتجربہ رکھتے ہیں،اسی کویہاں بھی بروئے کارلایاگیاہو۔یہ سازشی نظریہ امریکاکیلئے اس لئے بھی ضروری ہو گیاتھاکہ عظیم مسلمان باکسرمحمدعلی کلے کے انتقال کے بعدجس طرح امریکامیں اس عظیم مسلمان کے توسط سے اسلام کومثبت اندازمیں جاننے اورسمجھنے کی عام امریکیوں کے دلوں میں آرزوابھری ،اس کاپیشگی ازالہ اسی طرح ہوسکتاتھا کہ مسلمانوں جیسے نام کاسہارالیتے ہوئے کوئی ایسی واردات کرڈالی جائے جس سے اسلام کیلئے امریکیوں کے دلوں میں قبولیت کی نئی لہرکوروکاجاسکے۔

قابل غوربات یہ بھی ہے کہ ایک ایساامریکی جس کے والدین امریکی اداروں کی تمام ترچھنیوں سے گزرکرامریکی شہری بنے ،ہمہ وقت امریکی حساس اداروں کی نظرمیں رہے،ان کے ہاں امریکی سرزمین پرہی پیداہونے والاعمرمتین ٢٩سال تک اسی ماحول کاحصہ رہنے اوراس دوران ایف بی آئی کے ایک سے زائدبارشرافت کی سندپانے والاٹھیک نہ نکلا، اس کے باوجودکہ وہ خودایک سیکورٹی کمپنی سے بھی وابستہ رہالیکن اس نے اپنی جوانی کے ابتدائی دورمیں توایسے کسی غم وغصے کااظہارنہیں کیاجس کی اسے اب ضرورت پیش آگئی کہ اس نے آناًفاناًاپنے لائسنس یافتہ اسلحہ سے ایک دوتین نہیں بلکہ پورے پچاس امریکیوں کوبھون ڈالااور٥٣کوموت وحیات کی کشمکش میں مبتلاکردیا۔پاکستان پربات بے بات چڑھ دوڑنے کیلئے تیاررہنے والے امریکیوواہ!دوسرے ملکوں میں زمین کے نیچے تک،غاروں کے اندرتک،سمندرکی تہہ تک دیکھ لینے والی امریکی ادارے اس عمرمتین کے مقابلے میں نرے چغدثابت ہوئے۔

کیانائن الیون کے بعدکاامریکابھی اتناہی غیرمحفوظ اورامریکی ادارے اتنے ہی بے بس ہیں جتنے نائن الیون سے پہلے تھے۔کیااپنے شہریوں کی مثبت آزادیوں پرقدغنیں لگانے اوران کی منفی جبلتوں کوپروان چڑھانے کے امکانات بڑھانے والے امریکانے کبھی اس حوالے سے سوچاکہ ایک تہذیبی جنگ اسے اپنے ملک کے اندراپنے ہی لوگوں کے ساتھ بھی لڑناہوگی کہ سارے امریکی اورمغربی شہری محض ووٹ کی خاطراپنی اقدارہی نہیں،اعلیٰ انسانی اقدارکے ساتھ کھلواڑ کرنے کے حق میں نہیں ہوں گے اوراس ناطے ان کاردّعمل بھی کل کلاں ضرور سامنے آئے گاحتیٰ کہ خودویٹی کن سٹی سے پوپ نے بھی ابھی تک حیوانی حدوں کوچھوجانے والی بے راہ روی کے خلاف بیانات دیئے ہیں ، یقیناًامریکی چرچ کے ساتھ کمٹمنٹ رکھنے والے آج بھی کافی معقول تعدادمیںہیں،اسی طرح یہودی بھی اپنے مذہبی معاملات میں حدسے زیادہ کٹرہیں۔کیاایسے مذہبی عناصر کسی بھی وقت پھٹ سکنے کی صلاحیت نہیں رکھتے؟کیاایسے عناصرکسی مسلمان کوچاہیں توورغلاکردہرے مقاصدحاصل کرنے کابندوبست نہیں کرسکتے ،کیاامریکی ادارے خودڈبل گیم کاتجربہ نہیں رکھتے؟اس لئے اس امکان کورد کرنامشکل ہے کہ ایک نوجوان کواستعمال کرکے کسی درپردہ فریق نے اپنے مقاصدکیلئے راہ ہموارکی ہو،خصوصاًایسے ماحول میں جبکہ ممکنہ ری پبلکن صدارتی امیدوارڈونلڈٹرمپ کی انتخابی ضرورت بھی اس سے زیادہ کچھ اورنہ ہوکہ وہ اپنے بنیادی نعرے کے حق میں فضاسازگاربنانے کیلئے امکانات بڑھائے جیساکہ ڈونلڈٹرمپ نے اس واقعے کے فوری بعداپنے مؤقف کوشدومدسے پیش کرنے کی مہم تیزکردی ہے۔حدیہ ہے کہ اس موقع پرامریکاسے ہمدردی ظاہر کرنے والوں نے بھی ٹرمپ کی حدسے بڑھی نفرتی اپروچ کوتنقیدکانشانہ بنانا شروع کردیاہے۔ایساایک بیان آسٹریلیا کے قائدحزبِ اختلاف نے بھی دیاہے کہ ٹرمپ کوروکاجائے۔

اگریہ مان لیاجائے کہ ایساکچھ بھی نہیں ہواجیساکہ اوپرکی سطورمیں کہاگیاہے توکم ازکم اس سے مفربھی ممکن نہیں ہوگاکہ اگرٹرمپ کی انتخابی مہم کواس اندازسے آگے بڑھنے دیاگیا اورامریکی الیکشن کمیشن یاعدالتوں نے نوٹس نہ لیاتوصدارتی الیکشن کے بعدکاامریکاآج کے امریکاسے زیادہ خوفناک ثابت ہوگا لیکن اس کی خوفناکی کابراہِ راست اثراس کے اپنے ہاں جگہ جگہ نظرآئے گا۔ ایک ایساامریکاجس کاپہلاسیاہ فام صدربارک اوبامااوراس کی اہلیہ مشعل اوباما نسل پرستی کی زدمیں رہے ہوں اورکھلے عام اس کااظہاربھی کرتے رہے ہیں۔ ٹرمپ الیکشن جیتے یاہارے ،اس کی انتخابی مہم امریکامیں مذہبی تصادم اور فسادات کیلئے کافی ہوگی۔ایسے حالات میں یہ بھی ممکن ہے کہ مسلمانوں کی معقول تعدادخودامریکا سے نکلنے کافیصلہ کرلے اوربہت سے ایسے بھی ہو سکتے ہیں جوامریکی اورمغربی بینکوں میں پڑاہوااپناسرمایہ واپس لانے پر مجبورہوجائیں۔یوں ایک طرف امریکاکاعالمی تشخص ماضی کے مقابلے میں بدلے گاتودوسری جانب امریکی معیشت کے ابھی سے رک رک کرچلنے والے پہئے کیلئے بھی مزیدمشکلات پیداہوسکتی ہیں تاہم فوری طورپراتناکہاجاسکتاہے کہ اورلینڈو نائٹ کلب میں پیش آنے والے واقعے سے امریکاکے سیکورٹی سسٹم کاپول نہ صرف کھل گیاہے بلکہ دنیابھر میں اوربالخصوص افغانستان میں اس نے جوجنگی آگ بھڑکائی ہوئی ہے ، اس آگ نے اب امریکااوراس کے ہمنواؤں (یورپی ممالک)کوبھی دہکاناشروع کردیاہے۔

بظاہریہ لگتاہے کہ اس نئی پیداہونے والی صورتحال میں اوباماانتظامیہ کاکردار اس لئے وہی ہوگاجوٹرمپ چاہیں گے کہ امریکی صدارت کاانتخاب اب زیادہ دور نہیں ہے۔ایسے میں صدارتی مہم کے گھوڑے پرسوارامریکی میڈیابھی سستی ریٹنگ اورقارئین کی تلاش میں ہوگالیکن امریکاکیلئے جواچھاہے وہ شدت پسندانہ سیاست ہے نہ انتہاپسندانہ صحافت۔امریکا کثیرالاقوامی ملک کی حیثیت رکھتا ہے۔اس میں پہلے ہی بھڑک اٹھنے والاموادوافرمقدارمیں موجودہے۔ان میں ایک طرف انتہاء پسندعیسائی ہیں۔جن کے نمائندہ پادری قرآن پاک جلانے کی ناپاک مہمات چلاچکے ہیں۔انتہاء پسندیہودیوں کے ساتھ ساتھ سیاسی اعتبار سے اپنے اہداف رکھنے والی بااثریہودی تنظیمیں بھی موجودہیں جوکسی بھی صورت میں مسلمانوں کوبرداشت اورقبول کرنے کوتیارنہیںہیں۔اگرڈونلڈٹرمپ اوران کے حواریوں کوتھوڑااورموقع مل گیاتوخاموش امریکی طبقات بھی اٹھ کھڑے ہوںگے ۔جیساکہ جرمنی میںخواتین کوبے عصمت کرنے کے حالیہ برسوں کے قانونی نظام کے خلاف ہرسطح پرآوازیں اٹھناشروع ہوچکی ہیں کہ جرمن قوم کے اقدار پرست طبقات بہرحال اس حدتک اپنی کھلواڑکی اجازت نہیں دے سکتے۔

یہی صورتحال امریکااوریورپ کے دوسرے ملکوں میں پیش آنے میں اب زیادہ دیرنہیںرہ گئی،اس لئے امریکاکے سنجیدہ ومتین حلقوں کوچاہئے کہ ابھی اگلی صدارتی مہم کو حدود قیود میں لانے کیلئے اپنے ملک کی جیوری سے رابطہ کرکے اس کومیدان میں لائیںتاکہ وہ امریکی معاشرے کے تاروپودکوبکھرنے نہ دینے میں اپناکرداراداکرسکیں۔امریکاکاتعارف ایک گندے اورننگے ملک کا بنتا چلاجائے گاتواس کے واحدسپرپاورطاقت ہونے کاتصورتیزی سے تحلیل ہوناشائد کسی کے بھی حق نہ ہو۔اس لیے ضروری ہے کہ اورلینڈ وکے اس واقعے کو مسلمانوں کے خلاف استعمال کرنے کی بجائے اپنی سوسائٹی میں اقدارکوواپس لانے کوایک زینے کے طورپراستعمال کیاجائے،بصورت دیگرمعاشرہ باہم دست وگریبان ہو گااورامریکی نسلی مذہبی تقسیم کے ایسے سفرپر گامزن ہوجائیں گے جس سے سلامتی کے ساتھ واپسی ممکن نہیں ہوگی۔اس لئے عمرمتین جسے امریکی ایجنسیاں خودایک پرامن شہری مانتی رہی ہیں ،انہیں چاہئے کہ اب بھی پرامن ردّعمل کے مؤثررہنے کے اسباب پرغورکریں۔ایسااہتمام نہ ہوسکاتو امریکا ہی نہیں پورے یورپ میں پریشانیاں بڑھ جائیں گی اور دنیا کا یہ شیش محل متاثر ہی نہیں ہوگابلکہ کرچی کرچی ہوجائے گا۔
Sami Ullah Malik
About the Author: Sami Ullah Malik Read More Articles by Sami Ullah Malik: 531 Articles with 390571 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.